سپریم کورٹ توبہ کرسکتی ہے تو ایک گناہ گار تائب کیوں نہیں ہوسکتا،نوازشریف بہت سے معاملات پر اندھیرے میں رہے

سپریم کورٹ توبہ کرسکتی ہے تو ایک گناہ گار تائب کیوں نہیں ہوسکتا،نوازشریف بہت ...
سپریم کورٹ توبہ کرسکتی ہے تو ایک گناہ گار تائب کیوں نہیں ہوسکتا،نوازشریف بہت سے معاملات پر اندھیرے میں رہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کافیصلہ سناتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا ہے ۔سپریم کورٹ نے میاں محمد نواز شریف ،مریم نواز شریف ،حسین نواز شریف ،حسن نوازشریف ، کیپٹن (ر) محمد صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی جاری کیا ہے جبکہ صدرمملکت سے کہا ہے کہ جمہوری عمل کے تسلسل کے لئے آئین کے تحت اقدامات کئے جائیں ۔سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت نااہل قرار دیا ہے ۔آئین کے اس آرٹیکل کے مطابق جوشخص صادق اور امین نہ ہو وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے اہل نہیں ہوگا۔18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس آرٹیکل میں اضافہ کیا گیا کہ اس بابت کسی عدالت کا ڈیکلریشن موجود ہونا چاہیے مطلب یہ کہ جب تک کوئی عدالت کسی شخص کے بارے میں یہ قرار نہ دے دے کہ وہ صادق اور امین نہیں ہے اسے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔سپریم کورٹ نے نواز شریف کے بارے میں قرار دیا کہ انہوںنے یو اے ای کی فرم کیپٹل ایف زیڈ ای سے غیروصول شدہ لیکن قابل وصول اثاثوں کو ظاہر نہیں کیا، وہ صادق اور امین نہیں ۔کیا وہ ہمیشہ کے لئے نااہل ہوگئے ہیں ؟ آئین کے آرٹیکل 62میں نااہلی کی کوئی معیاد مقرر نہیں ہے ،اس لئے اس آرٹیکل کی زد میں آنے والے افراد کو دائمی نااہل تصور کیا جاتا ہے ۔نواز شریف کے معاملے پر ایم این اے افتخار چیمہ کیس کے فیصلے کا اطلاق نہیں ہوتا ۔افتخار چیمہ کو اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم بنچ ،جس میں جسٹس عظمت سعید بھی شامل تھے ،نے آئین کے آرٹیکل62کے تحت نااہل قرار نہیں دیا تھا بلکہ انہیں عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 12کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا ۔افتخار چیمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنی اہلیہ کے اثاثے ظاہر نہیں کئے تھے جس کے بعد ان کے خلاف انتخابی عذرداری دائر کی گئی اور معاملہ الیکشن ٹربیونل کے بعد سپریم کورٹ پہنچا ،سپریم کورٹ نے اثاثے چھپانے کے جرم میں عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت ان کی بطور ایم این اے کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم کیا اور پھروہ اسی حلقہ سے اپنی خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں حصہ لے کر دوبارہ کامیاب ہوگئے ۔سپریم کورٹ نے افتخار چیمہ کے بارے میں صادق اور امین نہ ہونے کا ڈیکلریشن جاری نہیں کیا تھا ۔اب جب تک میاں نواز شریف کے خلاف صادق اور امین نہ ہونے کا عدالتی ڈیکلریشن منسوخ نہیں ہوجاتا وہ نااہل رہیں گے۔اس حوالے سے اختررسول اورطارق عزیز سمیت سپریم کورٹ حملہ کیس میں سزا یافتہ ارکان اسمبلی کی مثال دی جاسکتی ہے ۔18ویں آئینی ترمیم سے قبل توہین عدالت میں سزا یافتہ افراد کی نااہلی کی بابت کو معیاد مقرر نہیں تھی ،اس لئے 18ویں ترمیم کے نفاذ سے قبل تک ان سیاستدانوں کو دائمی نااہل تصور کیا گیا اور انہیں کسی بھی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تاہم 2010ءمیںآئین کے آرٹیکل 63(1)جی میں ترمیم کردی گئی اور قرار دیا گیا کہ توہین عدالت کے جرم میں سزا پوری کرنے کے 5سال بعد متعلقہ شخص پارلیمنٹ کی رکنیت کا اہل ہوگا۔اس ترمیم کے نتیجہ میں ہی سپریم کورٹ حملہ کیس میں سز ایافتہ سیاستدانوں کی نااہلیت ختم ہوئی ۔آئین کے آرٹیکل63میں مختلف جرائم میں سزا یافتہ لوگوں کے لئے نااہلی کی مختلف معیادیں مقرر ہیں جیسا کہ اخلاقی گراوٹ کے جرم میں سزا یافتہ شخص سزا پوری ہونے کے 2سال بعد الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔سرکاری ملازمت سے غلط روی کی بنا پر برطرف شخص کی برطرفی کے 3سال بعد پارلیمنٹ کی رکنیت کا اہل ہوگا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی شخص اگر غلطی سے اپنے اثاثے ظاہر کرنے میں ناکام رہے تو اس کے صادق اور امین نہ ہونے کا ڈیکلریشن جاری کرکے اسے تاحیات نااہل قرار دینا کس حد تک قرین انصاف ہے ۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ نواز شریف نے یو اے ای کی فرم کیپٹل ایف زیڈ ای سے غیروصول شدہ لیکن قابل وصول اثاثوں کو کاغذات نامزدگی میںظاہر نہیں کیااوراس بابت جھوٹا بیان حلفی دیا ۔اس بنا پر انہیں عوامی نمائندگی ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل62(1)ایف کے تحت نااہل قرار دیا جاتا ہے ۔ایساسہو اً بھی ہوسکتا ہے کہ نواز شریف یواے ای کا اقامہ اور غیر وصول شدہ اثاثے ظاہر نہ کرسکے ہوں،اس بابت انہوں نے سپریم کورٹ میں وضاحت بھی دی تھی کہ انہوںنے کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت پاسپورٹ کی جو نقل فراہم کی تھی اس پر لگے ہوئے اقامہ میں یہ تفصیلات موجود تھیں۔کیا کوئی ایسا شخص جو کسی ایک موقع پر صادق اور امین نہ رہا ہو اسے توبہ کا حق حاصل نہیں ؟کیا کوئی شخص اپنے گناہ سے تائب نہیں ہوسکتا ۔اگر سپریم کورٹ اپنے نظریہ ضرورت سے تائب ہوسکتی ہے تو یہ حق کسی عام شہری کو کیوں نہیں دیا جاسکتا؟سندھ بار ایسوسی ایشن کیس کے فیصلہ میںاس وقت کے چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں پرویز مشرف کے مارشل لاءکو جواز فراہم کرنے اور نظریہ ضرورت کے استعمال کے حوالے سے قراردیا تھا کہ عدلیہ اب اس سے توبہ(Repent) کرتی ہے ۔تائب ہونے کا فیصلہ 31جولائی 2009ءکو فل کورٹ نے جاری کیا تھا اور اس میں جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت ایسے جج شامل تھے جنہوں نے پرویز مشرف کے 12اکتوبر 1999ءکے مارشل لاءکو "عدالتی جواز "بخشا تھا یا پھر انہوں نے کسی وقت پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا ۔آئین میں مختلف جرائم میں سزا یافتہ افراد کی نااہلیت کی معیاد مقرر ہے لیکن ایسے شخص کے لئے توبہ کے دروازے بند ہیں جس کے بارے میں محض ایک اقدام کی بنیاد پر عدالت نے صادق اور امین نہ ہونے کا ڈیکلریشن جاری کردیا ہو۔پاناما لیکس کیس میں وزیراعظم بہت سے معاملات پر اندھیرے میں رہے ،20اپریل کے حکم میں سپریم کورٹ نے تحریر کیا تھا کہ معاملہ وزیراعظم کی نااہلی کی طرف گیا تو انہیں عدالت میں طلب کیا جاسکتا ہے اور ان پر جرح کی جاسکتی ہے ۔یہ فیصلہ ان ہی تین ججوں کا تھا جوعمل درآمد کیس میں شامل تھے ،عمومی تاثر یہی ہے کہ عدالت جس چیز کا عندیہ دیتی ہے اس پر عمل کرتی ہے ۔عمل درآمد بنچ نے نوازشریف کو طلب کیا اور نہ ان پر جرح کی جس سے یہ تاثر لیا گیا کہ معاملہ ان کی نااہلی کی طرف نہیں جارہا ۔اگرچہ نظر ثانی کی درخواست کا سکوپ بہت محدود ہے پھر بھی نوازشریف اور دیگر مدعا علیہان کو نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا اپنا حق ہر صورت میں استعمال کرنا چاہیے تاکہ ان کے اعتراضات عدالتی ریکارڈ پر آسکیں۔نظر ثانی درخواست میںیہ اعتراض بھی اٹھایا جاسکتا ہے وزیراعظم اور دیگر مدعا علیہان کے خلاف درخواستیں پانامالیکس کی بنیاد پر دائر ہوئی تھیں جس میں یواے ای کی فرم کیپٹل ایف زیڈ ای اورنواز شریف کے اقامہ کا ذکر تک نہیں تھا ،جہاں تک نئے وزیراعظم کے انتخاب کا تعلق ہے یہ کتنی مدت کے اندر ہونا چاہیے اس بابت آئین خاموش ہے تاہم جمہوری تسلسل برقرار رکھنے کے حوالے سے سپریم کورٹ نے صدر مملکت سے اقدامات کاجو تقاضا کیا ہے اس کے بعد خیال کیا جارہا ہے کہ نئے وزیراعظم کے انتخاب میں زیادہ تاخیر نہیں ہوگی ،پاکستان کے آئین میں قائم مقام وزیراعظم کا عہدہ بھی موجود نہیں ہے ،وزیراعظم کا عہدہ خالی ہونے سے کئی حکومتی امور کی انجام دہی میں رکاوٹ آگئی ہے ۔نئے وزیراعظم کا جلدانتخاب اس لئے بھی ضروری ہے کہ آئین میں وزیراعظم اور کابینہ کو جو اختیارات حاصل ہیں انہیں کوئی دوسرا سرکاری عہدیدار استعمال نہیں کرسکتا۔

مزید :

تجزیہ -