ہم ہوٹلوں کے کمروں میں بند ہوتے کیونکہ چیخ و پکار کرتی لڑکیوں کے جلوس باہر کھڑے ہوتے تھے
مترجم:علی عباس
قسط: 28
میں اُس وقت کو ایک ایسے دور کے طور پر یاد کرتا ہوں جب میں اپنے بھائیوں کے بہت قریب تھا۔ ہم لوگ وفادار اور اُنسیت رکھتے تھے۔ ہم مسخرہ پن کیا کرتے، ایک دوسرے کو بیوقوف بناتے اور جملے کستے۔ ہماری زد میں وہ لوگ بھی آجاتے جو ہمارے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ ہم بہت زیادہ شورنہیں مچاتے تھے۔۔۔ کوئی ٹی وی ہوٹل کی کھڑکیوں سے باہر نہیں پھینکا گیا لیکن بہت سارا پانی سروں پر انڈیلا جاتا۔ ہم زیادہ تر طویل سفر کے باعث پیدا ہونے والی بوریت کو ختم کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ جب آپ دورے کے دوران بیزار ہوتے ہیں تو خود کو تازہ دم کرنے کے لئے کچھ بھی کرتے ہیں۔ ہم ہوٹلوں کے کمروں میں بند ہوتے تھے، کہیں پر بھی نہیں جا سکتے تھے کیونکہ چیخ و پکار کرتی ہوئی لڑکیوں کے جلوس باہر کھڑے ہوتے تھے جبکہ ہم کچھ مستی کرنا چاہتے تھے۔ میری خواہش تھی کہ ہم نے جو کچھ فلم میں پیش کیا تھا، اُسے یہاں کر سکتے، خاص طور پر کچھ مزاح، ہم سب نے اپنے سکیورٹی مینجر بل برے کے سونے کا انتظار کیا۔ تب ہم نے راہدری میں دوڑیں لگائیں، تکﺅں سے لڑائیاں کیں، کشتی لڑی، شیونگ کریم کی جنگیں ہوئیں، آپ کسی بھی چیز کا نام لے سکتے ہیں،ہم سنکی تھے۔ ہم پانی سے بھرے ہوئے غبارے اور کاغذ کے بیگ ہوٹل کی بالکونیوں سے نیچے پھینکتے اور اُن کے پھٹنے کاانتظار کیا کرتے، تب ہم بے خود کر دینے والے قہقہے لگاتے۔ ہم ایک دوسرے پر چیزیں پھینکتے اور فون پر گھنٹوںبوگس کالیں کیا کرتے اور کھانے پینے کی اشیاءکا آرڈر دیتے جو اجنبیوں کے کمروں میں پہنچ جاتی تھیں، کوئی بھی شخص جو ہمارے کمروں میں آتا، اُس کا دروازے میں ٹکائی گئی بالٹیوں کے الٹنے سے پانی میں بھیگنے کا 90 فیصد امکان ہوتا۔
ہم جب کسی نئے شہر جاتے تو کوشش کرتے کہ تمام قابلِ دید مقامات دیکھ سکیں۔ ہم ایک حیرت انگیز ٹیوٹر روز فائن کے ساتھ محوِ سفر تھے جس نے ہمیں بہترین طریقے سے پڑھایا اور یہ یقینی بنایا کہ ہم اپنے اسباق پڑھیں۔ یہ روز ہی تھا جس نے مجھے کتابوں اور ادب سے محبت کرنا سکھایا اور یہ آج تک میرے ساتھ ہے۔ میں ہر چیز پڑھ لیتا جو میرے ہاتھ لگ سکتی تھی۔ نئے شہروں کا مطلب نئی جگہوں سے خریداری کرنا ہوتا۔ ہمیں خریداری کرنے سے محبت تھی، خاص طور پر کتابوں کو دیکھتے اور بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر جاتے۔ لیکن جوں جوں ہماری شہرت پھیلی، ہمارے قدردانوں نے ہمارے خریداری کے غیر رسمی دوروں کو جنگ میں تبدیل کر ڈالا۔ نیم ہسٹریائی لڑکیوں کے نرغے میں پھنس جانا میرے اُن دنوں کے بھیانک تجربات میں سے ایک ہے۔ میرا مطلب ہے کہ یہ مشکل تھا۔ ہم نے کسی ڈیپارٹمنٹل سٹور میں جانے کا فیصلہ کیا تاکہ دیکھ سکیں کہ اُن کے پاس کیا کچھ ہے اور شائقین نے ہمیں وہاں تلاش کر لیا اور اُس جگہ کو تباہ کر دیا، سب کچھ اُلٹ پلٹ کر دیا، کاﺅنٹرز گِر گئے، شیشے کِرچی کِرچی ہوگئے، کیش رجسٹرز پھٹ گئے۔ ہم سب بھائی کچھ کپڑے دیکھنا چاہتے تھے! جب وہ جلوس رخصت ہوگیا، یہ سارا جنون اُس سے زیادہ تھا جس پر ہم قابو پا سکتے تھے۔ اگر آپ نے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا تو آپ اس کا خاکہ ذہن میں نہیں لا سکتے۔ وہ لڑکیاں سنجیدہ تھیں، وہ تاحال ایسی ہی ہیں۔ وہ یہ ادراک نہیں رکھتیں کہ شاید وہ آپ کو پریشان کر رہی ہیں کیونکہ وہ محبت کے بغیر ایسا کر رہی ہیں، وہ یہ جانتی ہیں۔ میں اس کے بارے میں نشاندہی کر سکتا ہوں لیکن یہ جلوس کےلئے تکلیف دہ ہوتا۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے آپ کا سانس رکنے جا رہا ہے یا اعضا ءالگ ہو رہے ہیں۔ وہاں ہزاروں ہاتھ آپ کو بھینچ رہے ہوتے ہیں۔ ایک لڑکی آپ کی کلائی کو ایک طرف مروڑ رہی ہے اور دوسری گھڑی اُتارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ آپ کو بالوں سے پکڑیں گی اور اُنہیں سختی سے کھینچیں گی۔ آپ چیزوں پر گِر جائیں گے اور وہاں ٹوٹا ہوا سامان بکھڑا پڑا ہے اور یہ خوفناک ہے۔ میرے جسم پر اب بھی زخموں کے نشان باقی ہیں اور مجھے یاد ہے کہ کون سا زخم مجھے کس شہر سے ملا ہے۔ ابتداءمیں میں نے سیکھا کہ تھیڑوں کے باہر کھڑی بے چین لڑکیوں کے ہجوم سے کیسے بچ کر نکلنا ہے۔ یہ بات ذہن نشیں رکھیں کہ آنکھوں کے سامنے ہاتھوں کی حفاظتی دیوار سایہ فگاں رہنی چاہئے کیونکہ لڑکیاں جذباتی کشمکش کے دوران بھول جاتی ہیں کہ اُن کے ناخن بھی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ شائقین کی اہمیت ہوتی ہے اور میں اُن کے جنون اور تعاون کی وجہ سے اُن کے ساتھ محبت کرتا ہوں لیکن ہجوم والے مناظر خوفناک ہیں۔)جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔