الیکشن اور سیاستِ پاکستان: تاریخ دہرائی جائے گی؟

الیکشن 2018: نتائج آگئے، قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نمبر ون ہے، جبکہ مسلم لیگ نواز صوبہ پنجاب میں نمبر ون اور مرکز میں نمبر ٹو ہے، پاکستان تحریک انصاف مرکز اور خیبر پختونخوا میں حکومتیں بنانے جارہی ہے جبکہ نواز لیگ نے صوبہ پنجاب میں حکومت سازی کا عندیہ دیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کا مرکز اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنا لینا یقینی ہے کیونکہ عددی برتری واضح ہے کہ وہ آسانی سے حکومتیں بنالے گی، پنجاب میں ن لیگ کو حکومت سازی کے لئے محنت کرنا ہوگی،لیکن جو مشکلات اسے درپیش ہیں اُن کے مقابلے میں یہ محنت اکارت بھی جا سکتی ہے،کیونکہ یہاں پی ٹی آئی کے پاس بھی ممبران کی مناسب تعداد موجود ہے اس لئے اگر وہ بھی کوشش کرے تو اسے بھی کامیابی مل سکتی ہے، کیونکہ مرکز میں یقینی حکومت سازی کے باعث انہیں ایک طرح سے برتری حاصل ہے، وہ کامیابی اور فتح کے جذبات سے سرشار ہے، اس لئے دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں اور آزاد ممبران کو ساتھ ملا کر وہ پنجاب میں بھی حکومت سازی کرسکتی ہے، آنے والے چند دنوں میں صورتحال واضح ہوجائے گی جب آزاد ممبران کسی بھی پارٹی میں شمولیت کا اپنا آپشن استعمال کریں گے۔
ہمارے ہاں ہونے والے انتخابات کی ’’پاکیزگی‘‘ اور ’’غیر جانبداری‘‘ ہمیشہ سے مشکوک رہی ہے جیتنے والے اسے شفاف اور غیر جانبدار قرار دیتے ہیں جبکہ ہارنے والے اسے دھاندلی زدہ قرار دے کر نتائج قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، لیکن عام طور پر معاملات آگے بڑھتے رہتے ہیں، دھاندلی کا شور بالآخر بغیر نتائج کے انجام کو پہنچ جاتا ہے، لیکن پاکستان کی تاریخ میں ایک مرتبہ 1977ء میں الیکشن دھاندلی کے نتیجے میں چلنے والی تحریک حکمران جماعت کو لے ڈوبی، صرف حکمران جماعت ہی نہیں بلکہ پورے نظام کو لے ڈوبی۔ ذوالفقار علی بھٹو ہماری قومی تاریخ کے ایک بڑے لیڈر ہیں وہ جنرل ایوب خان کے سایہ عاطفت میں قومی منظر پر نمایاں ہوئے پھر ایوب خان کے خلاف ایک تحریک کے نتیجے میں قومی سیاسی منظر پر چھا گئے، 71ء کے عام انتخابات میں ان کی جماعت نے پنجاب اور سندھ میں اکثریت حاصل کی، پاکستان کی تاریخ میں یہ الیکشن منصفانہ اور غیر جانبدارانہ مانے جاتے ہیں، حالانکہ مشرقی پاکستان میں الیکشن والے دن مخالفین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی اُن کے پولنگ کیمپ تک نہیں لگنے دئے گئے تاہم عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ انتخابات منصفانہ تھے، منصفانہ تو شاید اتنے نہیں تھے لیکن فری فار آل ضرور تھے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ یحییٰ خان نے خود ان نتائج کو تسلیم نہیں کیا، بنگالیوں کے لیڈر شیخ مجیب الرحمان کا حق حکمرانی تسلیم کرنے سے انکار کیا، مشرقی پاکستان پر فوجی ایکشن کا حکم دیا، بنگالیوں نے بغاوت کردی، ہندوستان نے اس بغاوت کی پرورش کی، مدد کی اور بالآخر سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوگیا،نتائج تسلیم نہ کرنے کا اتنا بھیانک انجام شاید ہی تاریخِ اقوام میں کہیں اور ملتا ہو۔
ذوالفقار علی بھٹو نے یاقیماندہ پاکستان کی قیادت سنبھالی شکست خوردہ قوم کو حوصلہ دیا، امید دکھائی اور پھر ہم ایک نئے سفر پر روانہ ہوئے، بھٹو نے سوشلسٹ معیشت کے ذریعے نجی شعبے کا ناطقہ بند کرنا شروع کیا، چھوٹی بڑی صنعتوں اور کاروبار کو قومیائے جانے کی پالیسی نے قومی اقتصادیات کا جنازہ نکال دیا، ایوبی دور میں پاکستان نے جو اہداف حاصل کئے تھے، جو معاشی ترقی کی تھی اسکا صفایا ہوگیا، بے روزگاری عام ہونے لگی، اضطراب پھیلنے لگا، دوسری طرف بھٹو صاحب کی سیاست میں آمرانہ روش نے سیاسی ماحول کو بھی پرا گندہ کردیا تھا، بھٹو صاحب خوشامد پسند بھی تھے ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انہیں بتایا کہ اپوزیشن بکھری ہوئی ہے، عوام میں آپ کی پذیرائی عروج پر ہے، اس پر بھٹو صاحب نے قبل از وقت انتخابات کا ڈول ڈالا لیکن جونہی انہوں نے انتخابات کا اعلان کیا اپوزیشن ان کے خلاف اکٹھی ہوگئی، بھٹو صاحب نے انتخابات ہرانے کی کاوشیں کیں اپوزیشن نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا، بھٹو صاحب تاریخ کی پکار سن نہ سکے اور 5 جولائی 1977ء جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔
تاریخی اعتبار سے فوجی حکمرانوں کی طرف سے منعقد کئے جانے والے انتخابات پر زیادہ سوال نہیں اٹھائے جاتے، بیان کردہ سطور میں 70 کے انتخابات جنرل یحییٰ کی سیادت میں فوجی جنتا نے منعقد کرائے تھے جسے مشرقی و مغربی دونوں پاکستانیوں نے تسلیم کیا تھا لیکن فوجی حکمرانوں نے اپنے ہی منعقد کردہ انتخابات کے نتائج پر عمل نہ کیا اور بالآخر پاکستان دولخت ہوگیا۔
ہمارے ہاں عام طور پر مطالبہ کیا جاتا ہے کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں، فریقین سویلین اداروں کی کارکردگی اور غیر جانبداری پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے موقع پر قوم نے مٹھائیاں تقسیم کیں، حلوے کی دیگیں بانٹیں، پھر جب جنرل ضیاء الحق نے نواب قصوری کے مقدمہ قتل میں بھٹو کو پھانسی دی تو قوم نے عمومی طور پر ضیاء الحق کے اس قدم کو حق و قانون کی بالادستی قرار دیا تھا، پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑی تھیں۔
پھر جب 1999ء میں جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو نواز شریف پارٹی کے سوا دیگر سیاسی جماعتوں نے ’’سکھ کا سانس‘‘ لیا تھا۔ بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان (مرحوم) اور شہیدِ جمہوریت بے نظیر بھٹو کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں، خوشی اور تشکر سے بھرے نظر آئیں گے یہ الگ بات ہے کہ ہر مارشل لاء کے بعد قوم ہمیشہ لوٹ کر جمہوریت اور پارلیمان کی طرف گئی، قوم نے بوٹوں کی بجائے ووٹوں کو ترجیح دی۔
لیکن الیکشن 2018ء ہماری قومی تاریخ میں منفرد ہیں پہلے تو یہ ہوتا رہا ہے کہ ہارنے والی پارٹی الیکشن نتائج پر سوال اٹھاتی رہی ہے انتخابات کی شفافیت اور الیکشن کمیشن کی جانبداریت پر تنقید کرتی رہی ہے لیکن اس دفعہ صرف ہارنے والی حکمران جماعت ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ 4 دیگر بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں، مسلم لیگ (ن) کا الیکشن نتائج پر سوال اٹھانا تو سمجھ آرہا ہے لیکن پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، فضل الرحمان، اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی بھی احتجاج میں شامل ہیں، ہمارے ہاں روایت رہی ہے کہ انتخابات اور انتخابی عمل اور اس کے نتائج پر تنقید دیر بعد ہوتی ہے لیکن اس دفعہ تو انتخابات سے قبل ہی ’’انتخابی دھاندلی‘‘ کا شور اٹھنا شروع ہوگیا تھا، پانامہ لیکس میں ’’نواز شریف کی نا اہلی کے وقت سے ہی ’’انتخابی دھاندلی‘‘ کا واویلا شروع ہوگیا تھا، اسٹیبلشمنٹ نے تو (ن) لیگی حکومت کو 2014ء سے ہی گرانے کی کاوشیں شروع کردی تھیں، عمران خان کے دھرنے اور لاک اپس نے (ن) لیگی حکومت کو کام نہیں کرنے دیا، پھر پانامہ لیکس نواز شریف کے لئے ایک بم اور مخالفوں کے لئے ایک آسمانی نعمت بن کر ظاہر ہوا، پھر سب نے مل جل کر نواز شریف کو جیل بھجوا دیا، الیکشن 2018ء سے قبل اس بات کا پورا اہتمام کیا گیا کہ عمران خان جیت جائیں اور (ن) لیگ ہار جائے، ان کاوشوں کے نتیجے میں ہمارے محترم اداروں کی توقیر پر بھی حرف آیا۔
الیکشن 2018ء میں ایک اور اہم بات ہوئی ہے اور وہ ہے اس عمل میں ہماری افواج کی شمولیت، پہلے مطالبہ ہوتا تھا کہ ’’انتخابت فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں‘‘ یعنی ہماری مسلح افواج الیکشن کی شفافیت کی ضامن ہوتی تھی، ہارنے اور جیتنے والے فریقین انتخابی عمل میں فوج کی موجودگی پر اطمینان کا اظہار کرتے تھے لیکن اس دفعہ ایسی صورتحال نہیں ہے،یہ بات ہمارے قومی مستقبل کے لئے اچھی نہیں ہے۔
الیکشن 2013ء کے بعد پی ٹی آئی نے جس طرح دھرنوں اور لاک ڈاؤنز کے ذریعے حکومت کو چلنے اور کام کرنے نہیں دیا،معاملات میں بگاڑ اور فساد مچائے رکھا، اب اپوزیشن تبدیل ہوچکی ہے، ملک کی پانچ سیاسی جماعتیں الیکشن 2018ء پر سوالیہ نشان اٹھا رہی ہیں، فضل الرحمان نے تو احتجاجی کال بھی دے دی ہے، آل پارٹیز کانفرنس بلائے جانے کا بھی اعلان ہوچکا ہے۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کا بھی عندیہ آگیا ہے، عمران خان صاحب تو ’’وکڑی سپیچ‘‘ بھی کرچکے ہیں، انہوں نے اپنی تقریر میں بہت اچھی باتیں کی ہیں ملک و قوم کی بہتری کے لئے کئی اچھے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے، کیونکہ نا قابلِ عمل باتیں بھی ہیں، لیکن مجموعی طور پر خوش آئند تمناؤں کا اظہار ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو تاریخ انہوں نے گزرے 4 سالوں کے دوران انہوں نے رقم کی ہے کیا وہ دھرنوں اور لاک ڈاؤنز کی اپنے آپ کو دھرائے گی نہیں، کیا وہ تاریخی دھارا پلٹنے یا روکنے پر قدرت رکھتے ہیں، جو مثالیں اپوزیشن میں رہ کر انہوں نے قائم کی ہیں وہ دھرائی نہیں جائیں گی، پیپلز پارٹی، آصف علی زرداری، (ن) لیگ، شہباز شریف، فضل الرحمان و دیگر کے حوالے سے وہ جو گوھر افشانیاں کرتے رہے ہیں، اب انکے بارے میں ایسا ہی طرز عمل سامنے نہیں آئے گا۔
الیکشن پاکستان کی بھی ایک تاریخ ہے، اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دہراتی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرانے کی تیاری کررہی ہے، اللہ پاکستان کی خیر کرے آمین۔