امریکی صدر اورخلائی جنگ
قارئین!لیجئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بھر کی حکومتوں اور ملکوں سے اُلجھتے اُلجھتے اب خلائی مخلوق سے بھی اُلجھنے چلے ہیں ۔ انہوں نے حکم دیا ہے کہ امریکہ کی نہ صرف خلاء میں موجودگی ہونی چاہئے،بلکہ اسے خلائی جنگ کی صورت میں خلاء پر غلبہ بھی حاصل ہونا چاہئے۔
ادھر ہمارے نواز شریف صاحب کو خلائی مخلوق نے تنگ کر رکھا ہے اور ادھر جناب ڈونلڈ ٹرمپ خلائی مخلوق کو تنگ کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔
معلوم نہیں ان کا یہ اقدام میاں نواز شریف کی حمایت میں ہے یا اپنے دماغ کا خلل ہے، لیکن اس سے یہ واضح ہورہا ہے کہ خلائی مخلوق کے خلاف ان کا واویلا بلا سبب نہیں۔ خلائی مخلوق ایک طرح کی نہیں کئی طرح کی ہے۔ اپنے حلئے قد، عمر اور عجیب و غریب صلاحیتوں کی بنا ء پر یہ دو چار فٹ سے لے کر دس بارہ فٹ تک قد میں پائی جاتی ہیں۔ ہماری دُنیا میں اکثر خلائی مخلوقات نہ صرف ہمارے نظام شمسی سے باہر، بلکہ ہماری کہکشاں، یعنی Galaxy سے بھی باہر کی کہکشاؤں سے آتی ہیں۔
ان کی عمر ایک سو سال سے پانچ سو سال تک ہوسکتی ہے۔ ان سے اکثر ایسی بھی ہیں، جو جب چاہیں خود کو انسانی نظروں سے چھپا لیتی ہیں۔ بعض قسم کی خلائی مخلوق انسانوں اور جانوروں کو اٹھا کر لے جاتی ہیں اور ان کا خون پیتی ہیں۔ سربین نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی سائنسدان نکولا ٹیسلا جس نے ایلوا ایڈیسن کی لیبارٹریز میں بھی اس کے ساتھ کام کیا۔بہت سی ایجادات کیں۔ اے ، سی بجلی کرنٹ اسی کی ایجاد تھی۔
اس نے اَن گنت ایسی ٹیکنالو جیز کے بنیادی اصولوں کی نشاندہی کی ، جن پر وہ خو د تو عمل نہ کرسکا لیکن اس کے بعد اس کے اصولو ں کو اپناتے ہوئے سائنس دانوں نے ٹیلی فون جیسے بہت سے انتہائی اہم آلات ایجاد کرلئے۔ ٹیسلا کا دعویٰ تھا کہ وہ پوری انسانیت کو مفت لامحدود بجلی فراہم کرسکتا ہے۔
اس کے مطابق یہ پوری کائنات توانائی اور بجلی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ، اس نے مفت اور غیر محددد بجلی پیدا کرنے کے لئے امریکی ریاست کلوراڈو میں ایک بہت بڑی تجربہ گاہ بنائی، وہ اپنے مقصد کے حصول کے قریب تھا کہ اس کی اس رصد گاہ کو آگ لگا کر جلا دیا گیا۔ تاہم ٹیسلا نے اپنی زندگی میں بیس میل کے فاصلے تک بجلی کو بغیر تاروں کی مدد سے منتقل کرکے دکھایا ۔ اس کا کہنا تھا کہ بجلی ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم تک بھی بغیر تاروں کے منتقل کی جاسکتی ہے۔ آج امریکی ریاست ایلاسکا میں قائم بہت بڑے امریکی ادارے HARRP نے ٹیسلا ہی کے اصولوں کے مطابق بجلی ایک جگہ سے دنیا کے کسی بھی مقام تک منتقل کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے ، اس ادارے نے اور بھی بہت سے ایسے کام کئے ہیں، جنہیں خفیہ رکھا جارہا ہے ۔ اس پر تفصیلی بحث کسی دوسرے وقت کی جائے گی۔ تاہم یہاں ٹیسلا کی خلائی مخلوق سے ملاقات کا ذکر مقصود ہے۔
ٹیسلا نے دعویٰ کیا تھا کہ اپنی لیبارٹری میں الیکڑی سٹی کرنٹس پرتجربات کرتے وقت اچانک اس کا خلائی مخلوق سے ویڈیو لنک پر رابطہ ہو گیا۔ اس نے اس مخلوق کی آوا ز سننے کے علاوہ اس کا کوئی چار فٹ اونچا جسم بڑے سے انڈے جیسا سر اور منہ اور بڑی بڑی پھیلی ہوئی آنکھیں بھی دیکھیں۔
ٹیسلا نے خلائی مخلوق سے اپنی ملاقات کی زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن اس یقین کا اظہار ضرور کیا کہ کائنات میں بہت سی جگہوں پر مختلف حلیے کی ایسی مخلوقات کا وجود ہے، جو انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ ذہین ہیں۔ ان مخلوقات کے انسان سے ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سیاروں میں ان مخلوقات کا وجود تین سے چار ارب سال قبل تخلیق ہوا،جبکہ زمین پر انسان صرف سات آٹھ لاکھ سال قبل وجود میں آیا ہے۔
ٹیسلا جس کا انتقال 1943ء میں ہوا اپنے زمانے کا جینئس تھا ۔
اس کے متعلق اس زمانے کے بہت سے لوگوں کا یقین تھا کہ یہ شخص خلائی مخلوقات سے مسلسل رابطے میں ہے اور اس نے اپنی بہت سی ایجادات کی ٹیکنالوجی اور بہت سے سائنسی اصولوں کے راز اسی خلائی مخلوق ہی سے حاصل کئے ہیں۔
اب ایک با ر پھر ہم خلائی مخلوق اور نواز شریف کے خدشات کی طرف آتے ہیں۔ ایک میاں نواز شریف ہی کیا یہاں تو امریکی صدور سے بھی اکثر نے خود کو خلائی مخلوق کے دباؤ اور تسلط میں پایا۔
موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت سے لوگ خود خلائی مخلوق سمجھتے ہیں، لیکن ان سے پہلے چار پانچ امریکی صدور میں سے کسی ایک نے پریس کے سامنے برملا کہا تھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے مُلک میں سب فیصلے صدر ہی نہیں کرتا یہاں حکومت کے پس پردہ ایک حقیقی حکومت بھی موجود ہے۔
اس بیان سے امریکی قوم کو گہری تشویش ہوئی تھی اور ہر طرف سے یہ مطالبے سامنے آنے لگے تھے کہ عوام کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا اصل حکمران کون ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمارا صدر دیکھنے میں ہمارا صدر لگتا ہو، لیکن اس کے جسم میں کوئی خلائی مخلوق حلول کرگئی ہو اور سارے صدارتی احکامات وہی جاری کررہی ہو ؟اس وقت بھی امریکی ریاست نویدا کا ہوائی اڈہ اور علاقہ 51سے کیلی فورنیا تک جانے والی 50میل طویل سرنگ کو دنیا کے انتہائی حساس ، اور پراسرار علاقے کی حیثیت حاصل ہے۔ اَن گنت امریکیوں کا یہ یقین ہے کہ اس سرنگ میں لیبارٹریز ہیں اور یہاں خلائی مخلوق کو رکھا گیا ہے۔ بہت سے جنونی قسم کے صحافی اور کیمرہ مین اس علاقے کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ بعض نے یہاں سے تیار کی گئی خلائی مخلوقات کی فلمز بھی فیس بُک اور یو ٹیوب وغیرہ پر لوڈ کر رکھی ہیں۔
امریکہ کی بہت سی تنظیموں کا یہ پر زور مطالبہ ہے کہ حکومت Area-51اور خلائی مخلوق کے متعلق تمام راز افشا کرے اور بتائے کہ یہ ایریا امریکی حکومت کے حقیقی کنٹرول میں ہے یا یہاں خلائی مخلوق کا کنڑول ہے؟ایک اطلاع کے مطابق صدر جانسن کے زمانے میں امریکی حکومت اور خلائی مخلوق کے ایک وفد کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا،جس کے مطابق امریکی حکومت خلائی مخلوق کی طرف سے ایک حد تک انسانوں کو اغوا کئے جانے کے معاملات کونظر انداز کرے گی، اور اس کے عوض خلائی مخلوق دوسرے سیاروں تک پہنچنے کے لئے امریکی حکومت کو جدید ترین اڑن طشتریاں یا خلائی جہاز تیار کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کرے گی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ خلائی مخلوقات خلائی جہازوں کے سلسلے میں ہم سے ہزاروں سال آگے ہیں ۔
ان کے خلائی جہاز دوسری کہکشاؤں سے اربوں میل کا فاصلہ طے کرکے صرف چند گھنٹے میں زمین پر پہنچتے ہیں۔یہ خلائی جہاز اپنے گر د الیکٹرو میگ نیٹک بادلوں کا ایک حلقہ قائم کرلیتے ہیں، جس سے وہ خلاء کو پچکا کر اپنا فاصلہ کم کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں۔
اس طرح کی ٹیکنالوجی کا ذکر ٹیسلا بھی کرتا ہے،وہ اپنے تمام آئیڈیاز کے سلسلے میں بہت پُرجوش تھا، لیکن اس کے پاس وسائل نہیں تھے اور عام سرمایہ دار ایسے کاموں میں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں تھے، تاہم حال ہی میں امریکہ کے ایک سائنس دان نے ایک ایسی ایجاد کو پیٹنٹ کرانے کے لئے اپنا کیس پیش کیا ہے،جس کی بدولت انسان مریخ پر موجودہ چھ یا آٹھ ماہ کی مدت کے بجائے صرف ایک دو ہفتے میں پہنچ سکے گا۔
امریکی عوام آج بھی خلائی مخلوق کے سلسلے میں پریشانی کا شکار ہیں،انہیں کچھ معلوم نہیں کہ ان پر خلائی مخلوق کا راج ہے یا ان کے صدر کی صورت میں کوئی انسان ہی ان کا حاکم ہے۔ اب نواز شریف صاحب کے خلائی مخلوق کے سلسلے میں کیا تجربات ہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیا انہیں اپنی حکومت کے دوران اس مخلوق سے کوئی واسطہ پڑا ، یا وہ اس مخلوق کے وہم میں اقتدار سے باہر کئے جانے کے بعد مبتلا ہوئے؟ انڈیا ، امریکہ اور اسرائیل میں خلائی مخلوق کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ، بعض لوگ اس مخلوق کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ جادو ، ٹونے بھی اسی طرح کی شیطانی مخلوق سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے لوگ عام طور پر اپنے توہمات یا عقیدے کے طور پر جنہیں ہوائی مخلوق کہہ دیتے ہیں یا جن بھوت کا نام دیتے ہیں دراصل وہ سب بھی دوسرے سیاروں سے تعلق رکھنے والی خلائی مخلوق ہیں۔ ہمارے ہاں جب کوئی خلائی مخلوق کسی انسان میں حلول کرجاتی ہے اور کوئی حقیقی عامل آکر اپنے عملیات سے اس مخلوق پر قابو پالیتا ہے اور اس سے اس کے وطن کے متعلق پوچھتا ہے ، تو وہ مخلوق اپنا وطن دور دراز کے مخلتف دوسرے سیاروں کو بتاتی ہے۔ اس طرح کا تجربہ ہمارے ہاں لوگوں کو حاصل ہوا ہے۔
امریکہ میں ایسی بہت سی تنظیمیں قائم ہیں، جن کے اراکین وہ لوگ ہیں، جن کااسی طرح کی کسی مخلوق سے واسطہ ہے یا کبھی تھا۔ تاہم یہ لوگ آپس میں اپنے خلائی مخلوق کے متعلق جن تجربات کا تبا د لہ کرتے ہیں اس کے مطابق خلائی مخلوق اکثر ان لوگوں کو اُٹھا کر اپنے وطن میں لے جاتی ہے ، ان کے جسم پر مختلف تجربات کرتی ہے، پھر آپریشن کر کے ان کے ذہن میں کوئی آلہ نصب کردیا جاتا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آئندہ بھی اس انسان کی حرکات کو مانیٹر کیا جاتا رہے۔ ایسے انسان اکثر مخبوط الحواس ہوجاتے ہیں، یا شدید ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں۔
اللہ نہ کرے کہ ہمارے نواز شریف صاحب کو بھی کسی ایسی مخلوق سے واسطہ پڑے یا ان کی حکومت کے دوران کسی خلائی مخلوق نے ان کے جسم میں حلول کیا ہو،کیونکہ یہ انسان اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں کرسکتا ۔
ہم انڈیا میں لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے مودی، آدم خور اسرائیلی حکمرانوں اور مسلمانوں سے بیر رکھنے والے امریکی صدر ٹرمپ ہی کو دیکھ لیں ان سب کے خلائی مخلوق سے تعلقات ہیں اور ان کے رویے بھی سب عالم کے سامنے ہیں۔