پوری دنیا میں سماجی و معاشی ترقی کے عمل کو تیز کرنے کے لئے تعلیم کو پہلا حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کسی بھی قوم کی معاشی اور معاشرتی ترقی کا انحصار انسانی وسائل پر ہے۔ انسانی وسائل کسی بھی قوم کی دولت کی بنیاد تشکیل دیتے ہیں۔ سرمایہ اور قدرتی وسائل پیداوار کے معمولی عوامل ہیں، جب کہ انسان سرگرم عوامل ہیں جو سرمایہ اکٹھا کرتے ہیں اور قدرتی وسائل استعمال میں لاتے ہیں سماجی اور سیاسی تنظیمیں قائم کرتے ہوئے قومی ترقی کے عمل کو بہترو تیز بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کسی ملک کا علم اور مہارتیں معاشی ترقی کے لئے استعمال کرنا بے شک خوشحال معاشرے کی ضمانت ہیں سماجی شعبے جیسا کہ تعلیم صحت علم کسی بھی ملک کی دیرپا معاشی ترقی کے اہم عناصر ہیں۔ مختلف دہائیوں میں معاشی ترقی کے باوجود پاکستان میں ترقی کا معیار بہت پست نظر آتا ہے اس کی بڑی وجہ معاشی حلقوں میں کم سرمایہ کاری اور آبادی میں بلند شرح ہے ۔
کوئی بھی قوم آج تک مضبوط انسانی ذرائع و تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکی زیادہ آبادی نے غربت کو کم کرنے اور سماجی خدمات کے معیار میں اضافہ کرنے کے مواقع کو ختم کر دیا ہے اور اس نے ماحولیاتی تباہی ،پانی اور خوراک کی قلّت کو بھی جنم دیا ہے 1990کی دہائی کے معاشی اتار چڑھاؤنے معیشتی ترقی کو کم کر دیا تھا جس نے غربت کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا ۔ 2007,2006میں ملک نے معاشی طور پر ترقی کی اور ڈالر کی قیمت بھی ایک سطح پر منجمد رہی غربت کے خاتمے کے لئے پاکستان کی شرح افزائش کو اگلے 5یا7سالوں تک 6.7فیصد تک لے جانا نہایت اہم ہے صرف ترقی کے مواقع ہی اہم نہیں ہیں، بلکہ ان کے معیار کو بھی بہتر بنانا بہت ضروری ہے۔ تقریباً60 سالوں میں پاکستان کی معیشت 5.1فیصد سالانہ کے حساب سے 10گنا زیادہ ترقی کر چکی ہے انسانی ترقی کے جدول کے ذریعے سماجی ترقی کے اقدامات اتنے متاثر کن نہیں ہیں، کیونکہ اس میں ہر سال 1.7فیصد اضافہ ہوتا ہے، لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 2005ء میں غربت میں 4.2فیصد کی شرح تک کمی ہوئی اس کے علاوہ دوسرے سماجی حلقوں میں جیسے تعلیمی میدان میں پرائمری انرولمنٹ ، مڈل اور میٹرک کی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں عمدہ نکاس تک رسائی صاف پینے کے پانی کی فراہمی،بجلی اور گیس جیسے شعبہ جات میں بھی ترقی کی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان ترقیاتی عوامل کو ابھی بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہے، لیکن اس کے لئے مستقل اور پائیدار لائحہ عمل ہونا بہت ضروری ہے ۔5 سالہ دورانیہ حکومت کے بعد پالیسیاں جوں کی توں رہ جاتی ہیں اور وطنِ عزیز کا ایک بہت بڑا سرمایہ خراب ہوجانے پر پاکستان کے قرضوں میں اضافہ کر کے تمام انسانوں کو مزید غریب کر دیتا ہے جب ہم طویل المیعاد اور وسیع سماجی و معاشی پالیسیوں کو اس رنگ میں تشکیل دیں گے جو معاشرے کی ترقی کو یقینی بنانے کی دلیل پیش کرتی ہیں ،جس سے صنعتی پیداوار اور تجارتی کاروبار میں ترقی پیدا ہو تو وہ دن دور نہیں، جب کامیابیاں اور کامرانیاں پاکستان کے ہر فرد کا مقدر بن جائیں گی۔ یہ تمام پالیسیاں سماجی حلقے میں حکومت کی طرف سے کئے جانے والے تمام امور کی عکاسی کرتی ہیں پاکستانی معیشت ہمیشہ سے ملکی تحفظ جیسے مسائل کا شکار رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہاکستان کی پیدائش کے بعد سے بنایا جانے والا ہر 5سالہ منصوبہ جو معاشرتی ترقی کے حوالے سے بنایا گیا خصوصاً تعلیم کے لئے ہمیشہ کم مالی وسائل کی وجہ سے کبھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا۔
انسانی ترقی کے بنیادی معیار کو جانچنے کے لئے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے ایک جدول کا ایک سلسلہ ترتیب دیا ہے، جس میں انسانی ترقی کے جدول ، انسانی افلاس کے جدول ، ترقی برائے صنعتی معاملات کے جدول ،3حلقوں میں انسانی ترقی کا جائزہ لیتے ہیں طویل عمری ، علم،مناسب تربیت یافتہ زندگی، اس لحاظ سے پاکستان 112ویں نمبر پر آتا ہے، جس کا مطلب ہے 116ممالک حقیقی آمدنی میں پاکستان سے بہتر ہیں۔ انسانی افلاس کے جدول کے مطابق پاکستان کا نمبر 65واں ہے۔ HUMAN DEVELOPMENT INDEXکی شرح کے مطابق 39.2فیصد ہے، جس کا مطلب ہے کہ آبادی کا 39.2فیصد حصّہ بنیادی ضروریات زندگی و تعلیم سے محروم ہے جو بہتر معاشرتی زندگی گزارنے کے لئے بہت اہم تصوّر کئے جاتے ہیں۔اگر حکومت دیرینہ اور پائیدار ترقی کی خواہاں ہے تو اسے سماجی ترقی کے حصول کے لئے اور غربت کے خاتمے کے لئے زیادہ سے زیادہ سرمایہ خرچ کرنے کی ضرورت ہوگی، کیونکہ سماجی اور معاشی ترقی پر ملک کی مجموعی ترقی کا انحصار ہوتا ہے، لیکن صرف سماجی حلقوں میں زیادہ سرمایہ کاری اور غربت کا خاتمہ ہی واحد حل نہیں ہے، بلکہ اثر انگیزی کو بڑھانے کے لئے رقوم کی نگرانی اور بہتر استعمال و ترسیل کی اشّد ضرورت ہے۔
ملک کو انسانی، تکنیکی اور انتظامی افرادی قوّت کی شدید قلّت کا سامنا ہے امیر اور غریب کی آمدن میں بہت زیادہ فرق نے صورتِ حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے حکومت کو اب بھی مضبوط معاشی ترقی کے لئے اور لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لئے بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے ۔اگر برسراقتدار حکومت پاکستان کی حقیقی ترقی کی خواہاں ہے تو اسے خود کو قرضوں کے بوجھ اور غربت کے پنجوں سے نکالنا ہوگا اور سماجی ترقی پر اپنی توجّہ بھرپور طریقے سے مرکوز کرنا ہوگی، جس کی معاشرتی اشّد ضرورت ہے تب جا کر عام انسان کی زندگی کے حالات بدل سکتے ہیں۔ اخلاص پالیسیوں کا عمدہ نفاذ، اچھے فیصلے کرنا، بہتر رہنمائی اور مقاصد کا درست تصور پر حلقے میں ترقی کے لئے اہم ترین ہیں۔ معیاری تعلیم ، عمدہ طبی سہولیات ، پینے کے صاف پانی تک رسائی ،اور سماجی حلقوں میں مبتلا سرمایہ کاری کو حکومتی پالیسیوں کا مرکز ہونا چاہئے، تاکہ سماجی و معاشرتی مسائل سے نمٹنے میں آسانی ہو۔
ان تمام اصلاحات کے علاوہ عام شہری کے لئے شہری قوانین سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ بے شک یہ تمام اصلاحات تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہیں پچھلے دنوں اسلام آباد کے دورہ کے دوران کوہ مری تک جانے کا اتفاق ہوا تو جگہ جگہ ٹریفک کی بہتر اصلاحات دیکھ کر خوشی ہوئی ہر موڑ پر شہری زندگی بچانے کا پیغام ، دشوار راستوں پر ٹریفک قوانین کے مطابق عوامی شعور کے لئے آگہی ، قانون کی بالا دستی کے بینرز ہر چوک پر قوانین کی جانکاری کے پمفلٹ ، سڑکوں کے درمیان حدود بندی کی لائنیں ، مری جی پی او چوک کا امیج ذہن میں جب بھی آتا ہے تو رش سے بھرپور چوک ذہن میں آجاتا ہے۔ مختلف راستوں کو ون وے بذریعہ لوہے کے نوکیلے دندان سے علیحدہ راستہ ون وے کیا گیا، سکون زدہ ٹریفک اور مال روڈ پر پیدل چل کر کوہ مری کو بھرپور انجوائے کرنے اور ہلڑ بازی سے پرہیز کے بینرز یہ تمام انتظامات شہریوں کے لئے کئے گئے تھے، تاکہ فیملی والے حضرات حقیقی طورپر مری کی چھٹیوں کا مزہ لے سکیں، دن رات ڈیوٹی پر مامور ٹریفک کے جوان بے شک ایک عمدہ اصلاحات کی زندہ نوید دیتی ہیں ان تمام اصلاحات کا سہرا شعیب خرم جانباز سی ٹی او راولپنڈی کے سر ہے دن رات کی محنت سے عام شہری کو شعور دینا کہ بہتر ڈرائیونگ کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگی کو اپنے لئے زندہ رکھا جا سکے زندگی کا حصول دنیا میں ایک ہی مرتبہ ممکن ہے۔ اس کے برعکس لاہور میں وارڈن حضرات بدمعاشی کی مثال بنے ہوئے ہیں اور جس کا واقعہ اچھرہ میں ان کی بدمعاشی بھی کسی کو آج تک نہیں بھولی ان کی بہتر طریقے سے تربیت کرنے کے بعد ہی ان کو فیلڈ میں سروس کے لئے بھیجا جانا چاہیے ،لیکن اس کی مثال لاہور میں نظر نہیں آتی۔ زائرین اسلام آباد اور مری کے لئے ٹریفک پلان ترتیب دینا اور مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر ٹریفک قوانین پر سیمینار منعقد کروا کر عام شہری کی بہتر خدمت کرنا بے شک پولیس کے فرائض ہیں، لیکن تمام شہریوں کا بھی فرض ہے کہ ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور قانون سے بالاتر ہونے کا ہر گز ثبوت نہ دیں ،جن لوگوں نے ثبوت دیا ان کے چالان کرنے پر حکومت پاکستان کو بہت بڑا ریونیو راولپنڈی اسلام آباد سے اکٹھا ہوا ہے ،اگر اس طرح دوسری پولیس بھی لوگوں کے قانون توڑنے پر چالان بھر پور کریں تو نہ صرف حکومتِ پاکستان کو ریونیو مل سکے گا، بلکہ قانون سے عام انسان افراط زر زدہ معاشرے سے ڈرنے لگے گا اور بے شک یہی راز ہے معاشرتی بہتر زندگی پیدا کرنے کا۔ *