موت کا کھیل۔۔۔ ون ویلنگ
ہمیں مظاہر فطرت کے پس پردہ بھی رونمائی وخودنمائی جیسے محرکات کا ر فرمانظر آتے ہیں، خالق کائنات نے انسان جیسی خوب صورت ترین تخلیق کی رونمائی کے لئے کائنات بنائی۔ ازل سے جائزہ لیجئے تو انسان اپنی اسی خواہش کے زیر اثر رونمائی وخودنمائی کرتا نظرآتا ہے اور یہ کچھ مثبت اور کچھ منفی رویے بھی انسان کے ذہن کی اسی متنوع سوچ کی غمازی کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں نوجوان وقتی طور پر ہیرو بننے کے لئے اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کا اظہار زندگی اور موت کے درمیان لٹکتے ہوئے کر رہے ہوتے ہیں ۔اس موت کے کھیل میں آپ کا لخت جگر بھی ہوسکتا ہے جو لڑکپن اور جوانی کے درمیان معلق رونمائی کی شدید خواہش کے تحت زندگی جیسی قیمتی متاع کو داؤ پر لگانے کے درپے ہے ان صلاحیتوں کا اظہار اچھے اندار میں بھی تو کیا جا سکتا ہے ۔ ون ویلنگ جیسے خطرناک کھیل کے ذریعے ہی کیوں؟ ہم نے نوجوانوں میں ون ویلنگ جیسے خطرناک رجحان کا بڑی گہرائی سے اس کے پس منظر وپیش منظر کے ساتھ جائزہ لیا۔ا س ضمن میں جو بھی نتائج اخذ کیے گئے آیئے ان میں آپ کو بھی شریک کرتے ہیں۔ مغربی ممالک کے اسپورٹس چینلز نے تو کار ،موٹر سائیکل اور سائیکل کے کرتب دکھانے کو باضابطہ کھیل کا درجہ دے رکھا ہے ۔ موٹر سائیکل اور سائیکل سوار انتہائی اونچائی ، گہرائی، ڈھلوان، پھسلن اور خلاء میں جمپ لگاتے ، قلابازیاں کھاتے اور ہاتھ چھوڑ کر طرح طرح کے خطرناک کرتب کرتے نظر آتے ہیں مگر یہ سب کچھ کرنے کے لئے ہر کھلاڑی ہیلمٹ اور کٹ پہن کراور متعلقہ کھیل کے لئے ماہر کوچز سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد کھیل میں شریک ہوتے ہیں ۔ ہر کھیل کے لئے خصوصی گراؤنڈ اور کورٹس انتہائی محنت سے تیار کئے جاتے ہیں اور کھلاڑیوں کو حتی الامکان چوٹ لگنے سے بچانے کی احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ان کھیلوں کو وضع کردہ اصول وضوابط کے تحت کھیلنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔
کھیلوں کی یہی سرگرمیاں جب تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے نوجوان دیکھتے ہیں تو ان کا مشرقی خون بھی جوش مارتا ہے مگر ہمارے پاس نہ تو روایتی وجدید کھیلوں کے لئے میدان اور کورٹس دستیاب ہیں اور نہ ہی سہولت وسرپرستی کی نعمت یہی وجہ ہے کہ ہمارے با صلاحیت نوجوان اپنی مثبت خوبیوں کا اظہار ون ویلنگ کے ذریعے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اندر کا تھرل انہیں آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا اور خو دنمائی ورونمائی پر اکساتا ہے ۔ ایسے میں آئے روز کے حادثات میں کئی گھروں کے چشم وچراغ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور وہ نوجوان یہ دیکھنے کے لئے زندہ نہیں رہتے کہ ان کی موت کے بعد ان کے والدین کیسے جیتے جی مرجاتے ہیں۔ شاد باغ، لاہور کے علاقے میں ون ویلنگ کے ماہر اکیس سالہ اقبال خان جسے پیار سے اس کے دوست بالا کہتے ہیں سے مکالمہ یوں ہوا۔ آپ ون ویلنگ کیوں کرتے ہیں؟ بس جی شوق ہے جنون ہے اتنے خطرناک کھیل کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ دوستوں کی دیکھا دیکھی اور ان سے آگے نکلنے کی دھن میں۔ بھائی یہ موت کا کھیل ہے تمہیں ڈر نہیں لگتا؟ سرجی جو ڈر گیا وہ مرگیا۔ پولیس نہیں پکڑتی؟ جی پکڑ لیتی ہے جرمانہ کرنے کے بعد چھوڑ دیتی ہے اور کبھی کبھارحوالات کی ہوا بھی کھانا پڑتی ہے۔ ہیلمٹ کیوں نہیں پہنتے؟ ون ویلنگ کرتے ہوئے ہیلمٹ تنگ کرتا ہے اور پھر لڑکیاں بھی نہیں پہنچانتیں۔ کتنا پڑھے ہوئے ہو؟ میٹرک فیل مگر ون ویلنگ میں نمبرون ہوں، اس خطرناک کرتب بازی سے آپ کو والدین نہیں روکتے؟ جی والد صاحب کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا اور والدہ کو پتاہی نہیں۔ شیرو نے Facebook پر اپنی اور دوستوں کی ون ویلنگ کے مظاہروں کی تصاویر اور ویڈ یو کلپس لگا رکھی ہیں۔ہم نے نوجوان سے گفتگو کے دوران محسوس کیا کہ اک جنون ہے ، اک سودا ہے ، جو اس کے سر میں سمایا ہوا ہے، ایسے میں کوئی اچھی بات، کوئی نصیحت اسے موت کے کھیل سے روک نہیں سکتی۔ ماں بے چاری کو پتا ہی نہیں کہ اس کا لخت جگر کن راہوں کا مسافر ہے، پتا اس وقت چلے گا جب گھر میں خبر آئے گی۔
اگر اسی نوجوان کو ون ویلنگ کا نمائندہ سمجھ لیا جائے تو ون ویلنگ اختیار کرنے کے پیچھے والدین کی عدم توجہی ، گھریلو ماحول، غربت، جہالت، بے روز گاری ، بے راہ روی اور بری صحبت جیسے مضمرات کارفرما نظر آتے ہیں۔ یہ سماج کے دیئے ہوئے وہ تحفے ہیں جو ہر تیسرے گھر میں وافر تعداد میں موجود ہیں اور ان سب کی ایک ہی کہانی ہے ۔ و ن ویلنگ کے سماجی اور نفسیاتی مضمرات کے حوالے سے ایک معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ آج کل ہمارے سماجی ومعاشرتی مسائل کی بنا پر گھٹن اور حبس اس قدر بڑھ گیا ہے کہ گھر کی چار دیواری میں مزدوزن کا دم گھٹنے لگا ہے ۔ اپنی اپنی جگہ والدین اور بچوں کے صبر وبرداشت کے پیمانے لبریز ہوتے جارہے ہیں ۔ میاں بیوی، بہن بھائی اور بچے ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندانوں کی اکائی کمزور ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، فرد اپنے آپ ہی میں تنہا اور عدم تحفظ کا شکار ہورہا ہے، خاص طور پر نوجوان بے روز گاری کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہیں۔ وہ ہر طرف لڑائی اور مار کٹائی دیکھ کر متشدد رویوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان والدین کی عدم توجہی کی بناء پر نفسیاتی دباؤ میں ون ویلنگ اور دیگر منفی سرگرمیوں کے ذریعے دوسروں کی توجہ حاصل کرنے پر مجبور ہیں، تاہم اس ضمن میں کچھ دانشوروں کا موقف ذرا مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکپن اور جوانی کی عمر کا تقاضا ہے کہ اس عمر میں انسان کوئی نہ کوئی نیا اور اچھوتا کام کرنے کی کوشش کرتا ہے ، جو دوسرے نہ کرسکتے ہوں۔ون ویلنگ محض ایڈونچر ہے اور کچھ نہیں۔ جیسے پچھلی جنریشن کے افراد اپنے پچپن میں غلیل سے شکار کرتے ، پتنگیں اڑاتے ، درختوں پر چڑھ کر پھل توڑتے تو ان کا تھرل اور ایڈونچر وہی تھا۔
اب ہم کمپیوٹر ایج سے گزر رہے ہیں، چنانچہ نوجوان تھرلنگ کا شوق ون ویلنگ کے ذریعے پورا کر رہے ہیں تو حکومت کو چاہئے کہ وہ نوجوانوں میں کھیلوں کی صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے لئے پالیسی بنائے۔ یورپ کی طرح ون ویلنگ اور ایسے جدید کھیلوں کے لئے کم از کم ملک کے تمام بڑے شہروں میں جدید سہولتوں سے مزین میدان اور کورٹس تیار کرائے تاکہ نوجوان ون ویلنگ جیسے شوق سڑکوں پر پورے کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ ون ویلنگ کے خلاف قانون سازی اور تادیبی کارروائی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں شمار کی جائے گی، چنانچہ حکومت مغربی اقوام کے مثبت طرز عمل کو اپناتے ہوئے پاکستان کے نوجوانوں کی فلاح بہبود پر توجہ دے ۔ ہمارے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، انتہائی کم وسائل اور نا آسودگی کے باوجود ان ہی نوجوانوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کامظاہرہ کرکے ملک کا نام روشن کیا ہے ۔
آپ نے شاید اب تک صر ف لڑکوں کو سڑک پر ون ویلنگ کرتے دیکھا ہو، مگر ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اس میدان میں لڑکیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی قطعاً کوئی کمی نہیں، تاہم موجودہ معاشرتی نظام میں ٹیلنٹ کو آزمانے اور مثبت استعمال کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔دور جدید کے کھیلوں اور صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے لئے بنیادی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کا کام ہے، ان کھیلوں کے فروغ کے لئے انفراسٹرکچر، ادارے قائم کرے، اگر حکومت مناسب منصوبہ بندی، سرپرستی اور چیک اینڈ بیلنس کرنے میں دلچسپی لے تو مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری ادارے/ حکومت فوری طور پر ایسی متوازن منصوبہ بندی کریں کہ جس سے عوامی فلاح و بہبوداور ملک کو درپیش فوری مسائل کے حل نکالے جا سکیں۔