نائیجر کے فوجی جنرل نے خود کو ملکی سربراہ قرار دیدیا
نیامے ( ڈیلی پاکستان آن لائن) افریقہ کے جنوب مغربی ملک نائیجر میں پرتشدد مظاہروں کے دوران منتخب صدر محمد بزوم کو حراست میں لیے جانے کے تیسرے دن فوجی جنرل عبدالرحمانے ٹچیانی نے خود کو ملک کا نیا سربراہ قرار دے دیا۔
غیرملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق 2011 سے صدارتی گارڈ کے سربراہ جنرل عبدالرحمانے ٹچیانی سرکاری ٹیلی ویژن پر یہ کہتے ہوئے نمودار ہوئے کہ وہ قومی کونسل برائے تحفظ وطن کے صدر ہیں۔فرانس نے چند گھنٹے قبل کہا تھا کہ وہ فوجی بغاوت کو حتمی نہیں سمجھتا، سازش کرنے والوں کے لیے وقت ہے کہ وہ جمہوری طور پر منتخب صدر کو دفتر سے نکالنے کے خلاف بین الاقوامی آواز پر توجہ دیں۔تاہم 2011 سے صدارتی گارڈ کے سربراہ جنرل عبدالرحمانے ٹچیانی نے سرکاری ٹی وی پر ایک بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ وہ ’قومی کونسل برائے تحفظ وطن کے صدر‘ ہیں۔فوجی جنرل نے بغاوت کو جہادی خونریزی سے منسلک سیکورٹی کی صورتحال کی تنزلی کے ردعمل کے طور پر پیش کیا۔ادھر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے نیامی میں ہونے والے واقعات کو ساحل کے وسیع علاقے کو متاثر کرنے والی بغاوت قرار دیا ہے جہاں مغربی طاقتیں باغیوں سے متاثرہ علاقے میں ایک اہم اتحادی کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔فرانسیسی صدر نے منتخب صدر کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بغاوت نائجیرین، نائجر کے لیے اور پورے خطے کے لیے مکمل طور پر ناجائز اور انتہائی خطرناک ہے۔جنرل عبدالرحمانے ٹچیانی نے کہا کہ جب کہ صدر نے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے جبکہ تلخ حقیقت مردہ، بے گھر، ذلت اور مایوسی کا ڈھیر ہے۔انہوں نے کہا کہ آج سیکورٹی کے نقطہ نظر سے بھاری قربانیوں کے باوجود ملک میں سیکورٹی نہیں۔فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا نے صدر محمد بزوم کی پوزیشن پر امید ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ مجھے بغاوت کی کوشش کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کو حتمی نہیں سمجھتے، اگر ذمہ دار بین الاقوامی برادری کی بات سنیں تو اب بھی کوئی راستہ باقی ہے۔بغاوت کے منصوبہ سازوں نے گزشتہ روز شہریوں کو خاموش رہنے کی تاکید کی تھی، جہاں نوجوانوں نے ملکی صدر کی پارٹی ہیڈکوارٹر میں توڑ پھوڑ کی اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔مظاہرین میں سے کچھ لوگوں نے روسی پرچم اٹھا رکھے تھے اور فرانس مخالف اور ماسکو کے حق میں نعرے لگا رہے۔مظاہرین نے کہا کہ تشدد اور مظاہروں پر فوج کی پابندی کے باوجود ہم اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔واضح رہے کہ نائیجر کی آزادی کے بعد پہلی پرامن منتقلی میں، بازوم نے دو سال قبل انتخابات کے بعد عہدہ سنبھالا تھا جہاں مسلسل کشیدگی جاری ہے۔
