خلیفہ راشد سیدنا عثمان ذوالنورینؓ ۔۔۔مسندِ خلافت سے تمغہ شھادت تک 

خلیفہ راشد سیدنا عثمان ذوالنورینؓ ۔۔۔مسندِ خلافت سے تمغہ شھادت تک 
خلیفہ راشد سیدنا عثمان ذوالنورینؓ ۔۔۔مسندِ خلافت سے تمغہ شھادت تک 

  

ماہتابِ رسالت ﷺ کے روشن ستاروں میں حضرت عثمانؓ  ذوالنورین کا نام بہت نمایاں ہے۔آپؓ  کے جود و سخا،حلم و عطاء،عشق مصطفویﷺ،جذبہ و شوق اور آنحضرت ﷺ سےوالہانہ تعلق ایک ایسی درخشندہ کہانی ہے۔اللہ کےرسولﷺنےآپؓ  کو کتابت وحی جیسےاعزازسےبھی سرفرازفرمایا۔آپؓ کادورحکومت عدل وانصاف،اخوت ومساوات اوررعایاپروری کانمونہ تھا۔

مغربی اور یورپین مستشرقین سے لیکر اسلام کے نابغۂ روزگار مؤرخین تک سب نے خلیفہ راشد،امام مظلوم مدینہ منورہ،کاتب وحی،ناشرِ قرآن،شھیدِ قرآن،مصداق السابقون الاولون،ذوالنورین ،ذوالہجرتین حضرت عثمان غنیؓ کےکارہائےنمایاں اورعبقری کردارکومسلم اُمّہ کیلئےنشان راہ قرار دیاہے۔عمر مبارک کی بیاسی 82 منزلیں گزار کرنہایت مظلومیت کیساتھ آنحضرت ﷺ کے پڑوس میں چالیس روز تک انکا کھانا پینا بند رکھا گیا اور پھر جس طرح انہیں شھید کیا گیا وہ بھی صفحہِ تاریخ کا المناک باب ہے۔ 

1-نام ونسب ۔۔! عثمانؓ بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف بن قُصی بن کلاب بن مُرہ بن کعب بن لُوی بن غالب بن فہر بن مالک،ابوعمرو وابو عبداللہ القرشی الاموی۔۔اس طرح آپؓ   کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں آنحضرت ﷺ سے جا ملتا ہے۔

2-ولادت وکنیت۔۔!! آپؓ کی ولادت عام الفیل کے چھ برس بعد یعنی 577ء میں ہوئی، آپؓ   نبی کریم ﷺ سے تقریباً پانچ سال چھوٹے تھے۔ آپؓ کی کنیت ابو عمرو وابوعبداللہ تھی آپؓ  دونوں کنیّتوں کیساتھ پکارے جاتے تھے۔

3-حضرت عثمانؓ   کا قبولِ اسلام ۔۔۔۔۔ 

طبقات ابن سعد کے مطابق آپؓ نے چوتھے نمبر پر اسلام قبول کیا۔آنحضرت ﷺ کا کلمہ پڑھنے کے جرم میں آپؓ کو آپؓ  کے چچا حکم بن ابوالعاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا۔کئی روز تک ایک الگ مکان میں بند رکھا گیا۔چچا نے کہا جب تک تم نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا، یہ سن کر آپؓ   نے فرمایا ؛چچا ! خدا کی قسم ! میں مذہبِ اسلام کبھی نہیں چھوڑوں گا اور اس دولت سے کبھی نہیں دستبردار ہوں گا چنانچہ حکم بن ابی العاص نے آپؓ کو مجبور ہو کر آزاد کر دیا۔

 4- آنحضرت ﷺ کے ساتھ قرابت داری ۔۔

حضرت عثمانؓ غنی   اگرچہ بنو امیہ کے چشم و چراغ تھے اور آنحضرت ﷺ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھےمگر حضرت عثمانؓ   آنحضرت ﷺ کے قریبی رشتہ دار تھے۔

۱-آپؓ کی  نانی ام حکیم البیضاء بنت عبدالمطلب آنحضرت ﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہ کی جڑواں بہن تھیں۔اس طرح آپؓ   آنحضرت ﷺ کی پھوپھی کے نواسے تھے ۔

۲-آنحضرت ﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ رقیہؓ   کا نکاح آپؓ  کیساتھ کیا جب وہ وفات پا گئیں تو انکی بہن ام کلثومؓ   بھی حضرت عثمانؓ   کے نکاح میں دے دیں ۔ام کلثومؓ  کی وفات پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے اُن سب کا نکاح میں عثمانؓ   کیساتھ کر دیتا" آنحضرتﷺ کی دو بیٹیوں سے نکاح کیوجہ ہی سے آپؓ   کو "ذوالنورین" دو نوروں والا کہا جاتا ہے ۔ 

آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا میں نے اپنا اور اپنی کسی بیٹی کا نکاح اللہ کے حکم کے بغیر نہیں کیا ،آنحضرت ﷺ کے اس فرمان سے اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے ہاں آپؓ   کی قدر ومنزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ  نے آنحضرت ﷺ کی بیٹی سیدہ رقیہؓ   کیساتھ حبشہ کیطرف ہجرت فرمائی اس موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ جوڑا بہت خوبصورت ہے۔ اس طرح آپؓ   کو ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ منورہ کے بعد ذوالہجرتین کا لقب عطا ہوا، ابن عساکر میں ہے حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آنحضرت ﷺ تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا جس کے نکاح میں کسی پیغمبر کی دو بیٹیاں آئی ہوں سوائے حضرت عثمان غنیؓ  کے۔

۳-حضرت سیدہ رقیہؓ   کے بطن مبارک سے حضرت عثمانؓ   کے بیٹے عبداللہؓ پیدا ہوئے،انہی کے نام سے آپ کی کنیت ابوعبداللہؓ مشہور ہوئی ۔ حضرت عبداللہؓ جنگ یرموک میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہوئے شہید ہوئے۔

5-حضرت عثمان غنیؓ  کی وجہ سے ساڑھے چودہ سو صحابہؓ کیلئے جنت کی بشارت۔۔

امام ترمذی رحہ حضرت انسؓ   سے روایت کرتے ہیں کہ بیعت رضوان کے موقع پر حضرت عثمانؓ حضور نبی کریم ﷺ کیطرف سے سفیر بن کر مکہ مکرمہ گئے تھے،خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمان غنیؓ   شھید کر دیئے گئے۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کون ہے جو عثمانؓ   کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کرے اس وقت ساڑھے چودہ سو صحابہؓ   نے حضرت عثمانؓ  کا بدلہ لینے کیلئے آنحضرت ﷺ کی بیعت فرمائی، اس بیعت کے بعد رب العزت کیطرف سے درج ذیل الفاظ میں ان خوش نصیب صحابہؓ کرام   کیلئے رضامندی کا اعلان کیا گیا " بیشک اللہ تعالی ان مومنوں سے راضی ہو گیا۔جنہوں نے اے پیغمبر ﷺ! درخت کے نیچے بیٹھ کر تیرے ہاتھ پر بیعت کی ہے ۔خدا اُن کے قلوب کو جانتا ہے۔پس اس نے طمانیت اور سکون اتارا اُن پر اور فتح انکے لئے بہت قریب ہے ۔(سورت الفتح)

6- حضرت عثمانؓ   کی فضیلت میں آنحضرت ﷺ کے ارشادات مبارکہ۔۔۔!!!

1-آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت میں ہر نبیؑ کا ایک ساتھی ہو گا،میرا ساتھی عثمانؓ  ہو گا۔(ترمذی شریف)

2-ابن عساکر نے زید بن ثابتؓ  سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا،میرے پاس سے جب عثمانؓ  گزرے تو میرے پاس فرشتہ بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا یہ شھید ہیں۔ ان کو قوم شھید کر دے گی مجھے ان سے حیا آتی ہے۔

3-ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ   سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمانؓ   تشریف لاتے تو آنحضرت ﷺ اپنے لباس کو درست فرما لیتے اور ارشاد فرماتے میں اس سے کس طرح حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔( بخاری ومسلم )

4-حضرت ابوھریرہؓ   سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق حضرت عثمانؓ  نے دو بار جنت خریدی ہے،ایک مرتبہ بیر رومہ خرید کر،دوسری مرتبہ جنگ تبوک میں ایک ہزار اونٹ دیکر۔

5-ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ   سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی اتنے ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کی بغل مبارک ظاہر ہو جائے مگر عثمانؓ  کیلئے جب آپ ﷺ دعا فرماتے تھے۔

6-حضرت سعید رضہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اوّل شب سے طلوع فجر تک ہاتھ اٹھا کر حضرت عثمانؓ   کیلئے دعا فرماتے رہے،آپ ﷺ فرماتے تھے ،اے اللہ میں عثمانؓ  سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا۔ 

7-امام ترمذی نے عبدالرحمن بن قباب کے حوالے سے لکھا ہے کہ جنگ تبوک کے موقع پر جب تیس ہزار صحابہؓ کرام  کا ڈھائی لاکھ رومی عیسائیوں سے مقابلہ تھا،آنحضرت ﷺ صحابہؓ کرام کو ترغیب دے رہے تھے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ   نے گھر کا سارا سامان اور حضرت عمر فاروقؓ   نے نصف سامان پیش کیا۔حضرت عثمان غنیؓ   نے عرض کی کہ میں دو سو اونٹ سامان کے لدے ہوئے دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ ترغیب دی۔ حضرت عثمانؓ   نے دوسری بار تین سو اونٹ سامان سے لدے ہوئے دینے کا پھر اعلان فرمایا۔ آپ ﷺ نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمانؓ   نے پھر دو سو اونٹ اللہ کے راستے میں دینے کا اعلان فرمایا آپ ﷺ نے چوتھی بار ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ   نے عرض کیا میں مزید دو سو اونٹ اور ایک ہزار اشرفیاں پیش کرتا ہوں ۔ یہ سن کر آپ ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے تو ارشاد فرمایا۔آج کے بعد عثمانؓ   کو کوئی عمل (گناہ) بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔۔ رضی اللہ عنھم رضو عنہ۔۔

8- ابن عدی اور ابن عساکر نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہم اور عثمانؓ   اپنے والد حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بہت مشابہ ہیں۔ 

9-حاکم مستدرک نے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ  سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اے عثمانؓ  ! اللہ تعالی تجھے خلافت کی ایک قمیض پہنائے گا،جب منافق اُسے اتارنے کی کوشش کریں تو اُسے مت اُتارنا ، یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو۔ 

چنانچہ جس روز آپکا محاصرہ کیا گیا تو آپؓ   نے فرمایا" کہ مجھ سے حضور ﷺ نے عہد لیا تھا،چنانچہ میں اُسی پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں۔۔

7- مسند خلافت سے۔۔۔۔۔۔۔تمغہ شہادت تک۔۔

حضرت فاروق اعظمؓ   پر جب قاتلانہ حملہ ہوا تو آپؓ   نے عشرہ مبشرہ میں سے چھ نامور شخصیات کو نامزد کر کے اُنہی میں سے خلیفہ کے انتخاب کا حکم دیا ۔ یہ چھ اصحاب حضرت عثمان غنیؓ  ،حضرت علی المرتضیؓ  ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ  ،حضرت طلحہؓ  ،حضرت زبیرؓ  ،حضرت سعید بن زیدؓ   تھے۔ بالآخر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ   نے خفیہ رائے شماری کے ذریعے حضرت عثمانؓ  کو خلیفہ نامزد کیا۔ حضرت عثمانؓ  چوبیس (24) ہجری میں سریر آرائے خلافت ہوئے تو آپؓ  کو بائیس (22) لاکھ مربع میل کے ایسے خطے پر حکومت کرنی پڑی جس میں بیشتر ممالک فتح ہو چکے تھے لیکن یہاں مسلمان مستحکم نہ ہوئے تھے۔خطرہ تھا کہ یہ ریاستیں دوبارہ کفر کی آغوش میں چلی جائیں گی۔ لیکن خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ نے بارہ(12)دن کم بارہ (12) سال تک چوتالیس (44) لاکھ مربع میل کے وسیع وعریض خطّے پر اسلامی سلطنت قائم کی۔

حضرت عثمانؓ   کی خلافت کے پہلے چھ سال فتوحات اور کامرانیوں کے ایسے عنوان سے عبارت ہیں جن پر اسلام کی پوری تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔خلافت اسلامیہ کے تاجدارِ ثالث نے فوجوں اور عسکری قوتوں کو جدید بنیادوں پر استوار کیا۔آپ رضہ ہی کے دور خلافت میں حضرت معاویہؓ  نے اسلام کا پہلا اسلامی بیڑا تیار کر کے بحرِ اوقیانوس میں اسلام کا عظیم لشکر اُتار دیا تھا۔اس طرح پاپائے روم پر سکتہ طاری کر کے آپؓ   کی فوجوں نے فرانس اور یورپ کے کئی ملکوں میں اسلام پہنچا دیا تھا۔

ہندوستان اور افریقی ممالک میں محمدی سورج کی کرنیں بھی آپ  ؓ ہی کے دورِ خلافت میں پہنچی تھیں۔ اسلامی فوجوں نے عثمانی دور ہی میں سندہ، مکران،طبرستان اور متعدد ایشیائی ممالک فتح کیے تھے۔حضرت عثمان ذوالنورینؓ   کے دور خلافت کے آخری سالوں میں آپؓ   کی پے در پے کامیابیوں نے یہود وہنود، مجوس و مشرکین کو ناک چنے چبوا دیئے تھے۔وہ کسی طرح بھی عہد عثمانیؓ   کی وسعت اور ہمہ گیری کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔سامنے آکر جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں نے منافقین کا ایسا لشکر تیار کیا جو حضرت عثمانؓ  پر اقرباء پروری اور خیانت کا الزام لگانے لگا۔ منافقت اور دجل و فریب کے بہی خواہوں نے مصر سے ایک سازش کا آغاز کیا۔ ساڑھے سات سو بلوائی،ایک خط کا بہانہ بنا کر مدینہ منورہ پہنچے بغاوت کا ایسا وقت طے کیا گیاجب مدینہ منورہ کے تمام لوگ حج پرگئےہوں،صرف چندافرادیہاں موجود ہوں۔ایسےوقت میں امیرالمومنین کو خلافت سے دستبردار کروا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کئے جائیں ۔من مانی کاروائی کے ذریعے اسلام کے قصرِ خلافت کو مسمار کر دیا جائے۔رسول اکرم ﷺ کے شہر مکرم کو آگ اور خون میں مبتلا کر کے اسلام کی مرکزیت کو پارہ پارہ کر دیا جائے،فتوحات اور کامیابیوں کے راستے میں فوری طور پر سد سکندری کھڑی کر دی جائے۔

پینتیس (35)ہجری ذوالقعدہ کے پہلے عشرے میں باغیوں نے حضرت عثمان غنیؓ   کے گھر کا محاصرہ کیا ۔حافظ عماد الدین نے البدایہ والنھایہ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں بھی حضرت عثمانؓ ذوالنورین نے صبر واستقامت کا دامن نہیں چھوڑا۔محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا۔

تقریباً چالیس (40) روز تک بھوکے اور پیاسے بیاسی (82) سالہ مظلوم مدینہ منورہ حضرت عثمان غنیؓ   کو جمعہ اٹھارہ (18) ذوالحجہ پینتیس (35) ہجری کو انتہائی بے دردی کیساتھ تلاوت قرآن کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔شہادت کے وقت قرآن مجید کھلا ہوا تھا اور آپ قرآن کی تلاوت فرمارہے تھے، آپؓ کے جسم اطہر سے نکلنے والے خون کے پہلے قطرے کو قرآن مجید نے اپنے اندر جذب کیا اور اس آیت پر آپؓ کا لہو مبارک گرا ’’فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ (البقرہ) ترجمہ! سو تمہیں ان سے اللہ کافی ہے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے ۔ حضرت عثمانؓ غنی کی وصیت کے مطابق حضرت زبیر بن عوامؓ   نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ   کی تدفین مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں کی گئی ۔آپؓ   کی زندگی اور سیرت وکردار فضائل ومناقب کا روشن اور تاریخ ساز باب ہے ۔