بندر جوئے کے شوقین نکلے

بندر جوئے کے شوقین نکلے
بندر جوئے کے شوقین نکلے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاس ویگاس (نیوز ڈیسک) جوئے کی لت ایسی بری ہے کہ جسے پڑ جائے وہ لاکھوں لٹا کر بھی اس لعنت سے نجات نہیں پاسکتا اور اسی دھوکے میں رہتا ہے کہ اس کی چال آخر کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانوں کی طرح یہ بیماری بندروں میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ بھی جوئے بازی کے شوقین ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی آف روچسٹر کے سائنسدانوں ٹومی بیلنکرڈ اور ان کی ٹیم نے بندروں میں جوئے کے شوق کے متعلق تحقیق کی اور اس مقصد کیلئے ان کے ساتھ ایک خصوصی کھیل کھیلا گیا۔ اس کھیل کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا۔ پہلی قسم میں بندر کو اندازہ لگانے کو کہا جاتا کہ کھانے کی چیز تجربہ کرنے والے کی دونوں مٹھیوں میں سے کس میں چھپی ہے اور صحیح اندازے پر بندر کو کھانا مل جاتا۔ اس قسم میں کھانا ہمیشہ ایک طرف کھا گیا جس سے بندروں کو جلد ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا اور انہوں نے ہمیشہ کھانے والی مٹھی کا انتخاب کیا۔ اسی طرح دوسری قسم میں کھانا ایک کے بعد دوسری طرف رکھا جاتا اور اس چال کا بھی بندوں نے جلد ہی اندازہ لگالیا اور صحیح مٹھی کی نشاندہی شروع کردی۔ جبکہ تیسری قسم میں کوئی طریقہ کار نہ تھا یعنی کھانا کسی بھی مٹھی میں ہوسکتا تھا۔ اس صورت میں بندر بالکل انسانی جواریوں کی طرح ایک ہی مٹھی کا بار بار انتخاب کرتے رہے کیونکہ وہ مید کررہے تھے کہ اُن کی ایک چال کے بعد اگلی بھی کامیاب ہوجائے گی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں بندروں نے بالکل وہی رویہ دکھایا جو جوا کھیلنے والے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے کہ انسانوں میں جوئے کی عادت ارتقائی طور پر بندوں سے منتقل ہوئی ہو۔

مزید :

تفریح -