انڈیا اور پاکستان کا ایک ہزار سالہ ماضی
دنیا بھر کی نظریں آج افغانستان پر لگی ہیں۔ امریکہ 2001ء میں یہاں اس لئے آیا تھا کہ یہاں طالبان کی مسلح افواج (آرمی اور ائر فورس) برائے نام تھیں۔ نہ ان کی کوئی تنظیم تھی، نہ اسلحہ و بارود اور نہ ہی کوئی عسکری ساز و سامان۔خانہ جنگی اگرچہ بڑی حد تک ختم ہو چکی تھی لیکن مکمل امن و امان ناپید تھا۔
جہاں تک میں نے تاریخِ افغانستان کا مطالعہ کیا ہے، اس بدنصیب ملک میں صدیوں سے امن و امان کا فقدان ہے۔ ایک ہزار سال سے اوپر کا عرصہ گزر چکا افغانستان میں صرف ایک تبدیلی جو آئی وہ یہ تھی کہ پہلے 600 برس تک افغانستان کے باسی اپنے ملک سے باہر جا کر خون خرابہ کرتے رہے۔ کبھی 1000ء میں محمود غزنوی کا لشکربنے اور لاہور سے سومنات تک 23برسوں میں 17حملے برصغیر پر کئے۔ان بیرونی حملوں میں ہزاروں افغان جان سے جاتے رہے اور لاکھوں زخمی ہو کر واپس افغانستان میں آتے رہے اور اگلے کسی جنگ باز لیڈر کا انتظار کرتے رہے۔ ان افغانوں کی رگوں میں چونکہ خونریزی اور خون آشامی تھی اس لئے ان کی نسلیں آنے والی مہمات کی تیاریاں کرتی رہیں۔ آخر 200برس بعد 1192ء میں شہاب الدین غوری کی ذات میں وہ جنگجو میسر آ گیا۔ اس کا بڑا بھائی معزالدین غوری اپنی ریاست (غور) میں اپنے ہی عم زادوں کو تہہ تیغ کرتا رہا۔ 1193ء میں ترائن کی دوسری لڑائی میں اس کے چھوٹے بھائی شہاب الدین نے پرتھوی راج کو شکست دی اور واپس ”بھائی جان“ کے پاس چلا گیا۔ اپنا ایک غلام قطب الدین ایبک کے نام سے دلی میں چھوڑ گیا۔ ایبک ترکی النسل تھا اور جنگ و جدال ان ترکوں کی گھٹی میں پڑی تھی۔ انہوں نے ہندوستان آکر بھی دم نہ لیا اور اپنے آباؤ اجداد کی راہ پر چلتے ہوئے معرکہ ہائے کارزار گرم رکھے۔
85برس تک (1206ء تا1290ء) ان غلاموں کا طوطی بولتا رہا۔ ان کے بعد 29برس تک (1291ء تا1320ء) خاندانِ خلجی مار دھاڑ میں مصروف رہا۔ بعدازاں ایک صدی تک خاندانِ تغلق نے یہی اودھم مچایا (1321ء تا 1413ء) ان کے بعد سادات آ گئے (یاد رہے کہ یہ افغان سادات تھے) جنہوں نے عزتِ سادات کا بھرم رکھنے کے لئے 37برس تک (1414ء تا 1450ء) ہندوستان کے راجوں مہاراجوں کا ناک میں دم کئے رکھا۔ ان کے بعد 1451ء میں لودھی خاندان نے عنانِ اقتدار سنبھالی اور 76برس تک یعنی 1526ء تک قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا۔ پھر 1526ء میں بابر نے پانی پت کی پہلی لڑائی میں اپنی طویل سلطنتِ مغلیہ کی شروعات کیں۔
ذرا حساب لگایئے کہ 1206ء میں قطب الدین ایبک کے بعد 1526ء تک 320برس بنتے ہیں جن میں پانچ خاندان (غلاماں، خلجی، تغلق، سادات اور لودھی) برسرِ جنگ رہے اور پھر 1526ء سے 1857ء تک تقریباً اتنے ہی سال بنتے ہیں (331سال) جن میں صرف مغل خاندان ہی حکمرانی کرتا رہا…… ان 6صدیوں میں ایک بات جو ان حکمرانوں میں مشترک تھی وہ یہ تھی کہ یہ سب کسی نہ کسی حوالے سے افغانستان سے آئے تھے۔ ان سب نے نہ اپنی زبان تبدیل کی، نہ ثقافت، نہ طرزِ بود و ماند اور نہ طریقِ حکمرانی۔ انہی 6صدیوں میں افغانستان میں بھی یہی رسوم جاری رہیں۔ کابل تک کا علاقہ تو احمد شاہ ابدالی تک کسی نہ کسی طور ہندوستان کے افغانوں کے زیرِ نگیں رہا۔ ابدالی نے آکر اس کا نام افغانستان رکھا اور اسے ہندوستان کے مسلم فرمانراؤں کے چنگل سے نکالا۔ لیکن غزنوی سے غوری اور غوری سے ابدالی تک افغانستان میں بھی کشت و خون کا وہی کھیل جاری رہا جو ہندوستان میں تھا۔
یہ تو 1857ء میں جب اہلِ ہند نے انگریزوں سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی تو خاندانِ مغلیہ کا خاتمہ ہوا اور ہندوستان پر ایک اور طرح کی حکومت قائم ہوئی۔ جس طرح شہاب الدین غوری نے اپنا نائب (غلام) 1206ء میں دلی میں چھوڑا تھا، اس طرح برطانوی شاہی خاندان نے بھی یہی کچھ کیا۔ نام تو شاہِ برطانیہ (یا ملکہء برطانیہ) کا چلتا تھا لیکن حکومت اس کے گورنر (وائسرائے) کرتے تھے۔ یہ سلسلہ 1947ء تک چلتا رہا۔ پھر جب یورپ میں ہٹلر نے دوسری عالمی جنگ میں انگریزوں کی کمر توڑی تو ان کو یہاں سے کوچ کرنا پڑا…… دوسرے لفظوں میں ہندوستان کے باسی 1000 سال تک غزنوی دور سے لے کر 1857ء تک مسلمان افغانوں اور پھر 1858ء سے 1947ء تک عیسائی برطانویوں کے غلام رہے۔ ان میں وہ ہندی مسلمان بھی شامل تھے جو کسی نہ کسی حوالے سے مسلمان تو ہو گئے لیکن ہندوستان کی آب و ہوا تو غلام پیدا کرتی تھی (وہ غلام نہیں جو افغانستان سے قطب الدین ایبک کے نام سے یہاں آئے تھے بلکہ وہ ہندی غلام تھے جن کا نام مسلمانانہ تھا لیکن رگوں میں خون وہ نہ تھا جو افغانستان کے افغانوں کی رگوں میں تھا)…… یہی وجہ تھی کہ اگست 1947ء میں ہندوستان کے مسلمان پاکستان آتے ہوئے سکھوں کی کرپانوں اور تلواروں کا نشانہ بنے اور جو وہاں رہ گئے وہ آج تک RSSکے ہندوؤں کے زیرِ سایہ رہ رہے ہیں۔ اگر وہ افغانوں کی نسل سے ہوتے تو جس طرح افغانستان کے افغانوں نے پہلے روسیوں کو اور پھر امریکیوں کو اپنے ہاں سے نکال دیا تھا، یہ ہندی مسلمان بھی ایسا کرتے۔ ہندوؤں کی کیا مجال تھی کہ وہ افغان صفت، مسلمانوں کو اپنے زیرِ سایہ اور مرعوب رکھتے۔…… جرمِ ضعیفی کی سزا تو ہمیشہ مرگِ مفاجات رہی ہے!
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان کی آب و ہوا ہی ایسی ’آرام دہ‘ ہے کہ جنگ باز اور جنگ آزما نسل پیدا نہیں کر سکتی۔ اگر پاکستان کا ہمسایہ، افغانستان نہ ہوتا تو شائد ہم پاکستانی بھی ہندی مسلمانوں کی طرح اپنے سے طاقت ور ہندو انسانوں سے دب کے رہتے۔ پاکستان کی سرزمین الحمدللہ افغانستان کی سرزمین کا تسلسل ہے اور اسی لئے ہم میں بھی افغانوں کی طرح کسی دھونس والے طاقت ور کے سامنے ڈٹ جانے کا فطری جذبہ موجود ہے۔ غزنوی، غوری اور مغلوں کے وارث، پاکستان میں پشاور سے واہگہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم نے 1947ء سے لے کر آج تک ہندوستان سے چار جنگیں لڑی ہیں اور وہ بالواسطہ جنگیں جو ہم نے روسیوں، امریکیوں اور یورپی اقوام (NATO) سے لڑی ہیں ان کا اقرار تو اہلِ مغرب کو آج بھی ہے۔ اگر آج امریکی کابل سے نکل رہے ہیں اور گزشتہ کل میں روسی بھی واپس دریائے آمو عبور کرکے ماسکو جانے پر مجبور ہو گئے تھے تو آنے والے کل میں ہمیں یہ کھٹکا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی امریکی یا ہندوستانی آکر ہم سے پاکستان چھین لے گا۔ اقبال نے ہمارے لئے ہی تو کہا تھا:
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مجھے کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِبیضا
ہم میں سے بعض پاکستانی یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جب امریکی افغانستان سے نکل گئے ہیں تو وہاں اب خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جس کی لپیٹ میں پاکستان بھی آ سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم نے پہلے ہی 30لاکھ افغان اپنے ہاں مقیم کر رکھے ہیں۔ اس خانہ جنگی میں اگر مزید افغان مہاجرین پاکستان آ گئے تو ہمارے لئے یہ بوجھ اٹھانا مشکل ہو جائے گا…… میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان مخالف افغان طالبان کو معلوم ہے کہ وہ پاکستانیوں سے نہیں لڑ سکتے۔ دہشت گردی اور تخریب کاری ایک اور طرح کی جنگ ہے اور پاکستان نے یہ طرزِ جنگ گزشتہ 20،25 برس سے دیکھ رکھی ہے۔ ہمارے لئے یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ پاکستان دشمن طالبان اگر کوئی ہیں تو وہ پاکستانی فوج سے نبرد آزمائی کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
امریکی آج کل اشرف غنی حکومت کے خلاف لڑنے والے طالبان پر فضائی حملے کر رہے ہیں۔ یہ حملے پاک فضائیہ بھی پاکستان دشمن طالبان پر کر سکتی ہے اور زیادہ موثر طریقے سے کر سکتی ہے…… اس لئے ہمیں اس خانہ جنگی کے اس طرح کے ’اچھال‘ (Spill Over) سے خائف نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان نے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر امریکہ اور انڈیا نے مل کر کوئی ایسی کارروائی کی جس سے پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہوا تو یہ سارا خطہ ایک ایسی لپیٹ میں آ سکتا ہے جس کے نتائج خطے سے باہر نکل کر اس دنیا تک بھی پہنچ سکتے ہیں، جو اپنے آپ کو سپرپاورز سمجھ رہی ہے…… پاکستان کا یہ ردعمل کوئی دھمکی نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے روبہ عمل آنے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان اور انڈیا میں فرق یہ بھی ہے کہ انڈیا ایک ہزار سالہ دورِ غلامی سے باہر سانس لے رہا ہے اور پاکستان ایک ہزار سالہ دورِ حکمرانی سے باہر نکلا ہے۔ اس غلامی اور حکمرانی کی آزمائش گزشتہ 74 برسوں میں کئی بار ہو چکی ہے۔ انڈیا اور اس کے حمائتیوں کو ہندوستان اور پاکستان کا ایک ہزار سالہ ماضی یاد رکھنا چاہیے!