وزیراعلیٰ سندھ نے عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا،اتنی تاخیر کیوں؟
کراچی ڈائری، مبشرمیر
صوبہ سندھ کی سیاست کا ایک بڑا نام سردار ممتاز علی بھٹو شدید علیل رہنے کے بعد 87برس کی عمر میں دار فانی سے کوچ کرگئے۔آپ 28نومبر 1933ء میں لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے فرسٹ کزن تھے۔لنکنز ان سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی زیر تعلیم رہے۔ذوالفقار علی بھٹونے انہیں ”ٹیلنٹڈ کزن“ (Talented Cousin)کا نام دیا۔1965ء میں ممبر اسمبلی بنے۔ پیپلزپارٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے۔1970کے الیکشن میں بھی قاضی فضل اللہ کے خلاف لاڑکانہ سے جیتے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں گورنر سندھ تعینات کیا۔22دسمبر 1971ء سے 20اپریل 1972ء تک اس عہدے پر خدمات انجام دیں۔یکم مئی 1972ء کو وزیراعلیٰ سندھ بنادیئے گئے اور 20دسمبر 1973تک اس عہدے پر ذمہ داری نبھائی۔آپ سندھ کے آٹھویں گورنر اور 13ویں وزیراعلیٰ رہے۔ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ہی سندھی کو سرکاری زبان قرار دینے کا بل سندھ اسمبلی سے پاس ہوا۔3جولائی 1972کو بل پاس ہوا اور 7جولائی کو سندھ میں مظاہرے شروع ہوگئے بعد ازاں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ سندھ کی سرکاری زبان سندھی اور اردو ہوگی۔اس کے بعد ممتاز علی بھٹو وفاقی وزیر بنادیئے گئے۔ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے بعد جب ان کو پھانسی دے دی گئی تو اس کے بعد اگرچہ پیپلزپارٹی سے وابستہ رہے لیکن دیگر سیاسی انکلز کی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان سے آہستہ آہستہ دوری اختیار کی۔1988ء میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔
ممتاز علی بھٹو نے 1989ء میں سندھ نیشنل فرنٹ کے نام سے نئی پارٹی بنائی۔اس دوران انہوں نے قوم پرستی کی سیاست کی۔1993کے الیکشن میں ممبر صوبائی اسمبلی سندھ منتخب ہوئے۔ 1996ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے اختتام پر نگراں وزیراعلیٰ سندھ بنائے گئے۔آپ آخری دم تک بھٹو قبیلے کے سربراہ رہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری کی صدارت کے دور میں ان کے بہت بڑے نقاد تھے۔بانی ایم کیو ایم کو بھی ہدف تنقید بناتے رہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان سے بہت گہرے مراسم تھے۔آپ نے 2017ء میں اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ تحریک انصاف میں ضم کردی لیکن تحریک انصاف کو اقتدار ملنے کے بعد ان کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ان کا بیٹا امیر بخش بھٹو گزشتہ الیکشن میں کامیابی حاصل نہیں کرسکا تھا۔
آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن میں تحریک انصاف کی برتری کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی دوسری بڑی جماعت ہے۔ پیپلزپارٹی آزاد کشمیر میں برسراقتدار بھی رہ چکی ہے۔کراچی کی نشست سے ان کا امیدوار جیت گیا ہے۔پاکستان میں الیکشن کا عمل دیکھ کے یوں لگتا ہے کہ الیکشن جیتنا ایک فن ہے۔اس سے اہلیت، قابلیت اور مقبولیت کا کوئی تعلق نہیں اور ہارنا مقدر کا لکھا تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں جہاں سے جیت جائیں اسے وہاں کے نتائج پر اعتراض نہیں ہوتا لیکن جہاں سے ہار جائیں وہاں ان کو سب خرابی نظرآتی ہے۔
سندھ میں وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے بلدیاتی الیکشن کروائے جائیں گے۔یہاں پر انہوں نے سیاسی چال چلی ہے۔یعنی حالیہ عہد حکومت میں فوری الیکشن کروانے سے گریزاں ہیں۔بلدیاتی الیکشن سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر کروانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔یہی وہ رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے برسراقتدار پارٹیاں بلدیاتی الیکشن سے جان چھڑواتی ہیں ان کو اپنی مقبولیت کے حوالے سے خطرات لاحق ہوتے ہیں اور پھر اختیارات نچلی سطح پر تفویض کرنے سے گھبراتے ہیں۔ پنجاب میں شہباز شریف سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود بلدیاتی الیکشن سے گریزاں رہے۔ان کے ایم این اے حضرات اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں بھی کرواتے رہے نتائج ان کے حق میں آنے کے باوجود بلدیاتی اداروں کو فعال بنانے میں کم و بیش ایک سال لگادیا گیا تھا۔ اگر بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہونگے تو صرف وہ لوگ آگے آ پائیں گے جو عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کر رہے ہوں گے۔بلدیاتی الیکشن کا نظام صوبوں کی ذمہ داری نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے اس نظام کو بہت نقصان پہنچایا گیا ہے۔
افغانستان کے حالات کی وجہ سے علاقائی کشیدگی کے ہوتے ہوئے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کورونا کی چوتھی لہر کے حوالے سے خوف کی بڑھتی ہوئی فضا نے بھی برے اثرات چھوڑے ہیں۔ مارکیٹ مندی کا شکار ہے۔تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں ابھی بھی زیادہ ہیں۔اس کے ساتھ پاکستان میں پٹرولیم کی قیمتوں میں جو اضافہ عید قربان پر کیا گیا تھا اس سے مہنگائی کی نئی لہر نے جنم لیا ہے۔
کورونا کے مریض اکثر شادیوں اور دیگر تقریبات میں شرکت سے بڑھ رہے ہیں جبکہ حکومت اس کا ملبہ تعلیمی اداروں پر ڈال دیتی ہے اور نئی نسل کی تعلیم کو برباد کردیاگیا ہے۔صوبہ سندھ میں ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ اسکولوں اور اساتذہ کے معاملے کو حل کرنے کی بجائے تعلیم کا سلسلہ روکا جارہا ہے۔کورونا سے عمر رسیدہ افراد کو خطرہ ہے لیکن حکومت تعلیمی اداروں کی بندش پر بضد ہے۔
سردار ممتاز علی بھٹو انتقال کر گئے،ان کی وزارت عالیہ کے دور میں سندھی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا!
افغانستان کے اندرونی حالات نے مقامی مارکیٹ کو متاثر کیا،مندا جاری ہے