الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023ء
پارلیمنٹ کے بدھ کو ہونے والے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023ء کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا ہے جس کے تحت اب نگران حکومت پہلے سے طے شدہ معاہدوں اور منصوبوں کو آگے بڑھانے کی مجاز ہو گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی کے سینیٹرز نے منگل کو ہونے والے اجلاس میں نگران وزیراعظم کے اختیارات میں اضافے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ اْن کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعظم کو منتخب وزیراعظم کے برابر اختیارات دینا قابل ِ قبول نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ نگران حکومت منتخب حکومت کی جگہ نہیں لے سکتی، ایسا کرنا آئین کا قتل اور اِس کی خلاف ورزی کے مترادف ہو گا۔اعتراضات آنے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ایوان کی کارروائی 7 اگست تک ملتوی کر دی تھی تاہم چونکہ حکومت اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں کے اعتراضات دور کرنے میں کامیاب ہو گئی اِس لیے اگلے ہی روز یعنی بدھ کو دوبارہ اجلاس بلایا کر نیا ترمیمی بِل پاس کرا لیا گیا۔نئی ترامیم کے مطابق اب نگران حکومت نئے عالمی معاہدے کرنے کی مجاز تو نہیں ہوگی تاہم وہ پہلے سے طے شدہ معاہدوں اور منصوبوں کو آگے بڑھا سکے گی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بدھ کو ہونے والے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں انتخابی قانون 2017ء میں ایک شق 230 کے علاوہ تمام ترامیم پر اتفاق رائے تھا جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے تمام ممبران کو دوبارہ طلب کیا اور اِس شق کا دوبارہ جائزہ لیاگیا، بعض چیزیں اِس میں سے نکال دی گئی ہیں، اِس شق کو اب آسان بنا دیا گیا ہے، ہم آنے والے انتخابات کو صاف شفاف بنانا چاہتے ہیں تاکہ قانون میں ابہام یا سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابی عمل یا نتائج پر کوئی اثر انداز نہ ہوسکے۔ اْن کا کہنا تھا کہ اِس وقت چند معاہدے فائنل ہو چکے ہیں جبکہ بعض ابھی فائنل ہونے ہیں، ورلڈ بینک نے بھی سیلاب زدہ علاقوں کے لیے جو پیکیج دیا ہے جس پر دستخط ہونا باقی ہیں۔ وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے سیکشن 230 سے متعلق ترمیم ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کو جاری معاشی منصوبوں اور بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کا اختیار ملے گا۔ وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے کہا کہ ایک بین الاقوامی ادارے کی طرف سے تحفظات سامنے آئے ہیں کہ حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد مختلف ترقیاتی منصوبوں کے معاہدوں پر عمل درآمد کیسے ہوگا، منصوبوں پر کام شروع ہو بھی جائے تو اْس میں نگران دور کے دوران آنے والے تعطل سے ٹھیکیدار ڈی موبلائز ہوجاتے ہیں تاہم اب اِس قانون سازی کے ذریعے نگران حکومت کو کثیر الجہتی اور دوطرفہ معاہدوں کی حد تک باراختیار کر دیا گیا ہے کہ سرمایہ کاروں کے پاس سرمایہ کاری کے لیے ساری دنیا ہے اور نیلامی کے اشتہار کے بعد اِس میں تعطل آنے سے سرمایہ کار چلے جاتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نگران حکومت کہ اختیارات دینے کا مقصد نگرانوں کو طویل مدت تک چلانا نہیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ بل کی دیگر شقوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے،وزیر قانون کے شکر گزار ہیں کہ ایوان کی بحث کو مد ِنظر رکھا اور ذیلی شق ایک اور دو واپس لے لی گئیں، یہی اِس پارلیمان کا حسن ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی نے الیکشن کا ترمیمی بل 2023ء وزیراعظم کی سفارش کے ساتھ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو رسمی منظوری کے لیے بھجوا دیا ہے۔صدر نے یقین دہانی کرا دی ہے کہ وہ اِس بِل پر جلد دستخط کر دیں گے تاہم اگر اْنہوں نے 14 دن کی معیاد کے اندر یعنی 9 اگست تک اِس پر دستخط نہ کیے تو یہ اسمبلی کی 8 اگست کی مجوزہ تحلیل کے اگلے دن قانون بنے گا جبکہ دستخط کر دیے تو فوراً ہی قانون بن جائے گا۔ الیکشن ایکٹ ترمیمی بِل پیش کیے جانے سے لے کر منظور ہونے تک پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین نے نہ صرف ذمہ داری کا مظاہرہ کیا بلکہ پارلیمان کو بھی جمہوریت کی روح اور قدار کے مطابق چلایا گیا، اِس ایکٹ پر اعتراضات سامنے آئے تھے جنہیں بات چیت کے بعد ختم کر دیا گیا۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے بعد اِسے دوبارہ مشترکہ اجلاس میں پیش کیا گیا اور پھر عمومی بحث کے بعد اِسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ نگران حکومت اِسے کیسے استعمال کرتی ہے یہ تو اْس کے آنے کے بعد ہی پتہ چل سکے گا، فی الحال تو یہی کہا جا رہا ہے کہ اِن ترامیم کا مقصد صرف معاشی معاملات کو چلانا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ایوانوں میں موجود عوامی نمائندوں نے اِن معاملات میں اختلاف تو کیا اور پھر ایک دوسرے کی بات کو سمجھا بھی اور پھر قانون سازی میں کسی قسم کی رکاوٹ بنے بغیر نتیجے پر متفق ہو گئے۔ بِل پاس ہو چکا ہے اور اْمید ہے صدرِ مملکت بھی اِس بل کی اہمیت کو مد ِ نظر رکھیں گے اور جلد دستخط ثبت فرما دیں گے۔
