نبی پاکؐ، صحابہ و اہلبیت عظام ؓ کی توہین سنگین جرم قرار، اسلامی نظریاتی کونسل، جید علماء کی مرتکب عناصر کو سخت ترین سزائیں دینے کی سفارش
اسلام آباد(آن لائن) اسلامی نظریاتی کونسل اور جید علماء کرام نے نبی پاک ؐ صحابہ کرام و اہل بیت عظامؓ کی توہین کو سنگین جرم قرار دیتے ہوئے مرتکب عناصر کو سخت ترین سزائیں د ینے کی سفارش کی ہے، اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال، ریاست کیخلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکو متی، ملٹری یا دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کے افراد کو کافر قرار دے۔بدھ کے روز اسلامی نظریاتی کونسل میں پاکستان کے جید اور نمائندہ علماء کرام کا اجتماع ہوا،جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، حافظ طاہر محمود اشرفی، چیئرمین پاکستان علماء کونسل مولانا مفتی عبدالرحیم،چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد، علامہ امین شہیدی، علامہ عارف واحدی، علامہ افتخار حسین نقوی،پیر امین الحسنات شاہ، پیر سید علی رضا بخاری، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، پیر خالد سلطان باہو، علامہ ضیاء اللہ شا ہ بخاری، مولانا محمد یاسین ظفر، مولانا حامد الحق حقانی، مولانا حکیم مظہر، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا اورنگزیب فاروقی، مولانا معاویہ اعظم طارق، مولانا فضل الرحمن خلیل، شیخ انور علی نجفی، علامہ افضل حیدری، علامہ شبیر حسین میثمی، علامہ ناصر عباس شیرازی، پیرزادہ محمد امین، شہزادہ حافظ حامد رضا، پیر حسان حسیب الرحمٰن، شہزادہ غلام نظام الدین سیالوی اور جا معہ العروہ الوثقی لاہور کے نمائندگان نے شرکت کی۔اجلاس میں تمام مسالک کے جید اور نمائندہ علماء و مشائخ کے منظو ر کردہ محرم الحرام کیلئے ضابطہ اخلاق کی توثیق کی گئی اور اس کے نفاذ پر زور دیاگیا،ضابطہ اخلاق کے مطابق اسلام کے تمام مکاتب فکر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مسالک و عقائد کی تبلیغ کریں، مگر کسی کو کسی شخص، ادارے یا فرقہ کیخلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تمام شہریوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی بالادستی کو تسلیم کریں، ریاست پاکستان کی عزت و تکریم بجا لائیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر حال میں ریاست کیساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہری بنیادی حقوق کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں۔ علما ء و مشائخ اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ افراد کو چاہیے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص طورپر قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور سکیورٹی اداروں کی بھرپور حمایت کریں تاکہ معاشرے میں سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ہر فرد ریاست کیخلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے،ریاست ایسے گروپس کیخلاف سخت کارروائی کرے گی۔کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت، مسلح فرقہ وارانہ تنازع اور جبراً اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے کیونکہ یہ شر یعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور فساد فی الارض ہے۔کوئی نجی یا سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ، تربیت اور نفرت انگیز انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ نہ دے۔ ایسی سرگرمیو ں میں ملوث افراد اور اداروں کیخلاف قانون کے مطابق ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائیگی۔انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا عقیدے سے ہوں کیخلاف سخت انتظامی اور تعزیری اقدامات کیے جائیں گے۔ کوئی فرد یا گروپ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا یا توہینِ رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی روشنی میں کریں گے۔ملک غیر مسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں۔ اسلام خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خوا تین سے ان کے ووٹ اور تعلیم کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے۔ضابطہ اخلاق کے مطابق کوئی شخص مساجد، منبر و محراب، مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پرمبنی تقاریر نہیں کریگا یا فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالے سے اخبارات، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر متنازعہ گفتگو نہیں کریگا۔آزادی اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے، اسلئے میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔
اسلامی نظریاتی کونسل