شمالی وزیرستان، آج سے بھرپور زمینی آپریشن کا آغاز
تجزیہ: چودھری خادم حسین
سیاسی مسائل کا حل بھی سیاسی ہوتا ہے، تھوڑا تاخیر سے سہی بالآخر وزیر اعظم میاںمحمد نواز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں اور عناصر کو مکمل اعتماد میں لینے کا فیصلہ کرکے کل جماعتی کانفرنس بلانے کی ہدایت کردی اور جلد انتظامات کے لئے کہا ہے، وزیراعظم مدعوئین کو خود خط لکھیں گے، اس سے بھی بہتر عمل یہ ہوگا کہ وزیراعظم ذاتی طور پر فون کریں اور جہاں ضرورت ہو خود یا اپنے معتمد وزیر کو بھیجیں۔ یہ کانفرنس جلد اور اسی طرح کامیاب ہونا چاہیے جیسے ابتداءمیں وزیراعظم کو مینڈیٹ دیا گیا تھا، ان سطور میں بہت پہلے سے گزارش کی جارہی تھی کہ اعتماد کا یہ عمل شروع کیا جائے جو اب کیا جارہاہے، بہر حال دیر آید درست آید کہ رموز مملکت والی بات ہے، اس لئے وزیر اعظم کے فیصلے کی تائید ہی کی جانا چاہیے اور توقع کرنا چاہیے کہ سیاسی جماعتوں (بشمول تحریک انصاف+ پاکستان عوامی تحریک) کی طرف سے بھی مثبت جواب ملے گا کہ یہ ایک ایسا فورم ہوگا جہاں قومی اتحاد اور اتفاق رائے کا مظاہرہ ہوگا اور پاک فوج کی حمایت اور حوصلہ افزائی ہوگی جس کی اس وقت سخت ضرورت ہے، جہاں تک سیاسی اختلافات اور تحفظات کا سوال ہے تو یہ سیاسی جماعتوں کا حق ہے اور ان کے اس حق کو دبایا نہیں جاسکتا۔
وزیراعظم کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس بلانے، آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کا واضح اعلان اور کور کمانڈر پشاور کی حوصلہ افزا گفتگو ایک ہی وقت میں سامنے آئی جس سے قوم کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، میجر جنرل عاصم نے بہت ہی واشگاف الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی ناقابل برداشت ہے اور کسی بھی نوعیت اور گروپ کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا، ان دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہوگا چاہے ان کا تعلق حقانی گروپ ہی سے کیوں نہ ہو، قارئین! اس آپریشن میں یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ بعض دہشت گرد ہتھیار بھی ڈال رہے ہیں۔ میجر جنرل عاصم کے مطابق دہشت گردی کے ٹھکانوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا اور شہریوں کا انخلاءمکمل ہے، اب بھرپور آپریشن ہوگا جو پیدل دستوں سے بھی کیا جائے گا اور پورا علاقہ دہشت گردوں سے خالی کرالیا جائے گا۔
امریکہ میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی کے مطابق کولیشن سپورٹ فنڈ کا تعلق بھی شمالی وزیرستان کے آپریشن سے ہے، اس سے امریکی حمایت اور امداد ثابت ہوتی ہے تو پاکستان کو چین کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ اب افغانستان حکومت سے بھی یقین دہانی مل گئی ہے، ایسی صورت میں ایک مکمل اور بھرپور آپریشن حتمی نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔
دریں اثناءملک کے اندر غیر محسوس طور پر سیاسی حالات میں تبدیلی شروع ہوگئی، ڈاکٹر طاہرالقادری نے اتوار کو جو کل جماعتی کانفرنس بلائی اس کا ایک نکاتی ایجنڈا سانحہ ماڈل ٹاﺅن لاہور ہے، تحریک انصاف کے عمران خان نے خیبر پختونخوا اسمبلی توڑ دینے کے عمل کی نفی کردی البتہ وہ انتخابی دھاندلی والے الزام اور مطالبے پر قائم اور ثابت قدم ہیں، جبکہ مسلم لیگ (ق) کے چودھریوں کو حکومت مخالف مہم میں ڈاکٹر طاہر القادری کے ہاتھوں خفت اٹھانا پڑی ہے، اس سے پہلے تحریک انصاف کے عمران خان سیاسی اتحاد سے برا¿ت کا اظہار کرچکے ہوئے ہیں، یوں ایک صورت ملک کے اندرونی استحکام کی بھی بنتی نظر آرہی ہے بشرطیکہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوجائیں جیسے آصف علی زرداری چلتے رہے یا ان کا اب بھی موقف ہے۔ اسی بناءپر وہ سنٹرل پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو کی پالیسیوں پر ناراض ہوئے جس کا اظہار سابق صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کردیا ہے۔ کہ میاں منظور وٹو ادارہ منہاج القرآن جاکر اجلاس میں کیوں شریک ہوئے، تعزیت اور افسوس کا اظہار الگ بات تھی۔
وزیراعظم نے گزشتہ روز بنوں میں شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والوں کے کیمپوں کا دورہ کیا اور ان سے خطاب کے دوران ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا، عوامی سطح پر بھی بے گھروں کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری ہے، اس سلسلے میں بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض حسین کی تجویز زیادہ بہتر ہے کہ بے گھر افراد کے لئے مقرر کیمپ ان سمیت مختلف اداروں کی تحویل اور ذمہ داری میں دے دئیے جائیں اور پاک فوج نگرانی کے فرائض انجام دے، مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے بوجھ بھی کم ہوگا اور انتظام بھی بہتر ہوگا۔ ان حضرات کی قربانی کو بھی یاد رکھنا اور اس کی تحسین کرنا چاہیے۔