اسلامی دنیامیں سفید رنگت والے لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ برادرانہ رویہ رکھتے ہیں،میری تنظیم کی عمر ابھی صرف چند ہفتے تھی،میں بے روزگار تھا اور قلاش بھی
مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:158
ایک ملازم چائے اور کافی رکھ کر غائب ہو گیا۔ انہوں نے مجھے آرام سے بیٹھنے کیلئے کہا۔ کوئی عورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ عرب میں آپ کے ذہن میں یہ خیال باآسانی آ سکتاہے کہ یہاں عورتیں نہیں ہوتیں۔ ڈاکٹر عبدالرحمن اعظم گفتگو پر چھائے رہے۔ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں نے ان سے پہلے رابطہ کیوں نہیں کیا تھا؟ کوئی مسئلہ تو نہیں تھا؟ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ ائیرپورٹ پر وقت گزارنے سے مکہ پہنچنے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ میں نے انہیں بارہا یقین دلایا کہ مجھے کوئی تنگی نہیں ہوئی میں بالکل ٹھیک تھا مگر انہیں یقین نہ آیا۔ ڈاکٹر اعظم مجھے آرام کرنے کا کہہ کر ٹیلیفون پر مصروف ہو گئے۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ یہ معزز آدمی کیا کر رہا ہے پھر مجھے بتایا گیا کہ آج رات کا کھانا مجھے یہیں کھانا ہے اور اس دوران مجھے سفر کرنا ہے تو میرے تصو رمیں نہیں تھا کہ میں اسلامی میزبانی کا مثالی نمونہ دیکھنے والا ہوں۔ عبدالرحمن اعظم جدّہ پیلس ہوٹل کے ایک سوئٹ میں رہائش رکھتے تھے لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ میں ان کے دوست کا خط لے کر آیا ہوں تو وہ اپنا سوئٹ میرے حوالے کر کے اپنے بیٹے کے ہاں منتقل ہو گئے تاکہ میں مکہ جانے تک وہاں رہ سکوں۔ میرے احتجاج کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا اور مجھے وہاں رہنا پڑا۔3 کمروں پر مشتمل سوئٹ کا غسل خانہ نیویارک ہلٹن کے غسل خانے سے دگنا بڑا تھا۔ سوئٹ کا نمبر
214تھا۔ باہر کی طرف ایک پورچ بھی تھا جس سے آپ بحیرہ احمر کے کنارے آباد قدیم شہر کا نظارہ کر سکتے تھے۔
اس سے پہلے کبھی میرے دل میں نماز کی ایسی خواہش پیدا نہیں ہوئی تھی میں بے اختیار لی ونگ روم کے قالین پر سجدے میں گر گیا۔ میری جبلّت بے ساختہ ان وجوہات اور مقاصد کا تجزیہ کر رہی تھی کہ یہ سب لوگ میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہیں؟ کیونکہ میں نے ساری زندگی میں دیکھا تھا کہ کوئی سفیدفام اپنی غرض کے بغیر کسی کے کام نہیں آتا لیکن یہاں اس ہوٹل میں سوچ رہا تھا کہ یہ سفید آدمی جو امریکہ میں ہوتا تو سفیدفام ہی سمجھا جاتا جو سعودی عرب کے حکمران کا قریبی رشتہ دار اور قریبی مشیر تھا اور حقیقتاً ایک عالمی شخصیت‘ اس نے میرے آرام کیلئے بلاوجہ اپنا سوئٹ میرے حوالے کر دیا تھا اسے مجھ سے کوئی غرض تھی نہ میری ضرورت۔ اس کے پاس سب کچھ تھا وہ امریکی ذرائع ابلاغ میں میرے متعلق سنتے پڑھتے آئے تھے اور اگر ایسا ہی تھا تو انہیں یہ بھی علم ہو گا کہ میں ایک بدنام شخص ہوں جس کے سر پر سینگ ہونے چاہئیں میں ایک نسل پرست تھا ایک اینٹی وائٹ (سفیدفام مخالف) اور ڈاکٹر صاحب ظاہری لحاظ سے مکمل سفید تھے۔ مجھے مجرم سمجھا جاتا تھا۔ مجھ پر الزام تھاکہ میں نے اپنی مجرمانہ سرگرمیوں اور نظریات کے اوپر اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ اگر وہ مجھے استعمال کرنا ہی چاہتے تھے تو انہیں یہ بھی علم ہو گاکہ میں ایلیا محمد اور اس کی نیشن آف اسلام سے الگ ہو چکا ہوں جو کہ امریکی پریس کے مطابق میری طاقت کی بنیاد تھی میری اپنی تنظیم کی عمر ابھی صرف چند ہفتے تھی۔ میں بے روزگار تھا اور قلاش اور یہاں تک آنے کیلئے میں نے اپنی بہن سے پیسے ادھارلیے تھے۔
اس صبح میں نے پہلی بار ”سفیدفام“ کی اصطلاح کا دوبارہ تجزیہ کیا اور پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ ”سفیدفام“ محض رنگ کا مسئلہ نہیں ہے وہ تو ایک ثانوی چیز ہے۔ بنیادی طور پر اس کا تعلق روئیے اور اعمال کے ساتھ ہے۔ امریکہ میں ”سفید فام“ سے مراد وہ روئیے اور اعمال ہیں جو سیاہ فام اور تمام دیگر غیرسیاہ فاموں کے ساتھ روا رکھے جاتے ہیں جبکہ اسلامی دنیامیں مَیں نے دیکھاکہ سفید رنگت والے لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ برادرانہ رویہ رکھتے ہیں۔ اس صبح سفید فاموں کے متعلق میرے نظریات میں انقلابی تبدیلی کا آغاز ہوا اور میں نے اس دوپہر اپنی نوٹ بک میں جو لکھا اس کا اقتباس یہاں درج کرتا ہوں:
”حج کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے پہلے جو میرے جذبات ہیں میں انہیں بیان نہیں کر سکتا۔ میری کھڑکی مغرب میں سمندر کے رُخ پر کھلتی ہے۔ گلیاں دنیابھر سے آنے والے حجاج سے بھری ہوئی ہیں۔ وہ سب اللہ کی عبادت کر رہے ہیں اور ان کے ہونٹوں پر قرآن کی آیات ہیں۔ اتنا خوبصورت نظارہ اور ایسی فضاء میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ میں ہزاروں میل دور ایک بالکل مختلف دنیا میں ہونے کے باوجود اپنے آپ کو محفوظ اور مامون سمجھ رہا ہوں۔ تصور کیجیے کہ چوبیس گھنٹے پہلے میں ائیرپورٹ پر چوتھی منزل پر واقع ایک ایسے کمرے میں تھا جہاں پر کوئی میری بات سمجھ نہیں سکتا تھا۔ مستقبل غیرمحفوظ دکھائی دیتا تھا اور پھر ایک فون کال جو ڈاکٹر شواربی کی ہدایت پر کی گئی اور میری ملاقات مسلم دنیا کے انتہائی مؤثر لوگوں سے ہوئی جلد ہی میں جدّہ پیلس میں ان کے بستر میں سو رہا ہوں گا اب میں ایسے دوستوں میں گھرا ہوا ہوں جن کے خلوص اور دینی جذبہ کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس مہربانی پر مجھے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور امریکہ میں موجود اپنے بچوں اور بیوی کی قربانیوں پر اللہ سے ان کے واسطے رحمت کی دعا مانگنا چاہیے۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
