ڈرون طیاروں سے زیادہ حملوں کی تباہ کاریاں
ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے دنیا بھر میں 2001ءسے اب تک 400 سے زائد ڈرون طیارے گر کر تباہ ہوئے ہیں۔ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں 400 سے زائد ڈرون طیارے فنی خرابی، انسانی غلطی یا پھر موسم کی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہوئے۔ یہ طیارے گھروں، کھیتوں، رن ویز، ہائی ویز اور پانیوں میں گر کر تباہ ہوئے۔یہ تو صرف طیاروں کی تباہی کی رپورٹ تھی، مگر اصل میں جان دہلانے والی رپورٹ ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی ہے۔ ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی دس سال سے جاری ڈرون مہم میں بڑا ہدف عام شہریوں کے مکانات رہے۔ برطانیہ میں قائم غیر سرکاری ادارے”دا بیورو آف انوسٹیگیٹو جرنلزم“ (ٹی بی آئی جے) نے کہا ہے کہ پاکستان میں کئے جانے والے ڈرون حملوں میں دو تہائی حملے عام مکانوں پر کئے گئے اور ہر حملے میں اوسطاً ایک شہری مارا گیا ہے۔یہ رپورٹ ایک دہائی سے جاری (جون 2004ءسے لے کر مئی 2014ءتک) ڈرون حملوں کے بارے میں تحقیق کے بعد تیار کی گئی ہے۔اس کے مطابق عام مکانات پر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والے 1500 افراد میں سے کم از کم 222 عام شہری تھے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونے والے ڈرون حملوں میں سے 60 فیصد سے زیادہ حملے مکانوں پر کئے گئے اور ان 380 حملوں میں کم از کم 132 مکان تباہ ہوئے۔ رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ گاڑیوں پر ڈرون حملوں کے مقابلے میں مکانوں پر حملوں سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ سب سے زیادہ ہلاکتیں مدارس پر ہونے والے حملوں میں ہوئیں۔دوپہر کے مقابلے میں رات کو حملوں کا امکان دوگنا تھا اور رات کو کئے جانے والے حملے خاص طور پر مہلک ثابت ہوئے۔ ٹی بی آئی جے کا اس رپورٹ میں یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈرون مہم کے برعکس افغانستان میں 2008ءکے بعد رہائش گاہوں پر ڈرون حملوں پر پابندی لگا دی گئی تھی تا کہ شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے، لیکن پاکستان میں سی آئی اے کی مہم کے دوران عمارتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف متعدد بار احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ڈرون حملوں کے بعد احتجاجاً صوبے سے نیٹو سپلائی بند کر دی تھی۔پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف نہ صرف عوامی سطح پر، بلکہ حکومت کی جانب سے متعدد بار احتجاج کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی تنظیموں نے ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر ہتھیار ہیں، جس سے عام شہریوں کی ہلاکت کے امکانات کم از کم ہوتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے احتجاج اور ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے متعدد واقعات سامنے آنے کے باوجود ان ڈرون حملوں کو قبائلی علاقوں میں ایسے ٹھکانوں کو کیوں ٹارگٹ کیا ،جہاں عام شہریوں کے ہلاک ہونے کے امکانات تھے۔
یورپی یونین کی ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے علاقوں سے باہر ڈرون حملوں میں نامعلوم تعداد میں عام شہری ہلاک، زخمی یا شدید نفسیاتی صدمے سے دوچار ہوئے ہیں اور یہ کہ ایسی شہری ہلاکتوں کے الزامات کے بعد یورپی ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کی فوری اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کروائیں اور اگر الزامات ثابت ہو جائیں تو ان کی ذمہ داری کا تعین کر کے مرتکبین کو سزائیں دی جائیں، اور متاثرین کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کیا جائے۔ امریکہ گزشتہ کئی سال سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کر رہا ہے اور ان حملوں کے خلاف پاکستان متعدد بار احتجاج کر چکا ہے اور ان کو ملکی خود مختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی قرار دتیا رہا ہے، جبکہ امریکہ کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ڈرون ایک موثر ہتھیار ہے۔پاکستان کے علاوہ یمن میں بھی ڈرون حملوں میں شدت پسندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
گزشتہ سال انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اسے ملنے والے نئے ثبوت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ امریکہ نے ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں غیر قانونی طور پر شہریوں کو ہلاک کیا، جس میں سے بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کا آغاز 18 جون 2004ءسے ہوا تھا۔ نیو امریکہ فاﺅنڈیشن کے مطابق 3 جنوری 2013ء تک کل 343 ڈرون حملے کئے گئے۔ ان میں اب تک دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگوں سمیت 3239لوگ مارے جا چکے ہیں۔ 24اکتوبر 2012ءتک کل 350 حملے کئے گئے۔ ان میں کل 3375 لوگ مارے گئے۔ مزید تفصیلات کے مطابق ان میں 885 سویلین لوگ شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 176ہے۔ اس کے علاوہ 1401 لوگ زخمی بھی ہوئے، جن میں سے اکثر عمر بھر کے لئے اپاہج یا کام کاج کرنے کے قابل نہیں رہے۔
اوباما نے اچھی حکمرانی، دوستی اور خوشحالی کا نعرہ لگایا ہے، لیکن پاکستان میں پالیسی اس کے الٹ ہے۔ کیا یہاں انسان نہیں بستے؟ کیا ان کے مرنے سے خون نہیں بہتا؟ دنیا کی کئی تنظیموں نے ڈرون حملوں کے بارے میں تفصیلی تحقیقات کی ہیں۔ ان کی رپورٹوں کے مطابق ان حملوں میں مرنے والوں کی زیادہ تعداد بے گناہ ہے۔ اس سے علاقے میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت پھیل چکی ہے۔ لوگ امریکہ اور اس کی پالیسیوں سے بدظن ہیں۔ امریکہ کے بعض سیاست دانوں اور اہل الرائے لوگوں نے ڈرون حملوں کی شدید مخالفت کی ہے اور انہیں عالمی قوانین اور انسانی بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔ بعض نے تو ان حملوں کو خود امریکی قوانین کے بھی منافی قرار دیا ہے۔ امریکی کانگریس کے ایک معزز رکن ڈینس کو سی نچ نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ امریکہ ایک ایسے ملک کے خلاف ڈرون حملوں کا مرتکب ہو رہا ہے، جس نے کبھی امریکہ پر کسی صورت میں حملہ نہیں کیا۔ ٭