انتخابات کے بعد سیاسی رسہ کشی اور تنازعات کا دور پھر شروع
(تجزیاتی رپورٹ/نعیم الدین) الیکشن 2018 میں بہت بڑی بڑی سیاسی جماعتیں پیچھے رہ گئیں ، بڑے بڑے سیاسی برج گر گئے اور کچھ نئی جماعتیں آگے بڑھ گئیں یہ الیکشن اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے کہ ایسا کیسے ہوا اور کیوں ہوا، جو پارٹیاں پیچھے رہ گئیں وہ سر جوڑ کر بیٹھ رہی ہیں اور جو پارٹیاں جیت گئیں وہ اپنے مستقبل کی تیاریاں کررہی ہیں۔ سیاسی رسہ کشی اور تنازعات کا دور پھر شروع ہوجائے گا یا جو ہار گیا وہ دھاندلی کی آواز ضرور لگائے گا یہ تو یہاں کی ریت ہے۔ الزام تراشیوں اور مقدمہ سازیوں کے دور کا آغاز ہوگا جو آئندہ لیکشن تک جاری رہے گا۔ کیونکہ نتیجہ بہت حیران کن ثابت ہوا ہے ،کراچی کی معروف جماعت متحدہ قومی موومنٹ اپنے ہی مرکز کے ارد گرد کے علاقے نائن زیروکے حلقہ سے ہار گئی جو انکی انتہائی پکی نشست ہمیشہ رہی ہے۔ لیاری سے پیپلز پارٹی کی شکست کئی سوالیہ نشان اپنے پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس سارے الیکشن میں پی ٹی آئی کے عمران خان کا نظریہ کام کرگیا اور انہوں نے یہ بات ثابت کردی کہ ووٹ ہمیشہ نظریہ کو ہی ملتے ہیں، بہت سی سیاسی جماعتوں کے نظریات بہت ٹھوس ہیں لیکن ان کے جماعتوں کے لیڈر نظریہ ضرورت کو اکثر سامنے رکھتے ہیں۔ اکثر تجزیہ کاروں کا کہا ہے کہ عمران کو اس نظریے نے ہی کامیابی بخشی ہے کہ ’’تبدیلی آرہی ہے‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اس نظر یہ نے نوجوانوں کو تبدیلی سے روشناس کرایا ہے اور نوجوان نے تبدیلی کے عمل کو ہی سامنے رکھتے ہوئے بغیر کسی یونٹ آفس ،بغیر کسی سیکٹر آفس کے اور بغیر کسی کارکن کے ووٹرز حضرات کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا۔ کراچی کے شہریوں نے سیاسی جماعتوں کو حیران کردیا، کھمبا ووٹ جو کہ ہمیشہ ایم کیو ایم کا کہلاتا تھا لیکن اس مرتبہ اس نے کسی اور کو کھمبا بنادیا جبکہ دوسری جانب لیاری کے عوام نے بھی جو کہ برسوں سے اس نعرے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کا انتظار کرتے رہے کہ لیاری کب پیرس بنے گا ، لیاری بھٹو دور سے آج تک پیرس تو کیا کراچی کے عام علاقوں کا بھی مقابلہ نہ کرسکا، یہی وجہ ہے کہ وہاں کا ووٹرز اپنی برسوں پرانی جماعت کو ووٹ نہ دینے پر مجبور ہوئے ،انہوں نے اپنا لیڈر بدل دیا، اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بھی ہرادیا۔ سیاسی حلقوں کا پی ٹی آئی کے بارے میں کہنا ہے کہ اسے کراچی میں کھلا میدان ملا اور یہی اس کی جیت کا نتیجہ بنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب سندھ میں پھر حکومت سازی کیلئے کھلا میدان ہے۔ اور پیپلز پارٹی سندھ میں بغیر کسی اتحاد کے اپنی 74 نشستوں پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ جی ڈی اے سے سندھ کے عوام کو کچھ توقعات تھیں کہ وہ بہت زیادہ نشستیں حاصل کرلے گا لیکن اس نے عوام کی توقعات کو پورا نہیں کیا اور اس نے صرف 11 نشستیں حاصل کیں اور اس میں ارباب غلام رحیم جو کہ 2013 کے الیکشن میں قومی اور صوبائی الیکشن کی دونوں نشستوں پر مقابلہ جیت گئے تھے اور انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی تھی جبکہ پی ٹی آئی نے 20 نشستیں حاصل کی ہیں اس مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ جو کہ ہمیشہ دوسرے نمبر پر رہتی تھی وہ تیسرے نمبر پر ہے۔ متحدہ مجلس عمل نے ایک اور تحریک لبیک پاکستان نے دو نشستیں حاصل کیں ۔ ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی آسانی کے ساتھ اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ البتہ اس مرتبہ سندھ اسمبلی میں ایوان میں اپوزیشن فرینڈ لی پیپلز پارٹی کو میسر نہیں ہوگی اور نہ ہی نثار کھوڑو جیسا بولنے والا اسمبلی میں ہوگا۔ لہذا اپوزیشن کے حاوی رہنے کے امکانات روشن ہیں۔