مَیں پرانے اور اصل پاکستان کی تلاش میں ہوں

مَیں پرانے اور اصل پاکستان کی تلاش میں ہوں
 مَیں پرانے اور اصل پاکستان کی تلاش میں ہوں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے میدانِ سیاست میں گزشتہ کچھ دہائیوں سے ایسے لوگ ملت پاکستان کی رہبری و رہنمائی کے لئے سرگرداں نظر آتے ہیں، جو سیاسی اخلاص کی ابجد سے بھی آگاہ نہیں ہیں،مگر پاکستان میں ایک دورِ قحط الرجال نمودار ہو جانے کے باعث وہ اپنی طالع آزمائی میں مصروف ہیں ان میں سے قوم و وطن کی شوم�ئ تقدیر کے باعث کچھ کامیاب بھی ہو رہے ہیں اور اپنی اس اتفاقی کامیابی کے باعث تختِ حکومت پر بھی قابض ہو جاتے ہیں یا قابض چلے آ رہے ہیں یا قابض ہو جانے کے لئے شبانہ روز سیاست کے عنوان سے مختلف قابلِ نفرین ہتھکنڈے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں، ہمارے نزدیک عہدِ رواں اور ماضئ قریب کے ایسے نام نہاد سیاست دانوں میں سرفہرست میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان ہیں۔یہ تینوں وہ شخصیات ہیں کہ اگر بانئ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ذات والا صفات کے سیاسی معیار سے ان پر نگاہِ ڈالی جائے تو پاکستان کے تحفظ و سلامتی کے باب میں بارگاہ رب العزت کی طرف فوراً رجوع کرنا پڑتا ہے کہ یا باری تعالیٰ پاکستان کو محفوظ و مامون رکھنا۔ البتہ اس حقیقت سے اطمینان و احساسِ تحفظ قوم و وطن بھی ہوتا رہتا ہے کہ مذکورہ نام نہاد سیاست دانوں کی موجودگی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے پاکستان کے تحفظ و بقا و سلامتی کا سامان بھی اس انداز میں کر دیا ہوا ہے کہ جو کہیں خفیہ و مخفی نہیں، بلکہ ظاہر و باہر اور قوم و وطن کی نگاہ میں رہتا ہے اس سامانِ حفاظت و بقا میں قدرتِ کامل نے سب سے بڑی ناظرہ طاقتِ پاکستان کی صورت ہمیں گویا قوم و وطن کی افواج پاکستان عطا کی ہوئی ہیں اور ایسا پاکستان کی عظیم عدلیہ بھی اپنی قوتِ انصاف کی بالیدگی کے ذریعے قوم کا وہ تاثر بھرپور انداز میں زائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد یا ان کے بعد چار فوجی طالع آزماؤں کے دور میں قائم ہو گیا تھا پھر پاکستان کے عوام بجائے خود ایک بڑی طاقت ہیں اور انہوں نے کئی بار پاکستان کے میدانِ سیاست میں اُتر کر پاکستان کی سیاست پر ناجائز طور پر قابض آمروں کو ذلت آمیز انداز میں ایوانِ اقتدار سے اُٹھا کر باہر پھینک دیا اور آج بھی پاکستان کے عوام بے خبر نہیں ہیں۔ وہ بعض اوقات یابعض ادوار میں خاموش اور تماشائی ضرور نظر آتے ہیں، مگر اس کیفیت میں بھی ان کی احتسابی نظر پاکستان اور پاکستان کے حکمرانوں پر ہی لگی ہوئی ہے اور واقعتا یہی وجہ ہے کہ پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہونے کے باوجود قوم و وطن اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اور اپنی مسلح افواج کی جرأت و شجاعت کے جَلو میں ہر طرح کے دشمنوں کا نہایت پامردی اور دلاوری سے مقابلہ کر رہے ہیں اور صبح و شام ان لوگوں کی باتیں بھی سُن رہے ہیں جو کئی سال سے بے سوچے سمجھے یہ واویلا کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو ایک نیا پاکستان بنا دیں گے یا وہ پاکستان کو ایک نیا پاکستان بنا رہے ہیں اور یہ کہ انہوں نے پاکستان کو بڑی حد تک نیا پاکستان بنا بھی دیا ہے، ہم اس مبالغہ آمیز اور بے حقیقت واویلے کو سُن کر ہمیشہ متعجب ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ان کم اندیش اور نام نہاد سیاست دانوں کے نزدیک نئے پاکستان سے کیا مراد ہے مثلاً عمران خان ہی کو لیجئے ان کے اس شوروغل اور واویلا کا کیا مطلب ہے کہ وہ نیا پاکستان بنا رہے ہیں یا بنا دیں گے۔ کیا میاں نواز شریف کی حکومت کو گرا دینے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر دینے سے وہ سمجھ لیں گے کہ عمران خان نے نیا پاکستان بنا دیا تو پھر ان سے پہلے تو غلام اسحاق خان اور جنرل پرویز مشرف دو بار نیا پاکستان بنا چکے ہیں، مگر انہوں نے اپنے اپنے ادوارِ طاقت میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے چبوترے سے اُتار دینے کے باوجود بھی وہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہوں نے پاکستان کو ایک نیا پاکستان بنا دینے کی معرکہ آرائی کر دی تو اگر اب میاں نواز شریف وزیراعظم نہیں رہتے توکیا اس کا کریڈٹ صرف عمران خان لیں گے اور اسی شوروغل کو عام کرتے پھریں گے کہ انہوں نے نیا پاکستان بنا دیا۔اس جملے کو تو عمران خان نے اتنی بار دہرایا ہے کہ میاں نواز شریف نے بھی عمران خان کے تتبع میں یا اس کی بے اثر بات کو اپنی عقل ودانش کے مطابق مزید بے اثر کر دینے کے لئے یہی بات کہہ دی ہے کہ وہ نیا پاکستان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں،رہے آصف علی زرداری تو ان کے تو پاکستان کی تعمیر و ترقی کے بارے میں واضح خیالات کبھی سامنے ہی نہ آئے،بلکہ ان سے تو وہ بھی نہ ہو سکا کہ جب وہ قوم و وطن کی قدرتی آزمائش کے چکر کے باعث پاکستان کے صدر بن گئے تو پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک طبقے کی اس آس ہی کو پورا کر دیتے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے الم ناک انجام کے بارے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتے اور پاکستان کے اندر مکمل اقتدار، مکمل اختیارات اور تمام تر طاقت اپنے ہاتھ میں آ جانے کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی تو کیا پوری قوم پر یہ حقیقت اظہر من الشمس کر دیتے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کون تھے اور ان کو آصف علی زرداری نے کس طرح قانون کے شکنجے میں جکڑ کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی روح کو عبقیٰ میں کس طرح پُرسکون کیا، مگر پانچ سال کے انتظار کے باوجود بھی آصف علی زرداری وہ عقدہ کسی طرح بھی کشا نہ کر سکے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے الم ناک انجام زندگی کے بارے میں جو قیاس آرائی پاکستان پیپلز پارٹی کے لوگوں یا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہ رکھنے والوں کے دِلوں میں تھی وہ اسی طرح موجود ہے تو پھر پاکستان کے بارے میں آصف علی زرداری سے اب کس رہبری اور رہنمائی کی توقع کی جا سکتی ہے اور وہ کون سی عظیم قومی توقع ہے جو حادثاتی طور پر پاکستان کے صدر ہو جانے والے آصف علی زرداری سے وابستہ کی جا سکتی ہے۔دراصل ہم جن تین نام نہاد سیاسی شخصیات کا ذکر کر رہے ہیں وہ فکرو تدبر اور بصیرت و ادراک کے اعتبار سے اتنے معمولی ہیں کہ وہ نیا پاکستان،نیا پاکستان تو کرتے رہیں گے، مگر پرانے پاکستان اور پرانے پاکستان کو بحال کر دینے کے کسی عزم کا اظہار نہیں کریں گے، کیونکہ میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کی نگاہِ سیاست وذاتی مفادات اتنی محدود ہے اور ان کی اپنی ذات پر حاوی و محیط ہے کہ وہ پرانے پاکستان کے بحال ہو جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے،حالانکہ ملت پاکستان کے دِل و دماغ میں اس پاکستان کو دیکھنے کی تڑپ موجود ہے، جو خیبر پاس سے لے کر چائکام کی پہاڑیوں تک برصغیر کے مسلمانوں کے رہبرِ فرزانہ حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی عظیم الشان قیادت میں14اگست1947ء کو معرضِ وجود میں آیا تھا، مگر جس طرح نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان آج اپنے غیر پاکستانی خیالات اپنے سینوں میں سمیٹے پاکستان کے دشمن نمبر ون بھارت کے لیڈرز کے گرویدہ بنے پھرتے ہیں اور بھاگ بھاگ کر ان سے ملاقات کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔اسی طرح 1970-71ء میں ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان شومئ تقدیر کے باعث پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے اختیارات و سیاست پر قابض تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کی عاقبت نااندیشہ کوششوں سے پاکستان دو لخت ہوا اور اس وقت کے بعد اب تک پاکستان اور میرے جیسے پاکستان کے فرزند پاکستان کے اس عظیم سپوت کے انتظار میں ہیں، جو پرانے پاکستان کو بحال کر دینے کی بصیرت و طاقت و سیاسی قوت رکھتا ہو۔

مزید :

کالم -