انتہا پسندولندیزی کی شرانگیزی
اس ولندیز ی باشندے نے قرآن کا موازنہ اوڈلف ہٹلر کی کتاب مائن کیمف سے کیا۔ وہ نیدر لینڈز(ہالینڈ) میں قرآن پر پابندی چاہتا ہے۔ وہ ہیڈسکارف اوڑھنے والی خواتین پرٹیکس کی تجویز پیش کر چکا ہے۔ وہ مسلم ممالک سے مہاجرین کی آمد پر پابندی کی وکالت کرتا ہے۔ وہ مساجد کو بند کرنا چاہتا ہے۔اس کے انتہا پسندانہ خیالات پر مبنی 2008ء کی فلم فتنہ کا دنیا بھر میں چرچا ہوا اور خاصی شدید تنقید سے دوچار ہوئی۔ اس کے خلاف عدالت میں مراکشی باشندوں کے خلاف امتیازی سلوک کو ہوا دینے اور اشتعال انگیزی کا الزام صحیح ثابت ہوا۔ عدالت نے کہا کہ جمہوریت میں اگرچہ آزادی اظہار اہم ہے، لیکن اس کی حدود متعین ہیں۔اس انتہا پسند شخص کا نام گیرٹ ولڈرز ہے۔۔۔۔اسلام دشمنی کی وجہ سے وہ ذاتی زندگی میں اچھوت بن گیا۔ مستقل طور پر چھ محافظوں کے محاصرے میں رہتا ہے۔ ملاقاتیوں کوبغیر تفتیش وتحقیق ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے دیئے گئے نامعلوم سیف ہاؤسز میں رہائش پذیر ہے۔ان سیف ہاؤسز کی نگرانی کے لئے ہمہ وقت محافظ تعینات رہتے ہیں۔سیکیورٹی خدشات کے باعث وہ اپنی بیوی سے ہفتے میں دوبارسیف ہاؤس میں ملاقات کرتا ہے۔ گیرٹ کا کہنا ہے: ’’محافظ ہر وقت ساتھ ہیں، اگر میں باتھ روم بھی جاتا ہوں تو وہ دروازے کے باہر پہرا دیتے ہیں۔ دھمکیاں دینے والے آزادی سے گھوم رہے ہیں اور جن کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، وہ قیدی جیسی حالت میں ہیں‘‘ ۔
نیدر لینڈز (ولندیز ) میں رکن پارلیمنٹ اور پارٹی فار فریڈم کے سربراہ گیرٹ ولڈرز نے انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حرمت رسولؐ پہ حملہ آور ہونے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ ڈچ پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کروانے کا اعلان کیا ہے۔اس کی اجازت نیدر لینڈز کے قومی سلامتی کے محکمے اور محکمہ انسداد دہشت گردی نے دے دی ہے۔ڈچ محکمہ انسداد دہشت گردی یا NCTDڈچ وزارت سلامتی اور انصاف کے زیر اہتمام ایک کونسل ہے جس کی سربراہی وزیر قانون و انصاف کرتا ہے۔ اس محکمے کی اجازت سے ظاہر ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے گھناؤنے فعل میں نیدر لینڈز کی حکومت دل و جان سے شریک ہے۔ گیرٹ ولڈرز اس سے قبل متنازع فلم فتنہ کی ہدایت کاری بھی کرچکا ہے۔ گیرٹ چاہتا تھا کہ یہ مقابلہ پارلیمنٹ میں منعقد ہو۔ ڈچ پارلیمنٹ کی مراکشی نژاد مسلمان اسپیکر خدیجہ عارب کی طرف سے اجازت نہیں دی گئی۔اس پرگیرٹ نے طعنہ دیا : ’’ اس کی محمدؐ سے محبت آزادی اظہار سے زیادہ ہے‘‘۔ اب یہ مقابلہ پارٹی فار فریڈم کے چیمبرز میں ہو گا۔خدیجہ عارب کا کہنا ہے کہ پارلیمانی چیمبرز میں اپنی مرضی سے اجتماع کرنا اس کے عمل کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں۔ گیرٹ نے ٹوئیٹر پر کہا کہ وہ اسی سال میں یہ مقابلہ منعقد کروائے گا۔ گیرٹ اور بوچ فاوسٹن اس مقابلے میں جیوری کے فرائض ادا کریں گے۔ بوچ امریکہ میں 2015ء میں محمدؐ کارٹون کا مقابلہ جیت چکا ہے۔ بوچ فاوسٹن پر 2015ء میں ٹیکساس میں حملہ ہوا تھا جہاں وہ کارٹون مقابلے میں اول آیا تھا۔گیرٹ کے مطابق اس مقابلے کا تعلق آزادی اظہار سے ہے، اشتعال انگیزی سے نہیں ہے۔ہر کوئی اس میں شریک ہو سکتا ہے۔ جب تک کہ وہ موضوع کے مطابق کارٹون بنائے گا۔پہلا انعام پانچ ہزار یورو (تقریباً ساڑھے سات لاکھ پاکستانی روپے) ہے، جو کہ ایک نا معلوم شخص نے عطیہ کیا ہے۔ دوسرا انعام دو ہزار یورو(تقریباََِ تین لاکھ پاکستانی روپے) ہے۔
گیرٹ نے 2006 ء میں پارٹی فار فریڈم (پی وی وی) تشکیل دی۔ اسی سال عام انتخابات میں مسلمانوں اور اسلام مخالف مہم کے بل بوتے پرنو سیٹیں حاصل کیں،یوں پارلیمنٹ میں پانچویں بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ چار سال بعد 2010 ء کے انتخابات میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور چوبیس سیٹیں حاصل کر کے وہ نیدر لینڈز کی تیسری بڑی جماعت بن گئی۔حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بیس سیٹوں کے ساتھ پارٹی فار فریڈم اب نیدر لینڈز کی دوسری بڑی جماعت مانی جاتی ہے۔مسلمانوں کی زمینوں پر حملے جاری ہیں، مسلمانوں کے ذہنوں پر حملہ حملے جاری ہیں، مسلمانوں کی جغرافیائی سرحدوں اور مسلمانوں کی نظریاتی سرحدوں دونوں کو دشمنوں نے نشانہ بنا رکھا ہے۔ اقوام متحدہ ، مغربی ممالک اور بین الاقوامی ادارے گاہے گاہے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق ، انسانی حقوق اورحقوق نسواں پر بھاشن دیتے ہیں اوراس ضمن میں قانون سازی کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ کیا ہمارے مذہبی حقوق کے لئے آج وہ آواز اٹھا رہے ہیں ؟ کیا اقوام متحدہ کی نظر میں ایسے کارٹون مقابلے اتحاد کا باعث ہیں یا افتراق کا ؟ ایک ارب اسی کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری کیا معمولی بات ہے؟ اقوام متحدہ فروری 2018ء کے پہلے ہفتے کو عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کے ہفتے کے طور منا چکی ہے۔وہ لکھاری جو بیچ چوراہے گوروں کی تہذیب کے مبالغہ آمیز قصیدے بیان کرتا ہے۔،گورے گیرٹ کی بد تہذیبی پر نجانے اس کا قلم کب حرکت کرے گا؟
اس کارٹون مقابلے کے انعقاد کو روکنے کے لئے درج ذیل عملی اقدامات نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔۔۔ایک: حکومتی سطح پر احتجاج کیا جائے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیرسینیٹر ساجد میر نے ایوان بالا (سینٹ) میں آواز بلند کی ہے اور چیئرمین سینٹ کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ تمام جماعتوں کی طرف سے مشترکہ قرارداد پیش ہونی چاہئے، اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر اس معاملے کواٹھانا چاہئے۔ دو: پاکستان میں نیدر لینڈز (ہالینڈ) کے سفارتخانے کوای میل ارسال کی جائے۔ سفارتخانے کے فون نمبر پر کال کی جائے۔ سفارتخانے کے پتے پر ڈاک سے خطوط بھیجے جائیں۔ ہالینڈ کے سفارتخانے کے فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام ارسال کریں۔ تین: ہالینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کوای میل ،فون ، فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام ارسال کریں۔چار: پاکستانی وزارت خارجہ کوای میل ،فون ، فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام ارسال کریں۔ پانچ: اقوام متحدہ کوای میل ،فون ، فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام ارسال کریں۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کے مشن کو ای میل ،فون ، فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام ارسال کریں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مشن کو ای میل ،فون ، فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام ارسال کریں۔ چھ: دنیا بھر میں پھیلی ہوئی نیدرلینڈز کے معروف تجارتی برانڈز کی مالک کمپنیز کو ای میل ،فون ، فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام ارسال کریں۔ سات: سوشل میڈیا پر احتجاجی پیغامات کو منظم مہم کی صورت دی جائے اور رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔۔۔ اگرچہ گیرٹ کی حرکت تہذیب کے دائرے سے باہر ہے، لیکن ہمارے احتجاجی پیغامات تہذیب کے دائرے سے باہر نہیں ہونے چاہئیں۔ مثلا ، ہم یہ پیغام دے سکتے ہیں: ’’ہم ایک ارب اسی کروڑ مسلمان محمد ؐ سے محبت کرتے ہیں۔ گیرٹ کو روکا جائے کہ وہ کارٹون مقابلے کے انعقاد سے گریز کرے۔ وہ دنیا کا امن برباد کر رہا ہے، اس کاہاتھ روکیں۔ سٹاپ گیرٹ، سٹاپ کارٹون کانٹیسٹ‘‘۔۔۔ آزادی اظہار کے متوالے کو اعتدال پسند نے کہا کہ آپ کے ہاتھ گھمانے کی آزادی وہاں ختم ہوتی ہے، جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کی ناک آپ کے ہاتھ سے محفوظ نہیں، تو پھر آپ کی ناک ، ساکھ اور دھاک بھی لوگوں کے ہاتھ سے محفوظ نہیں۔