جب سنگدل ڈاکٹر نے محبت میں ناکامی پر سابقہ محبوبہ سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا
یہ کہانی کا ایک موڑ تھا جس کے بعدکہانی مرکزی کرداروں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ شبنم محمد علی اور عقیل کی تکون ایک بار پھر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ محمد علی اور شبنم بچپن ہی سے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ محمد علی اور شبنم نے ایک گھروندا تحفے میں دیا ہے جبکہ شبنم کو محمد علی نے ایک آنکھیں مٹکانے اور ہنسنے بولنے والی گڑیا تحفے میں دی ہے پھر یہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ درمیان ایک طویل عرصہ حائل ہو جاتا ہے جس کے بعد تقدیر ایک بار پھر انہیں ایک دوسرے کے سامنے لا کر کھڑا کر دیتی ہے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر462 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
محمد علی کو اپنے خالہ زاد بھائی عقیل سے بچپن ہی سے شکایت بلکہ نفرت ہے جو اس کو اور اسکی بہن کو اپنے گھر میں زبردستی کا مہمان سمجھتا ہے۔ ادھر خالو(ننھا)کا یک طرفہ اورجانب دارانہ رویہ ان دونوں کے مابین حائل خلیج کو مزید وسیع کر دیتا ہے۔ محمد علی کو ہر قدم پر محرومی اور نا انصافی ملتی ہے۔ اس طرح ان دونوں کی باہمی ناپسندیدگی ضد اور نفرت کا روپ دھار لیتی ہے۔ عقیل کی خواہش اور عادت ہے کہ وہ کوئی بھی چیز جو محمد علی کو پسند ہے اس سے چھین لینا چاہتا ہے اور اپنے خود غرض باپ کی وجہ سے اس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ محبت کرنے والی خالہ اس نا انصافی پر احتجاج کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتی۔
کئی غلط فہمیوں اور جھڑپوں کے بعد محمد علی اور شبنم ایک بار پھر ایک دوسرے کے نزدیک آجاتے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے دیئے ہوئے تحفے کو ابھی تک سنبھال کر رکھا ہے جو اس بات کاثبوت ہے کہ بچپن کی دوستی کو انہوں نے فراموش نہیں کیا۔ عقیل کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ دولت مند ہے ۔ خوب صورت ہے۔ اس کا مستقبل زیادہ تابناک ہے اس لیے شبنم پر اس کا حق ہے۔ اس کی طلب میں محبت سے زیادہ نفرت اور رقابت کار فرما ہے۔ اب وہ جانتا ہے کہ محمد علی اور شبنم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اسی لیے اس کو یہ ضد ہوگئی ہے کہ شبنم سے اس کی شادی ہونی چاہئے۔ اس مطالبے میں اس کو اپنے باپ کی حمایت بھی حاصل ہے۔
خالہ کو شبنم اور محمد علی کے جذبات کا بخوبی علم ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ محمد علی کو ایک نارمل انسان بنانے میں شبنم کے نفسیاتی علاج اور محبت کا کتنا زیادہ دخل ہے مگر اس کی کمزور آواز کوئی نہیں سنتا لیکن ابھی ایک مضبوط سہارا موجود ہے اور وہ ہے شبنم کا باپ۔ یہ کردار ساقی صاحب نے ادا کیا تھا۔
بیٹی کی شادی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو ساقی کے سامنے محمد علی اور عقیل میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا سوال ہے لیکن وہ یہ حق اپنی بیٹی کو منتقل کردیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شبنم کی رائے کو اس بارے میں فوقیت حاصل ہوگی۔ محمد علی ملازمت کے سلسلے میں دوسرے شہر گیا ہوا ہے اور ان تمام مسائل سے بے خبر ہے مگر شبنم کی محبت میں سرشار ہے۔ شبنم نے اس کو سمجھایا ہے کہ وہ ایک تعلیم یافتہ اور ذہین آدمی ہے۔ اسے اپنا وقت اور زندگی بلا وجہ ضائع کرنے کے بجائے ایک کامیاب انسان بننا چاہئے تاکہ جب وہ شبنم کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگے تو انکار کی گنجائش نہ ہو۔
محمد علی یہ ’’آس‘‘ لے کر ملازمت پر جاتا ہے اور اسکو یقین ہے کہ اب اس کی اور شبنم کی راہ میں کوئی دیوار حائل نہ ہوگی۔
اور بظاہر صورت حال بھی یہی ہے۔
لیکن تقدیر ایک جانب کھڑی مسکرا رہی ہے۔
ڈاکٹر قوی کی بیوی جب ایک روز اسکو یہ خوش خبری سناتی ہے کہ اسکی بہترین سہیلی شبنم کی شادی ہو رہی ہے اور یہ فیصلہ شبنم پر چھوڑ دیا گیا ہے تو ڈاکٹر یک لخت سوچ میں پڑ جاتاہے۔
فریدہ خوشی کے عالم میں بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ میں جانتی ہوں کہ باجی کا فیصلہ میرے بھیا کے حق میں ہی ہوگا۔ وہ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ بھیا کو نئی زندگی بخشنے میں باجی کا بہت نمایاں ہاتھ ہے۔
فریدہ مگن ہو کر بولے جا رہی ہے مگر ڈاکٹر کچھ نہیں سن رہا۔ اس کاذہن کسی اور طرف چلا گیا ہے۔ اسے پرانی باتیں یاد آرہی ہیں اور پرانے زخم تازہ ہو کر دکھ دینے لگے ہیں۔
بیوی کو بولتا ہوا چھوڑ کر وہ ایک دم گھر سے رخصت ہو جاتاہے اور سیدھا شبنم کے گھر کا رخ کرتا ہے جو اس وقت اپنے گھر میں اکیلی ہے۔ وہ حسب معمول خوشگوار موڈ میں قوی کا خیر مقدم کرتی ہے اور فریدہ کی خیریت دریافت کرتی ہے۔ ڈاکٹر اسے بتاتا ہے کہ فریدہ اس بات کی گواہ ہے کہ میں نے اسکو کبھی معمولی سی شکایت کاموقع بھی نہیں دیا۔
شبنم ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرتی ہے کہ اس نے اپنے وعدے کا پوری طرح پاس کیا ہے۔
ڈاکٹر اس سے کہتا ہے ’’اب وعدہ نبھانے کی تمہاری باری ہے۔‘‘
پھر وہ شبنم کو وہ شرط یاد دلاتا ہے۔
شبنم مسکراتی ہے اور کہتی ہے’’ڈاکٹر صاحب مجھے اپنا وعدہ یاد ہے۔ مانگئے آپ کیا مانگنا چاہتے ہیں؟‘‘
ڈاکٹرکہتا ہے ’’تمہاری شادی کی بات چیت چل رہی ہے۔ اور تمہیں (ناصر) محمد علی اور حامد (عقیل)میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ میں چاہتاہوں کہ تم ناصرکی بجائے حامد سے شادی کرو۔‘‘
شبنم حیران رہ جاتی ہے’’ڈاکٹر صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں بچپن سے ناصرکو پسند کرتی ہوں۔‘‘
ڈاکٹر قوی کا لہجہ ایک دم بدل جاتا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک طنزیہ اور انتقامی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے ’’میں بھی بچپن سے کسی اور کو پسند کرتا تھا اس سے شادی کرناچاہتا تھا مگر تم نے مجھے فریدہ سے شادی کرنے پرمجبور کر دیا تھا۔‘‘
وہ کہتی ہے ’’مگر ڈاکٹر صاحب ناصر اورمیں۔۔۔‘‘
وہ بات کاٹ دیتا ہے ’’میں جانتا ہوں مگر تمہی نے تو کہا تھا کہ محبت صرف پانے ہی کا نہیں کھونے کا بھی نام ہے اورمحبت کی خاطر قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ تم نے کتنی آسانی سے کہہ دیا تھا اور اپنی بات منوا بھی لی تھی۔ دوسروں کو مشورہ دینا بہت آسان ہے مگرجس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے میں چاہتا ہوں کہ تم اپنا وعدہ پورا کرو۔ میرے کہنے کے مطابق حامد سے شادی پر رضامندی کا اظہار کردو۔‘‘
ڈاکٹر جاتے ہوئے چھپے لفظوں میں یہ دھمکی بھی دے دیتا ہے کہ اگر شبنم نے اپنا وعدہ پورانہ کیا تو’’وہ بھی اپنے وعدے سے آزاد ہوجائے گا۔‘‘
اسطرح شبنم جیتی ہوئی بازی ہار جاتی ہے ۔ایک طرف محبت ہے اور دوسری طرف فریدہ کی زندگی اور خوشیاں پھر وعدے کا پاس بھی ہے۔ مگر ناصرکا کیا ہوگا جو اسکے وعدے کی آس پرایک نئی زندگی شروع کر رہاہے اورجسے زندگی میں پہلی بار محبت توجہ اور خلوص ملا ہے؟
یہ ایک جذباتی کشمکش کارمرحلہ تھا اور کہانی کا اہم ترین موڑ۔
بالآخر شبنم باپ کو حامد کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ سنا دیتی ہے۔ حامد، فریدہ، خالویہاں تک کہ خود شبنم کا باپ اس فیصلے پر حیران رہ جاتے ہیں۔ خود حامدکوبھی یقین نہیں آتا کہ یک لخت پانسااس کے حق میں کیسے پلٹ گیا؟
ناصر(محمد علی) کو اس بات کا علم ہوتا ہے تو وہ اس کو سراسر بے وفائی ، فریب اور اور شبنم کا لالچ تصورکرتا ہے جس نے محض دولت کی خاطر حامدکواس پرترجیح دی ہے۔ غلط فہمیاں بڑھتی رہتی ہیں مگر شبنم چپ ہے۔ وہ ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالتی۔ وہ دونوں سے کیے ہوئے وعدوں کو نبھاناچاہتی ہے مگر بے وفائی کی مرتکب بھی نہیں ہونا چاہتی اور اپنے منہ پرلگی ہوئی مہر بھی نہیں کھولنا چاہتی۔ اسکا واحدحل اس کے نزدیک صرف ایک ہی رہ جاتا ہے وہ دلہن توبن جاتی ہے مگر شادی سے پہلے زہر کھا کر جان دے دیتی ہے۔
لوگ پوچھتے تھے اور آج بھی پوچھتے ہیں کہ ’’آس‘‘ میں ولن کون تھا۔ خالو، حامد یا قوی؟ دیکھا جائے تو آخر میں ولن ڈاکٹر ہی ثابت ہوتا ہے جس نے جمی جمائی بازی الٹ دی تھی ۔کیا وہ سنگ دل اور خود غرض تھا؟ منتقم مزاج تھا؟ کم ظرف تھا؟ اسنے ایک بہت غلط حرکت کی تھی؟
اس کی جگہ ہو کر سوچئے تو وہ بھی حق بجانب نظر آتا ہے۔
دراصل ’’آس‘‘ کی کہانی ایک انتہائی پیچیدہ اور انسانی جذبوں، احساسات اور نفسیات کی کہانی ہے۔
لیکن خلاصہ پھروہی ہے عورت گڑیا کی مانند ایک بے زبان اور خاموش کھلونا۔ جس طرح شبنم کی گڑیا نہیں بول سکتی تھی اسی طرح شبنم نے بھی زہر کھا کر جان دے دی مگر منہ سے کچھ نہ بولی۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر464 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں