ابھرتا ہوا بر اعظم ایشیاء اور مغرب

ابھرتا ہوا بر اعظم ایشیاء اور مغرب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


موجودہ سال دو مختلف حوالوں سے خاصا اہم ثابت ہوا ہے۔ایک تو وبائی مرض نے مستقبل کی زندگی کو تبدیل کر دیا ہے اور دوسرا مغرب کا غلبہ اب کمزور پڑتا جارہا ہے۔تبدیلی کے پہیے گھومنا شروع ہو چکے ہیں۔طاقت کے سرچشمے بدل رہے ہیں۔نوآبادیاتی طاقتیں اپنی بالا دستی کھو چکی ہیں اور استعماری قوتوں کی کہانی نیا موڑ لے رہی ہے۔چین نے ہندوستان میں قابل ذکر اقدامات کی بدولت اثرورسوخ کے نئے ابھرتے ہوئے مرکز کی نشاندہی کر دی ہے۔مغرب اس متحرق قوت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے پھر بھی بعض مغربی حلقوں کے طرف سے بیکار مزاحمت کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔چین پرانے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کر رہا ہے اور اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لئے انتہائی درست اقدامات اٹھا رہا ہے۔یورپ تا حال امریکی تسلط اور ترقی کے لئے چینی وعدوں کے مابین کسی ایک کا انتخاب کرنے میں گومگو کا شکار ہے۔صرف چند دہائیوں میں ہی مفادات کا جھکاؤ بدل رہا ہے۔


چین ایک خطے اور قوم کی حیثیت سے ہمیشہ ترقی میں سب سے آگے رہا ہے۔دریائے پاکسی کے تہذیب سے لے کر 1970کی دہائی کے بعد تک تاریخ میں چین ایک خوشحال خطہ رہا ہے۔صرف نو آبادیاتی دور کے دوران ہی چین کی معاشی نمود کو دبانے کی کوشش کی گئی۔چین ہمیشہ ایجادات،تجارت اور پیچیدہ انتظامی تکنیک کا گھر رہا ہے۔موجودہ دو رمیں سول سروسز قدیم چین میں میرٹ پر مبنی ڈیموکریٹک نظام حکمرانی پر بہت بڑی مقروض ہے۔تجارت زراعت کے بعد دوسرے نمبر چینی معاشرے کی ایک خاص پہچان ہے۔ماہر جغرافیائی تجزیہ کار کشور محبوہانی کے تجزیہ کے مطابق سلطنت روم کے زمانہ سے ہی چین تجارت،شرح نمود اور جی ڈی پی میں بہت سے ممالک سے آگے تھا۔گزشتہ 200سالوں میں نوآبادیاتی دورکی لوٹ مار اور پالیسیوں کی بدولت یورپی اقوام چین کی ایشیائی طاقت اور دولت سے متجاوز ہوئیں۔ہیرا پھیرا کا صنعتی انقلاب مغرب یورپ کی ترقی کا ایک حربہ تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس انقلاب کی نقل ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بھی اپنائی گئی۔یہ رجحان اس وقت تک جا ری رہا جب تک دو عالمی جنگوں نے یورپ کو تباہ و برباد نہ کردیا اور اقتدار براعظم کی متمول قوم امریکہ میں منتقل نہیں ہوگیا۔یہ چین کے لئے سستانے کا وقت تھا کیونکہ داخلی تنازعات اور بادشاہت کے احکامات نے قومی بڑھاوے اور ترقی کے عمل کو جامد کر رکھا تھا۔ سرخ انقلاب کے بعد چین نے خود کو تیزی سے متحرک کیا اور جلد ہی مغربی دنیا کے نظریات کے برعکس خود کو ثابت کیا۔آج اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔


برصغیر کی داستا ن بھی ایسی ہی ہے۔مورخین نے پاک و ہند کو سونے کی چڑیا کہا ہے۔یہ صدیوں سے مذاہب،ثقافتوں،اقدار اور پیشوں کا سنگم رہا ہے۔ہندومت،بدھ مت اور اسلام جیسے بڑے مذاہب کی پیروی کرنے والے لوگ اس خطے میں ہم آہنگی کے ساتھ رہ چکے ہیں۔تنوع کثرت اور معیار برصغیر ہند و پاک کے اوصاف رہے ہیں۔چندرگپت موریااور اشوک کے زمانے سے لے کر اکبر اعظم تک برصغیر پاک و ہند پوری دنیا کا زیور رہا ہے۔برطانوی نو آبادیاتی دور اس خطے پر بڑا بھاری رہا ہے۔جمہوریت اور آزادی کے نام پر اس خطے میں مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔غریب کو مقصد کے تحت استعمال کرتے ہوئے ہر جگہ اس کا فائدہ اٹھایا گیا۔ہندوستانی معاشرہ مذہبی،لسانی اور مالی حیثیت میں منتسم تھا۔راجوں،نوابوں،سرداروں اور جاگیر دارانہ اداروں کو انگریز راج کی تشہیر اور اسے برقرار رکھنے کے لئے استعما ل کیا گیا۔1947کے بعد برصغیر میں نو آبادیاتی کے زخم بھرنا شروع ہوئے لیکن اس میں کئی دہائیاں لگیں چونکہ اگلی نسل کے ذریعہ جاگیردار خاندانوں کی جاگیریں اور طاقت تقسیم ہوتی گئیں۔ان کا اقتدار ختم ہوتا گیا۔تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں نے فروغ پانا شروع کیا اور طویل عرصے بعد ہندوستان نے اپنی سابقہ عظمت کی راہ پکڑی۔ہندوستان جو پہلے سانپوں اور سجے ہاتھیوں کی پوجا پاٹ کے حوالے سے جانا جاتا تھا آج عربوں ڈالر کی صنعتوں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اور ڈاکٹروں کی وجہ سے پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ ہندوستان کی صنعتی پیداوار جی ڈی پی اور فوجی طاقت نے ماضی کی بہت ساری یورپی سپر طاقتوں کو بونا کر دیا ہے۔مغربی دنیا ایشیاء سے ابھرتی دو جناتی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کرنے کے لئے تیاری کر رہی ہیں۔


جان لاک کے جمہوریت اور آزادی کے بارے میں خیالات میں مغرب میں حکمرانی کے وژن کو نئی شکل دی ایڈم سمتھ بھی ایک ممتاز نام ہے جس نے جدید سرمایہ داری اور آزاد منڈی کے قواعد کو نظریہ ساز بنایا۔معاشی طاقت نے باہمی تعاون سے شامل ہونے کے ساتھ ساتھ طلب و رسد کا نظریہ آج بھی درست ثابت ہوتا ہے۔ان نظریات کے تحت یورپ نے بے حد ترقی کی۔انسان حقوق،آزاد خیالی،اظہار رائے،فکر کی آزادی،دانشورانہ املاق کا تحفظ وہ سنگ میل جو بنی نو انسان کے لئے ایک نئی زندگی کا آغاز ثابت وئے۔گڈ گورننس ایک اور حکمت عملی تھی جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا۔اقوام متحدہ خود ٹیگ آف نیشنز سے وجود میں آئی ہے،جو یورپ میں قیام امن کے لئے ایک تنظیم تھی۔اقوام متحدہ کے توسط سے پالیسیز بنانے اور ٹیکنالوجی کی منتقیٰ کے لئے ایک دوسرے کی مدد کی کوشش کی گئی۔ڈبلیو ایچ او،ڈبلیو ٹی اوورلڈ بنک کے ساتھ ساتھ بہت ساری دیگر بین الاقوامی سرکاری تنظیموں نے ترقی پذیر ممالک کو آگے آنے اور ترقی یافتہ دنیا سے سیکھنے کی ترغیب دی۔چین اور ہندوستان نے مغربی ممالک سے تعلیم لی اور اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔جو کچھ یورپ اور امریکہ نے جدید ذرائع سے کیا کئی سو سالوں تک نہیں ہوا ہوگا۔


دوسری جنگ عظیم میں امریکہ واضح برتری کا حامل تھا۔اس نے سرد جنگ دور میں سابقتی عمل کو شروع کیا۔سوویت یونین کے خاتمے تک امریکہ سرپرست ملک رہا۔امریکہ تجارت،دفاع،تحقیق،آرٹ،معاشیات حتیٰ کے سفارتکاری میں بھی بہترین تھے۔سرد جنگ کا خاتمہ مقابلے کی بجائے خود مختاری کی وجہ بن گیا۔ 80کی دہائی کے بعد دنیا یکطرفہ ہوگئی اور مغرب اپنی طاقت کو کھو بیٹھا۔اس خوش فہمی نے ایشین معیشتوں کے عروج کی راہ ہموار کردی۔چین اور ہندوستان نے اپنے مغربی ہم منصبوں سے سبق سیکھے اور سرمایہ لگایا جبگہ مغربی اقوام عیش و عشرت کے معاملات میں مشغول ہوگئیں۔دوسری غلطی جو مغربی ممالک خصوصا امریکہ نے کی تھی وہ علاقائی تنازعات میں دخل اندازی اور انہیں اپنابناتا تھا۔


افغانستان اور 2003میں عراق پر حملہ بدترین غلطیاں ہیں جو امریکہ نے انجام دیں۔فوجی مہموں سے بڑے پیمانے پر معاشی بوجھ بڑھا،متاثرین اور ہلاکتوں کا ذکر نہیں کرتے۔عالمی مارکیٹ کی قیادت اور سابقتی برتری کو قائم رکھنے پر توجہ دینے کی بجائے،وسائل فوجی طاقت کی غیر ضروری نمائش میں جھونک دیے گئے۔نتیجہ ہندوستان اور چین کے حق میں نکلا جنہوں نے مشکلات پر قابو پانے کے لئے ضدت،وسائل اور حکمت عملی سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔آج یورپ اور امریکہ ایشیائی ممالک کے اربوں ڈالر کے قرضوں کی زد میں ہیں۔ایشیاء اب خطہ کی طاقت کا مرکز بننے کے لئے خاطر خواہ مالی وسائل کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل بھی رکھتا ہے۔برکس (برازیل،روز،ہندوستان،چین اور جنوبی افرریقہ)ایسوسی ایشن کا ابھرنا ایک اور کارنامہ ہے جس کا مغربی ممالک کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے۔اپنے آخری ایام میں،ایڈولف ہٹلر نے ایک پیش گوئی کی تھی کہ مشرق کا نظم و ضبط پر عمل پیرا آدمی مغرب کے سفید فام آدمی پر برتری پا جائے گا۔سالوں بعد،ایسا لگ رہا ہے کہ ایشیاء بحالی کی راہ پر گامزن ہے اور چین اپنے راستے میں آنے والی ایک کے بعد ایک مشکل کو عبور کرتا جا رہا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -