انقلابی تضادات
دنیائے ادب میں جب بھی عظیم نا ولوں کا ذکر ہو تو ان میں یقیناًروسی ناولوں ’’جنگ اور امن‘‘۔۔۔ (ٹالسٹائی) ’’جرم اور سزا‘‘۔۔۔(دستو ئفیسکی ) کے سا تھ ساتھ میکسم گورکی کے ناول ’’ماں‘‘ کو بھی ایک شا ہکا ر کی حیثیت سے تسلیم کیا جا تا ہے۔ میکسم کو رگی نے اس ناول کے ہیرو پاویل کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ جب اس ہیرو نے انقلابی راستے کو اپنانے کا فیصلہ کیا تو کیسے سب سے پہلے اسے اپنی ذات میں انقلاب بر پا کرنا پڑا۔فکشن کے کر داروں سے نکل کر اگر ہم حقیقی زند گی کے انقلابی کرداروں کو دیکھیں تو معلو م ہو گا کہ آگ کے اس دریا پر چلنے کے لئے کیا کیا صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ کیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر چلنا پڑتا ہے۔ افسوس پا کستان میں جہاں سیاست، آئین، سیاسی نظاموں ، احتساب اور جمہوریت جیسے الفاظ کو سیاست دانوں ، آمروں اور ان کے ہمنوا دانشوروں نے اپنی اپنی پسند کے معنی اور مفہوم دےئے، وہیں لفظ انقلاب کو بھی اپنی پسند کے معنی دینے کے ساتھ ساتھ اس لفظ کا اتنی بار استعمال کیا گیا کہ اب پا کستان میں یہ لفظ اپنے اصل معنی ہی کھوتا جا رہا ہے، حتی ٰکہ جمہوریت پر شب خون مارنے والے فوجی آمروں نے بھی اقتدار پر اپنے نا جا ئز قبضے کو انقلاب کا نام دیا۔
اس کے علاوہ پا کستان میں طبقہ اشرا فیہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے بھی لفظ انقلاب کا بھر پور استعمال کیا۔ جب جا گیردار، سر ما یہ دار اور پیر، انقلاب انقلاب کی مالا جپنے لگیں تو یہ لفظ ایک مذاق بن کر رہ جا تا ہے۔ انقلاب کا تو مقصد ہی مروجہ سیاسی، معاشی، سماجی، ثقافتی اور روایتی نظام کو اکھاڑ کر پھینک دینا ہوتا ہے۔ خود کوئی سرمایہ دار یا جاگیر دار کیسے یہ چا ہے گا کہ جس نظا م کی بدولت وہ جا ئز و نا جا ئز ذرا ئع سے اربوں بنا رہا ہے وہ اسی نظام کو ہی الٹ دے۔یعنی سو نے کا انڈا دینے والی مر غی کا ہی گلا گھو نٹ دے؟
اب ڈا کٹر طا ہرا لقا دری ایک مر تبہ پھر انقلاب لا نے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور اس حوالے سے وہ جلد کسی تا ریخ کا بھی اعلان کر نے والے ہیں ۔یہ در ست ہے کہ پاکستان کا نظام گل سڑ چکا ہے اور اس نظام میں اب عام انسانوں کے لئے بہتر ی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ جمہوریت جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور نو دولتیوں کے اشاروں پر ناچنے والی لونڈی بنی ہوئی ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی جمہوریت قائم ہے، وہاں پر بھی طبقہ اشرافیہ ہی اصل حکمران ہوتا ہے۔کسی جمہو ری ملک میں کو ئی صدر یا وزیراعظم بے شک غر یب یا متوسط طبقے کا بھی ہو، مگر طا قت کا حقیقی ما خذ سر ما یہ دار یا کارپو ریٹ سیکٹر ہی ہو تا ہے،مگر پاکستا ن کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کا طبقہ اشرافیہ نہ صرف کرپٹ اور بے ایمان ہے، بلکہ اپنے جائز و ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والے وسائل میں رتی برابر حصہ بھی قوم کو دینے کے لئے تیار نہیں، جس ملک کے اکثر پارلیمنٹیرین ارب پتی ہونے کے باوجود ٹیکس نہ دیتے ہوں ۔ ریاستی اور حکومتی انتظام چلانے کے لئے غیر ملکی امداد پر ہی انحصار کرتے ہوں اور غیر ملکی امداد کے حصول کو معاشی ترقی سے تعبیر کر تے ہوں تو ایسے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ اس ملک کا طبقہ اشرافیہ کس قدر بے حس ہے؟ ڈاکٹر طاہر القادری ایسے ہی مسائل کو بنیاد بنا کر نظام میں تبدیلی یا انقلاب کی بات کر رہے ہیں، مگر کیا ڈاکٹر طاہر القادری نظا م کی تبدیلی یا انقلابی راہ پر چلنے کے لئے چند بنیادی تقاضوں کو پورا کر پا رہے ہیں؟ میرے نزدیک ان کی تحریک کی مخالفت اس بنا ء پر کرنا کہ وہ کینیڈا کے شہری ہیں اس لئے درست نہیں کہ پاکستان میں امریکی شہری بھی کسی بڑی مزاحمت کے بغیر وزارت عظمیٰ کی مسند تک پہنچتے رہے ہیں۔
(معین قریشی اور شوکت عزیز)، اس لئے یہ پاکستان میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے،مگر ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک کے حوالے سے دیگر کئی سوالات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسے دنیا کے چند ممالک میں برپا ہونے والے انقلابات کو دیکھیں تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ انقلاب برپا کرنے والی قیادت نے ’’سٹیٹس کو‘‘ کی قوتوں کے مقابلے میں سماج کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کی حمایت پر انحصار کرتے ہوئے انقلابات برپا کئے۔ انقلاب فرانس (1789ء) انقلاب روس (1917ء) اور چینی انقلاب (1949ء) دنیا میں برپا ہونے والے کامیاب انقلابوں کی چند مثالیں ہیں۔ ان تینوں کلاسیکل انقلابات نے معاشرے کے محروم طبقات کے ذریعے ’’سٹیٹس کو‘‘ کا خاتمہ کیا، مگر ڈاکٹر طاہر القادری اپنے انقلابی سفر کا آغاز ہی ایسی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی حمایت سے کر رہے ہیں،جو نہ صرف ’’سٹیٹس کو‘‘ کی حامی ہیں،بلکہ پاکستان میں فو جی اور سویلین دور میں کئی مر تبہ اقتدار کے مزے بھی چکھ چکے ہیں۔
پاکستان کو آج اس حال تک پہنچانے میں ان جماعتوں کا کردار بھی اتنا ہی ہے کہ جتنا ان سیاسی جماعتوں کا کہ جن کے خلاف طاہر القادری انقلاب برپا کر نے کے خواہاں ہیں۔ سب سے بڑھ کر ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے فوج کو طلب کرنے کے مطالبات انتہائی متنازعہ ہیں۔ دنیا کی کسی بھی ریا ست کے سیا سی نظا م یا ’’سٹیٹس کو‘‘کو بچانے کے لئے فو ج بڑا اور آخری سہارا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی ریاست کے حکمرانوں کے خلاف تحریک کامیابی سے ہمکنار ہونے کے قریب ہوتی ہے تو فوج اس نظام کو بچانے کے لئے سڑکوں پر اُتر آتی ہے، کیونکہ ایک ادارے کے طور پر کسی بھی ملک کی فوج کے مفادات ’’سٹیٹس کو‘‘ کے حامل نظام سے ہی وابستہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے مصر کے انقلاب کی بات تو ضرور کی،مگر شاید وہ بھول گئے کہ جب مصر میں حسنی مبارک کے خلاف تحریک نے شدت اختیار کر لی تھی تو یہ مصری فوج ہی تھی،جس نے مداخلت کر کے نظا م کو ایک حد تک ہی تبدیل ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مصر میں طاقت اور اقتدار کا حقیقی ماخذ افواج ہی ہیں۔
بحیثیت ادارہ فوج کا کام ’’سٹیٹس کو‘‘ کو برقرار رکھنا ہوتا ہے،نہ کہ انقلاب لا کر نظام کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے چاروں فوجی ادوار اس امر کے گواہ ہیں کہ فوجی آمروں نے انقلابی تبدیلیاں کرنے کی بجائے نہ صرف جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور پیروں کی سیاسی حمایت پر انحصار کیا، بلکہ ان استحصالی طبقات کو مزید مضبوط کیا۔ ان باتوں سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا نظام میں تبدیلی کا نعرہ اپنے اندر شدید تضادات لئے ہے۔’’سٹیٹس کو‘‘ کی حامل جماعتوں اور اداروں کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی بات کرنا سرا سر غیر منطقی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے انہی تضادات کے باعث یہ جاننا مشکل نہیں کہ عوام میں تبدیلی کی شدید خواہش کے باوجود ان کی تحریک کو عوام کی وسیع تر حمایت ملنا ممکن نظر نہیں آ رہا ۔ بہتر ہوتا کہ نظام میں تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری اپنے متعین کردہ راستے کو مکمل طور پر نہ سہی،مگر کسی حد تک تضادات سے دور رکھتے۔ *