قومی اسمبلی، عدالتی اصلاحات سے متعلق قرار داد منظور، پنجاب میں گورنر راج کی سمری پر کام شرو ع کر دیا: رانا ثنا ء اللہ

    قومی اسمبلی، عدالتی اصلاحات سے متعلق قرار داد منظور، پنجاب میں گورنر ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک،نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی قرارداد منظور کرلی گئی۔سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدرت اجلا س میں عدالتی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی قرارداد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی جسے ایوان نے متفقہ طورپر منظو رکرلیا۔قرارداد میں کہا گیا پارلیمنٹ قانونسازی کا سپریم ادارہ ہے، قانون سازی اور آئین میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کا استحقاق ہے، قا نونسازی کا اختیار قانونساز کے پاس ہے، قانون پر عملدرآمد مقننہ کا اور تشریح عدلیہ کا اختیار ہے۔قرارداد کے متن میں کہا گیا ریا ست کا کوئی ایک ستون دوسرے کے اختیارات پر قبضہ نہیں کر سکتا، آئین نے پارلیمنٹ کو ججز کی تقرری کا ا ختیار دیا ہے۔ قر ا ر داد میں یہ بھی کہا گیا میثاق جمہوریت کے ایک ایجنڈے پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا، پارلیمانی اور آئین کی بالادستی سمیت ریاست کے ستونوں کے در میان تو ا زن کے حوالے سے سفر جاری ہے۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہاکہ قانون سازوں کو قانون سا زی کا کردار دیا گیا ہے، مقننہ اس پر عملدرآ مدکر ے اور عدلیہ اس پر فیصلے کرے۔ اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ ایک ادارہ دوسرے ادارے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتا،کسی ادارے کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پارلیمنٹ پر قبضہ کرے، عدالتی اصلاحات وقت کی ضرور ت ہیں۔

قرارداد منظور

اسلام آباد(آئی این پی)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا سابق چیف جسٹس دن رات سوموٹو لیتے تھے، ماضی میں مجھے عدالت بلاتی تھی تو احترام کیساتھ جاتے تھے، اگرآپ نے فیصلہ کرنا ہے تو پھر انصاف اورحق کی بنیاد پر کرنا ہو گا،، عدلیہ کا میرے دل میں بڑا احترام ہے، اگر حق اور سچ کی بات آج نہیں کرینگے تو کب کرینگے، آئین میں مقننہ،عدلیہ،انتظا میہ کے اختیارات متعین کردیئے ہیں۔ آئین کے اندر رہ کر سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، 75سالوں کے دوران آئین کیساتھ کھلواڑ ہوتا رہا، مارشل لا کئی دہائیوں تک مسلط ر ہے اورپاکستان دولخت بھی ہوا، جمہوریت کا پودا اتنا طاقتورنہ ہوسکا جتنا ہونا چاہیے تھا، یہ نہیں ہوسکتا میرے ساتھ اوردوسروں کیساتھ اورسلوک کریں، ملک کے مختلف حصوں میں سیلا بی صورتحال سے اتحادی حکومت پوری طرح آگاہ،چوکس اور دن رات کام کررہی ہے، اس حوالے سے چاروں صوبوں کے ساتھ میٹنگ کرچکا ہو ں، این ڈی ایم اے بھی اس حوا لے سے بھرپورکام کررہی ہے، یقین دلاتا ہوں امدادی پیکیج میں مزید اضافہ کریں گے،معززممبران کی سفارشات کے پیش نظر آج جمعرات کو مزید فیصلے کرینگے،ہم سب نے ملکر ریا ست کو بچانے کا فیصلہ کیا اگر سیاست کو بچاتے تو ریاست صفحہ ہستی سے مٹ جاتی، چیف الیکشن کمشنر فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کر رہے۔ بدھ کوقومی اسمبلی کے اجلاس میں سیلا ب سے متعلق خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا طوفانی بارشوں نے ہرجگہ تباہی پھیلائی، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ میں بے پناہ تباہی ہوئی، پاکستان بھرمیں طو فا نی بارشوں سے نقصانات ہوئے، اتحادی حکومت پوری طرح آگاہ اورچوکس ہے، اس حوالے سے چاروں صوبوں کیساتھ میٹنگ کرچکا ہوں، متاثرہ علاقوں میں بلوچستان، سند ھ، خیبرپختونخوا، پنجاب حکومت دن رات کام کررہی ہے، این ڈی ایم اے بھی اس حوالے سے بھرپورکام کررہی ہے، یقین دلاتا ہوں امدادی پیکیج میں مزید اضافہ کرینگے۔ معز ز ممبران کی سفارشات کے پیش نظر آج جمعرات کو مزید فیصلے کریں گے، صوبائی حکومتوں کی ہرممکن مدد کریں گے، انسانی فطرت ہے بچے کو تکلیف ہو تو بچہ فوری ماں کے پاس جاتا ہے، یہ معززایوان ماں ہے، 1973 کے آئین کو اسی ایوان نے تشکیل کی تھی، جس میں پورے پاکستان کی منتخب لیڈرشپ شامل تھی، اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی لیڈرشپ میں پاکستان بھر سے منتخب اراکین نے بڑی عرق ریزی کیساتھ اس آئین کی تشکیل کی، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ آئین پاکستان کی وحدت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ بدترین وقتوں میں بھی اسی آئین نے پوری دنیا کے سامنے مضبوط و متحد ملک کے طور پر پیش کیا، یہی آئین صدیوں تک پاکستان کی رہنمائی کرتا رہے گا، پاکستان کو مضبوط کرتا رہے گا۔آئین میں لکھا ہے حاکمیت اللہ تعالی کی ہے، 22 کروڑعوام نے منتخب نمائندوں کو اختیاردیا ہے، آئین میں مقننہ،عدلیہ،انتظامیہ کے اختیارات متعین کردیئے ہیں۔ آئین کے اندر رہ کر سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، 75سالوں کے دوران آئین کیساتھ کھلواڑ ہوتا رہا، مارشل لا کئی دہائیوں تک مسلط رہے اورپاکستان دولخت بھی ہوا، جمہوریت کا پودا اتنا طاقت ورنہ ہوسکا جتنا ہونا چا ہیے تھا، جوممالک ہم سے بہت پیچھے تھے آج ترقی کی دوڑمیں آگے نکل چکے ہیں، اغیار نے کئی سال پہلے آئی ایم ایف کو خیرآباد کہہ دیا، بزرگ، مائیں، بیٹیاں پوچھتی ہیں ملک کے اندر کب مہنگائی،غربت، قرضوں کا خاتمہ ہوگا۔ سب جانتے ہیں 2018 کے الیکشن میں بدترین جھرلو الیکشن تھے، دھاندلی کی پیداوار حکومت کو مسلط کر دیا گیا، رات کے اندھیر ے میں آر ٹی ایس بند ہوگیا تھا، سابق چیف جسٹس کے حکم پر گنتی کو رکوایا گیا تھا، گزشتہ پونے چار سالوں میں مسلط کردہ حکو مت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، 20 ہزار ارب سے زائد کے قرضے لیے گئے۔ پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا، اگر متحدہ اپوزیشن سیاست کو مقدم رکھتی تو پھرریاست کا خدا حافظ تھا، ہم سب نے ملکر ریاست کو بچانے کا فیصلہ کیا تھا، اگر سیاست کو بچاتے تو ریاست صفحہ ہستی سے مٹ جاتی، ہم جانتے تھے پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے، ہم جانتے تھے معیشت کوواپس زندگی دلانا آسان کام نہیں۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کیا ہم چوردروازے سے آئے؟ یہ پہلا موقع تھا کسی نے وزیراعظم آفس پر چڑھائی نہیں کی، ڈنکے کی چوٹ پرکہتا ہوں کوئی کنفوژن نہیں، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، خالد مقبول صدیقی نے ملکر اور میرے قائد نے مجھے منتخب کیا، جانتا تھا یہ عہدہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا سفرہے، 1992 میں سابق صدر نے مجھے وزیراعظم بننے کی آفر کی تھی، جنرل مشرف نے بھی مجھے وزیراعظم بننے کی آفرکی تھی، میرے سینے میں ایسے راز ہیں جو نہیں اگلوں گا، مجھے وزیراعظم بننے کے کئی مواقع ملے، نوازشریف کو جب اقامہ میں ناجائز سزا دی گئی تو نوازشریف نے مجھے چنا تھا، سب آتے ہیں اپنی اننگز کھیل کر چلے جاتے ہیں، یہاں کوئی سکندر نہیں، دنیا فانی ہے، ماضی میں غیرقانونی آفرزکوٹھکرایا تھا۔شہبا ز شریف نے کہا کہ میں کوئی تمغہ سجائے نہیں بیٹھا، رات کو بھی نیند نہیں آتی، 75 سال گزر گئے ابھی تک ہم نے اپنا راستہ متعین نہیں کیا، گزشتہ حکومت میں سب سے زیادہ کرپشن بڑھی۔ دوست ممالک کو ناراض کر دیا گیا، یہ کہتے ہیں امپورٹڈ حکومت ہے، جب امریکی صدر سے ملاقات کر کے آیا تو کہتا تھا ایک اور ورلڈکپ جیت کرآیا ہوں، روس نے سستا تیل دینے کی آفردی، روس نے کہا انہوں نے کوئی آفرنہیں دی۔ اس وقت تین ملین ٹن گندم شارٹ ہے، سیکرٹری خارجہ سے کہا روس اگر سستی گندم دے رہا ہے تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے، جب ہم گندم خرید چکے تو پرسوں روس سے آفر آئی ہے، وہ دن میرے لیے مر جانے کا دن ہو جو مجھ پر بیرونی ایجنٹ کا الزام لگائے۔ چیف الیکشن کمشنرفارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کر رہے، کیس کو 8 سال ہو گئے ہیں، فارن فنڈنگ کا پیسہ اسرائیل، بھارت سے میں نے نہیں منگوایا، کیا کسی نے سوموٹونوٹس لیا؟ پونے چارسالوں میں او چھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، اوچھے ہتھکنڈوں کا مقصد اپوزیشن کو دیوارسے لگانا تھا، اگررازکھول دوں تو ایوان حیرت میں آجائے گا، پونے چارسال چور، ڈاکو کا راگ آلاپتا رہا، ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کرسکا۔ آج دل کی باتیں کرنا چاہتا ہوں، ایک خطا کارانسان ہوں، کوشش کرونگا سچ بات کروں، قوم سے کہا تھا کوئی جھوٹ نہیں بولوں گا، اس لیے آج بات کر رہا ہوں، دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے، ان کے دورمیں چینی پراربوں کی سبسڈی دی گئی۔ گزشتہ دورمیں دونوں ہاتھوں سے قوم کولوٹا گیا، چینی کی قیمت 110روپے کلو تک جاپہنچی تھی، جس طرح روم جل رہا تھا تو نیورو بانسری بجا رہا تھا، ان کوکوئی پرواہ نہیں تھی، انہوں نے خود آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اورخود دھجیاں اڑائیں۔شہباز شریف نے کہا کہ بات نکلی ہے تو بہت دور تک جائے گی، بی آرٹی پشاورمیں اربوں کے غبن ہوئے، کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا،

 ہیلی کاپٹرکیس میں کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، مالم جبہ کیس پرکسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا اس کو نیب نے جھپا ڈال لیا۔ مونس الہی کا کیس نیب نے بند کردیا، کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں گرفتارکی گئیں، کسی نے نوٹس لیا، سابق وزیراعظم کی بہن کو خاموشی سے این آر او دیا گیا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، کفرکا نظام زندہ رہ سکتا ہے بے انصافی کا نہیں، 75سال گزرگئے آج بھی ہم اسی دائرے میں ہیں۔دریں اثناء پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایسے نہیں ہوسکتا ہمارے لیے ایک اورلاڈلے کیلئے دوسرا آئین ہو، ہمارا کام آئین بنانا اورعدلیہ کا کام تشریح کرنا ہے، خود ترمیم لانا نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا تین جج آئین تبدیل کردیں۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنادی جائے جس میں ہم قانون سازی کریں گے، ہم فیصلہ کریں گے کتنے ججز کو بنچ میں بیٹھنا چاہیے، اگراسپیکرکی رولنگ پرفیصلہ سنانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ مگر پورے ججز کو بٹھانا ہو گا۔ وفاقی وزیر خارجہ نے کہا تمام سیاسی جماعتوں کا ایک ہی مطالبہ تھا، ہم کسی ادارے کو دباؤ میں ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے، صرف یہ گزارش کی تھی فل کورٹ بیٹھ کر فیصلہ سنا دے، ہم نے کہا تھا فل کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوا ہم مانیں گے، یہ مطالبہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر نہیں تھا، ڈپٹی سپیکررولنگ کے حوالے سے ہمارا فل کورٹ کا مطالبہ تھا۔ سابقہ حکومت نے آئین توڑا میرا تب بھی یہی مطالبہ تھا، آئین پاکستان کی تشکیل کیلئے 30 سال کا عرصہ لگا، شہید بینظیر بھٹونے آئین کی بحالی کیلئے جدوجہد کی، آئین میں ترمیم کیلئے دوتہائی اکثریت درکارہوتی ہے۔ صوبوں کوحقوق دینے کیلئے اٹھارویں ترمیم لائے، ہردن عوام کے مینڈیٹ اور جمہوریت پرحملے ہوتے رہے، عدلیہ بحالی تحریک، کراچی کے جیا لوں کو گولیاں ماری گئیں، سابق چیف جسٹس افتخارچودھری ایسے فیصلے دیتے تھے جو آئین وقانون کے مطابق نہیں ہوتے تھے، ہم اپنا کام کرتے رہے اور جمہوریت کو بحال کیا، کبھی ٹماٹر، کبھی آلوؤں کی قیمت پر سوموٹولیتے تھے، ہم نے ملک اورقوم کے ساتھ جوڈیشل ریفارمز کا وعدہ کیا تھا۔ جوڈیشل ریفارمزیہ ہاؤس کریگی۔ مانتا ہوں دھمکی میں آکر19ویں ترمیم پاس کی، ہمیں آئین کوتبدیل نہیں کرنا چاہیے تھا، اس وقت کی اپوزیشن شائد اس قسم کی جوڈیشل ایکٹوزم سے خوش تھی، ٹوتھرڈ میجورٹی رکھنے والے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا، 2018ء کے الیکشن میں چند ججز کا رول تھا، صاف نظر آرہا تھا چند ججزالیکشن کمپین میں حصہ لے رہے تھے، ثاقب نثارہمارے خلاف الیکشن مہم چلارہا تھا، پولنگ والے دن فیصل صالح حیات الیکشن جیت رہا تھا، ثاقب نثارنے ری پولنگ کی مخالفت کی تھی، یہ جناب سپیکرمتنازع کردارہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ سلیکٹڈ نظام بٹھانے کیلئے کردار آئینی نہیں متنا ز ع کردارادا کررہے تھے، ہم چاہتے ہیں وہ متنازع نہیں آئینی کردارادا کریں، اسٹیبلشمنٹ،عدلیہ کا کردارمتنازع نہیں ہونا چاہیے، یہی وجہ تھی ہم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا تھا، ایسے نہیں ہوسکتا ایک آئین نہیں، دوآئین اوردوپاکستان ہو، مجھے فرق نہیں پڑتا پرویزالہیٰ یا حمزہ شہبازوزیراعلیٰ پنجاب ہو، ایسے نہیں ہوسکتا ہمارے لیے ایک اورلاڈلے کے لیے دوسرا آئین ہو، ہمارا کام آئین بنانا اورعدلیہ کا کام تشریح کرنا ہے، خود ترمیم لانا نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ تین جج آئین تبدیل کردیں، جوڈیشل ریفارمزکرنے تک جمہوریت کا سفرنامکمل ہوگا۔اْنہوں نے مزید کہا کہ 2018ء  کے انتخابات کے دوران ایسا لگتا تھا کہ کئی ججز انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہمارے خلاف مہم چلا رہے تھے، 2018 سے اپریل 2022 تک سلیکٹڈ حکومت کو بچانے کے لیے اداروں نے متنازعہ کردار ادا کیا، عدلیہ اور سٹیبلشمنٹ کا کردار غیر متنازعہ ہونا چاہیے، اسی لیے ہم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا تھا، ایسا نہیں ہو سکتا دو آئین پاکستان ہوں، ایک فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ کی ہدایات ضروری ہے، دوسرے فیصلے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایات ضروری ہیں، عدالتی اصلاحات کے بغیر جمہوریت کا سفر نا مکمل ہوگا، سپریم کورٹ کا مطلب صرف چیف جسٹس نہیں ہے، سپیکر صاحب میرا مطالبہ ہے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، یہ ہم طے کریں گے پارلیمان سے متعلق کیسز میں کتنے ججز کو بیٹھنا چاہئیے، پارلیمان سے متعلق کیس میں تمام ججز کو بٹھا کر فیصلہ کرنا ہوگا۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنادی جائے جس میں ہم قانون سازی کریں گے، ہم فیصلہ کریں گے کتنے ججز کو بنچ میں بیٹھنا چاہیے، اگراسپیکرکی رولنگ پرفیصلہ سنانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ مگر پورے ججز کو بٹھانا ہو گا، جناب سپیکر آپ قدم بڑھائیں، پیپلزپارٹی جوڈیشل ریفارمزکے لیے تیارہے، ایک رات کی نیوٹریلٹی سے 70سال کے گناہ معاف نہیں ہوسکتے، شہبازشریف کے پاس مسائل کوحل کرنے کے لیے جادوکا چراغ نہیں، عوام کوپتا ہے خان صاحب نے تاریخی قرض لیے، ماننے کوتیارنہیں عوام اس قسم کے لوگ کومعاف کرنے کو تیارہوں گے، ہم تگڑے، ڈٹ کراس مسئلے کوحل کرنا ہوگا، آئین شکنی، جمہوریت کے خلاف کام بنی گالہ سے ہویا کسی اورجگہ سے انصاف کرنا ہوگا، اگرہم یہ کام نہیں کرسکتے تو پھر اسمبلی کوتالا لگادیں ہم کیوں خوارہوتے ہیں، وقت آگیا ہے جمہوریت کا نعرہ نہیں قانون سازی کریں، پارلیمان میں وہ طاقت ہے ہر مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔بلاول نے کہا کہ جناب سپیکر آج ہی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائیں، سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس نہیں تمام ججزپرمشتمل ہے، آئین سازی پارلیمنٹ کا اختیارہے۔
شہباز، بلاول

  اسلام آ باد (مانیٹرنگ ڈیسک،نیوز ایجنسیاں)  وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے سوموٹو ایکشن اوربنچ بنانے کے اختیار ات کے حوالے سے قانون سازی کا فیصلہ کر لیا، سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف سابق حکومت میں نظرثانی درخواست (کیوریٹو ریویو) واپس لینے کی منظوری دیدی گئی، قاضی فائز کے معاملے پر کابینہ کی ذیلی کمیٹی قائم کرتے ہوئے کہا گیا قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی فیملی کیساتھ زیادتی ہوئی، وزیراعظم ریفرنس واپس لینے کے حوالے سے صدر مملکت کو خط لکھیں گے جبکہ کابینہ نے ڈی جی ایف آئی اے را ئے طاہر کو تبدیل کرکے انکی جگہ محسن بٹ کو نیا ڈی جی ایف آئی اے تعینات کرنے اور قومی اثاثوں کی نیلامی سے متعلق جی ٹو جی بل کی منظوری بھی دیدی،گورنر سٹیٹ بینک کی تقرری مو خر کرتے ہوئے وزیراعظم نے تعیناتی پر چھ رکنی کمیٹی بنادی،کمیٹی گورنر کے امیدواروں کے انتخاب کیلئے سفارشات مرتب کریگی۔ا سکے علاوہ ملک کے 75 ویں یومِ آزا دی کی تقریبات کے انعقاد کیلئے وزارتِ اطلاعات و نشریات کو مالی سال 2022-23 میں 650ملین روپے کی منظوری دید ی گئی۔کابینہ نے یومِ آزادی کو شایان شان طریقے سے منانے کے حوالے سے وزارتِ اطلاعات و نشریات کی کوششوں کو سراہ اور حکومتی پالیسیز کی بہترین انداز میں تشہیر پر وزارتِ اطلاعات و  نشر یا ت کے کردار کی تعریف کی، ا جلاس میں حکومت نے مدت مکمل کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ بدھ کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں ملکی سیا سی و معاشی صورتحال سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا،کابینہ اجلاس میں ڈی جی ایف آئی اے رائے طاہر کو تین ماہ میں ہی عہدے ہٹا کر انسداد دہشتگردی کا نیشنل کو آرڈینیٹر لگا دیا جبکہ ڈی جی ایف آئی اے کا عہدہ محسن بٹ کو دیدیا جو پولیس سروس کے گریڈ 22 کے افسر ہیں۔محسن بٹ اسوقت بلوچستان کے آئی جی ہیں،ذرائع کے مطا بق رائے طاہر نے وزیر داخلہ کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کردیا تھا، واضح رہے وفاقی کابینہ نے 20 اپریل کو رائے طاہر حسین کو ڈی جی ایف آئی اے تعینات کیا تھا۔ دوران اجلاس وفا قی کابینہ نے عدالتی اختیارات پر قومی اسمبلی میں بحث کرانے کا فیصلہ کیا جبکہ وزیر اعظم نے تمام وزراء کو ایوان میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی۔وفاقی وزیر داخلہ ر انا ثنااللہ خان نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ میں بتایا وفاقی کابینہ نے عدالت کے ازخود نوٹس بنچ تشکیل کے اختیارات پرقانون سازی کا فیصلہ کیا ہے، عدالتی اختیارات سے تجاوز پر اسمبلی میں بحث کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جوڈیشل ریفارمز پر پارلیمانی کمیٹی بنے گی۔سو موٹو کیس اور بنچ بنانے کا اختیار صر ف چیف جسٹس کا نہیں سینئر ججز کے پاس ہونا چاہیے۔آئین کے مطابق چیف جسٹس اور ججز مل کر بنچ بنا سکتے ہیں۔ آئین کی شق 175 اے اور شق 209 میں ترامیم کی جائیں تاکہ ججز کی تقرری اور برطرفی کا فورم ایک ہو سکے اور اس میں ججز، بار، انتظامیہ اور پارلیمان سب کی مساوی نمائندگی ہو۔ وفاقی کابینہ کا نیکٹا کو موثر بنانے کا فیصلہ کیا،ایک ارب نیکٹا کو د ینے جا رہے ہیں۔نیکٹا کو آپ لفٹ کر ے کا فیصلہ کیا ہے، ڈی جی ایف آئی اے رائے طاہر نے سی ٹی ڈی کو آگے بڑھایا۔ کابینہ اجلاس میں گورنرراج لگانے پر بھی بات چیت ہوئی، صدر مملکت کا وزیراعظم کی تجویز پر عمل کرنالازمی ہے،صدر نے صرف ایڈوائس پر عمل کرنا ہے،ایکٹ نہیں کریگا تو دس دن میں وزیراعظم کی ایڈوائس از صد لاگو ہو جائیگی۔ وفاقی کا بینہ نے پنجاب سے متعلق سپریم کورٹ کے اقدامات پر اظہار تشویش کیا اور کہا فائز عیسیٰ سے متعلق جو نظرثانی درخواست دی گئی اسکی کوئی مثال نہیں،فائز عیسیٰ ایماندار جج ہیں انکی فیملی کیساتھ شہزاد اکبر جیسے غنڈوں اور سابق وزیر اعظم نے زیادتی کی،کابینہ نے ریویو کو واپس لینے کی سفارش کی،پورا ریکارڈ دیکھا کابینہ کی کوئی منظوری نہیں دی گئی۔آئین میں جو طر یقہ درج ہے اس پر غور کر رہے ہیں۔ وفاقی ادار وں کا بجٹ بھی بعض صوبوں سے بٹا ہے،کیا یہ ادارے صرف اسلام آباد تک محدود ہو جائیں گے؟۔ہم اپنا کردار ادا کریں گے وہ غیر آئینی عمل اپنائیں گے تو پھر دیکھیں گے۔اس صورتحال میں کوئی بھی خود سے الیکشن کا فیصلہ نہیں کر سکتا،اگر قومی اسمبلی توڑ دی جائے تو کیا ہم ان صوبائی حکومتوں کے ماتحت الیکشن لڑیں گے۔سیاستدان بیٹھ کر طے کرتے ہیں، وہ کسی سے بات کر نا اور نہ سننا چاہتے ہیں، ہمارے کسی کیساتھ مذاکرات نہیں ہو رہے اگر کسی کیساتھ ہو رہے ہیں تو وہ بتا دیں۔پرویز خٹک نے ہمارے ایک بندے کو ملنے کا پیغام دیا تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ انہوں نے پنجاب میں گورنر راج کی سمری پر کام شروع کر دیا ہے،صوبے میں میرا داخلہ بند کیا گیا تو گورنر راج کے نفاذ کیلئے یہ جواز کافی ہوگا، عدلیہ کے اختیارات میں کمی کی با ت کوئی نہیں کرتا، کوئی یہ نہیں کہہ رہا عدالتی اختیارات پارلیمان کو دے دیئے جائیں، اسے ریگولیٹ کرنا چاہیے، عدالتی فیصلے معاملات کو متنازع کریں گے تو ڈالر چھلانگیں لگائے گا اور مہنگائی بھی ہوگی، موجودہ سیاسی حالات پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے سے سیا سی صورتحال مزید خراب ہوئی۔  ملک میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ملک کا سیاسی عدم ا ستحکا م ہے جس کی بڑی وجہ عدلیہ کے متنازع فیصلے ہیں،عدالت نے پہلے کہا تھا 25منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں ہونگے لیکن چوہدری پرویز الٰہی کے کیس میں انہی 25 منحر ف ارکان کے ووٹ کو شمار کر لیا گیاجبکہ حمزہ شہباز 197ووٹ لیکر وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو چکے تھے،جس سے عدالتی احکامات میں ابہام پیدا ہوا ہے۔ عدم استحکام کی وجہ سے ڈالر مزید اوپر چلا جائیگا،سٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہوگی اور ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔عدالتی فیصلہ قابل افسوس ہے،عدالت کا احترام ہر فرد پر لازمی امر ہے، آ زا د، غیر جانبدار اور قابل عزت عدلیہ معاشرے کی اہم ضرورت ہے، آزاد عدلیہ کا معاملہ صرف مسلم لیگ ن اور سیاستدانوں کا نہیں بلکہ تمام اداروں کی بھی ذمہ داری ہے، آزاد عد لیہ کیلئے قانون ساز ی نہیں ہوسکتی یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک پوری قوم اس کیلئے کام نہ کرے۔رانا ثناء اللہ نے کہا علماء کرام حکومتی سطح پر افغانستان نہیں گئے،علماء کرام کا ایک وفد افغانستان میں ٹی پی پی سے مذاکرات کیلئے گیا،یہ حکومت کے علم میں نہیں،تاہم جو بھی امن مذاکرات کیلئے کام کریگا ہم اس کا خیر مقدم کرینگے،عدلیہ کے اختیارات کو کم کوئی بھی نہیں کر سکتا،ا سے ریگولیٹ کرنا چاہیے۔بنچ اور سوموٹو بنانے کا اختیار وزیراعظم کو نہیں دے رہے، ہم چاہتے ہیں تین یا پانچ ججوں سے مشاورت ضرور ہونی چاہیے،اس سے عد لیہ کی عزت و احترا م میں اضافہ ہوگا۔ سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں اتحادی جماعتوں کے پاس ہیں،وفاقی حکومت کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے، وفاقی حکومت کے پاس محدود اختیا رات کا تاثر غلط،وفاقی حکومت کے محکمے صوبوں میں موجود ہیں جن کا بجٹ صوبائی حکومتوں کے محکموں سے بھی زیادہ ہے،ایسی بات ناسمجھ اور زبان دراز لوگ ہی کرتے ہیں۔وزیرداخلہ نے دھمکی دی کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کا پنجاب میں داخلہ بند کیا جائیگا انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ گورنر راج کی سمری وزارت داخلہ نے بھجوانی ہوتی ہے جس پر وزارت داخلہ نے کام شروع کردیا ہے۔ عمران خان اور فرح گوگی کے کرپشن کے کیسز نیب میں موجود ہیں،نیب کے چیئرمین بااختیار ہیں کرپشن کے کیسز پر کام جاری ہے۔ اگر کرپشن کے کیسز پر مقدما ت بنے تو ضرور بنیں گے، فرح گوگی کا معاملہ پنجاب اینٹی کرپشن میں چل رہا ہے انہیں پنجاب حکومت بند کردیگی لیکن وہ مقدمہ نیب میں بھی چل رہا ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ ادارے بااختیار ہوں اور خود کام کریں۔ شہزاد اکبر کی طرح حکومت مخالفین کیخلاف مقدمات نہ بنوائے یہ کام ہمارا نہیں۔ ادارے کام کررہے ہیں لیکن ہم چالان عدالت میں جمع کرانے سے پہلے پریس کانفرنس کرنے کے حق میں نہیں۔ عمران خان کیخلاف ایسے ایسے کرپشن کے کیسز سامنے آرہے ہیں جب حقائق کے سامنے آئینگے تو عوام کے سامنے وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ عمران خان توشہ خانہ کا جواب نہیں دے سکے، انہوں نے پچاس ارب کا ٹیکا قومی خزانے کو لگایا اور پانچ ارب روپے کی پراپرٹی جو 458کنال بنتی ہے وہ قادر ٹرسٹ کے حوالے کی جس کے ٹرسٹی عمران خان اور بشریٰ بی بی خود ہیں۔ ساری چیزیں جب نیب چالان عدالت میں پیش کرے گا تو سامنے آجائیں گی۔ انہوں نے انکشا ف کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد (ن) لیگ الیکشن میں جانا چاہتی تھی لیکن حب الوطن حلقوں اور اتحادیوں کے مشورے پر حکومت سنبھالی کیونکہ ان حلقوں کا کہنا تھا عمران خا ن نے بطور وزیراعظم ملکی معیشت کا بیٹرا غرق کردیا اگر آپ نے حکومت نہ سنبھالی تو ملک دیوالیہ ہوجائیگا، ہم نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی اور ملک کو دیوالیہ کے خطرے سے باہر نکالا۔ وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کی تردید کردی۔ میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پنجا ب میں گورنر راج کے نافذ کی تردید کردی۔ وزیر قانون سے سوال کیاگیا کہ کیا عدلیہ کے اختیارات محدود ہونے جارہے ہیں،تو اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ عدلیہ کے جو اختیارات ہیں  وہی رہیں گے، عدلیہ کے جو اختیار آئین نے دئیے ہیں وہی رہیں گے۔ صحافی نے سوال کیا کہ پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے جارہے ہیں۔وزیر قانون نے جواب دیاکہ ایسی کوئی بات نہیں، پنجاب میں وزرا ء کے داخلے روگے گے تو گورنر راج کا جواز بن جائیگا۔انہوں نے کہااجلاس میں عدلیہ کے پارلیمنٹ میں مداخلت پر بات ہوگی، پارلیمان اپنے اختیارات کا آئینی طور پر تحفظ جانتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریاستی اداروں پر کون حملہ آور ہورہا ہے، پچھلے دو دنوں میں جس ادارے نے جس ادارے پر حملہ کیا آپ کے سامنے ہے۔
وفاقی کابینہ 

مزید :

صفحہ اول -