دشمن کی توپیں گولے برسا رہی تھیں اور پاکستانی فوجی درود پاکﷺ پڑھتے آگے بڑھ رہے تھے ،فتح بہت قریب تھی کہ اچانک دشمن نے ۔۔۔
تحریر: کرنل(ر) اشفاق حسین
میجر طارق محمود کا تعلق شاہینوں کے شہر سرگودھا سے ہے۔ ان کے والد فلک شیر پاک فوک کی آرمی ایجوکیشن کور سے اعزازی کپتان کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ طارق نے میٹرک ملٹری کالج جہلم سے اور انٹر میڈیٹ کا امتحان پاکستان ائر فورس کالج سرگودھا سے پاس کیا اور 1987ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی۔ اعلٰی کارکردگی کی بنا پر قاسم کمپنی کے کمپنی سارجنٹ میجر ہوئے۔ ستمبر 1989ء میں پاسنگ آؤٹ کے بعد 47ایف ایف میں تعینات ہوئے جو اس وقت سیالکوٹ میں مقیم تھی۔ بیسک کورس امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ 1994ء میں مڈکیرئر کورس کرنے سکول آف انفنٹری اور ٹیکٹکس کوئٹہ پہنچے۔ کورس کی تکمیل پر انہیں سکول ہی میں بطور انسٹرکٹر تعینات کر دیا گیا۔
تین سال بعد واپس اپنی یونٹ میں آئے جو اس وقت بنوں میں تھیں۔ سال بعد انہیں شمالی علاقہ جات میں متعین ناردرن لائٹ انفنٹری کی ایک یونٹ میں پوسٹ کر دیا گیا جہاں زندگی کے خطرناک ترین مراحل ان کے منتظر تھے۔ زندگی اور موت میں فاصلہ کم تھا۔ دلیری اور ذہانت میں توازن رکھتے ہوئے ایمان کی صراط مستقیم پر چلنے کا کڑا امتحان۔ تین ماہ تک وہ بالتوروگلیشیر کی بیس ہزار سے بھی ایسی ایسی بلندیوں پر رہے جہاں محض پہنچنے کے لیے اکیس دن درکار ہوتے ہیں۔
بلند ترین پوسٹ پر ایک فوجی کو زیادہ سے زیادہ اکیس دس رکھا جاتا ہے اور پھر نیچے بلالیا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ عرصے کا قیام ایک عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ اس عرصے میں بھی اعصابی رد عمل (Reflexes) سست ہوجاتے ہیں۔ پھیپھڑے تھک جاتے ہیں اور برف سے منعکس ہونے والی کرنوں کی چند ھیا دینے والی روشنی سے اچھی بھلی کھلتی ہوئی رنگت کا انسان کالا بھجنگ ہوجاتا ہے۔
بلندیوں سے ’’تازہ تازہ‘‘ اترے ہوئے انسان سے گفتگو عجیب تجربہ ہے۔ آپ اس سے صرف نام پوچھیں تو پہلے وہ خلا میں گھورتا رہے گا اور عین ممکن ہے کہ اس دوران وہ آپ کا سوال ہی بھول جائے اور جواب ملے ’’ میں کل ہی آیا ہوں ‘‘۔ ایسے شخص کو نارمل ہونے میں تین سے سات دن لگتے ہیں۔
میجر طارق بالتو رو کی بلندیوں سے نیچے اترے تو شمشیر و گلستان سیکٹر ، حمزی گھنڈ، گوریا سکو اور سکردو میں مختلف فرائض انجام دیتے رہے۔ جون کے آخری ہفتے میں انہوں نے مانی اور نذیر سیکٹر کی ریکی کی اور بالآخر انہیں حکم ملا کہ تین آدمیوں کی ایک پارٹی لے کر خاقان پوسٹ پر جائیں۔ وہ پہلے ریاض بیس پہنچے۔ وہاں سے صبح سات بجے چل کر دوپہر تین بجے تک بدر کیمپ پہنچے۔ وہاں سے تین آدمیوں کو لے کر روانہ ہونے کو تھے کہ دشمن کے تو پخانے نے زبردست گولہ باری شروع کردی۔ گولے یوں برس رہے تھے جیسے بارش برستی ہو۔ انہوں نے حکام بالا سے اجازت چاہی کہ گولہ باری تھمنے تک وہ رک جائیں لیکن انہیں جس مشن پر بھیجا جا رہا تھا ، اس میں ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ حکم ہوا کہ
نہیں فوراً روانہ ہوجائیں۔ تب ان کے ساتھی کیپٹن سید شمس ، کیپٹن نبی بخش اور ڈاکٹر واصف انہیں الوداع کہنے کے لئے جمع ہوئے۔ ہر ساتھی انہیں کوئی نہ کوئی دعا بتاتا تھا اور پھر دعاؤں کے ساتھ وہ بدر کیمپ سے رخصت ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ اتنی ساری دعائیں کہاں یاد رہتی ہیں۔ ’’میں نے اپنے ساتھیوں کو بھی درود شریف پڑھنے کو کہا اور خود بھی درود شریف پڑھتا ہوا اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں ایک گنہگار انسان ہوں لیکن میں نے دیکھا کہ دلوں کی گہرائیوں سے ابھرتے ہوئے درود شریف نے ہم پر عافیت کی چادر تان دی ہے۔ گولے برس رہے ہیں اور ہم چلے جا رہے ہیں۔ کوئی کوئی گولہ تو چند گز کے فاصلے پر آکر گرتا لیکن عجیب اتفاق ہے عین اس وقت ہم کسی نہ کسی بڑے پتھر کے پیچھے ہوتے اور یوں گولہ پھٹنے سے اڑنے والے بموں کے ٹکڑوں اور پتھروں سے محفوظ رہتے اور پھر یوں ہوا کہ گولہ باری ہماری پیچھے شفٹ ہوگئی یعنی ہم جہاں سے گزر آتے تھے گولے وہاں گرتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے دشمن کو ہمارے بارے میں معلوم ہوگیا تھا اور وہ ہمارے راستے کو نشانہ بنا رہا تھا، لیکن یہ درود شریف کا ہی معجزہ تھا کہ ہم آگے بڑھتے رہے اور گولہ باری ہمارے پیچھے پیچھے چلتی رہی۔ سورج غروب ہونے کے بعد تک گولہ باری جاری رہی ، پھر تھم گئی ۔
رات کو دس بجے کے قریب ہم اپنی منزل حسن رج پہنچے اور اپنے ساتھیوں کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ کسی کو خراش تک نہیں آئی‘‘۔
رات ڈھائی بجے کے قریب این ایل آئی کی ایک یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل تنویر کا فون آیا کہ دشمن نے عاقل پوسٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ کمپنی آفیسر لیفٹیننٹ معاذ سمبل کو یہ پوسٹ واپس لینے کے لیے بھیجا جائے۔ میجر طارق نے دس آدمی دے کر معاذ کو عاقل پوسٹ کی طرف بھیجا اور خود حسن رج کے دفاع میں مصروف ہوگئے۔ بچے کھچے آدمیوں کو انہوں نے نیم دائرے کی شکل میں متعین کیا اور تین مشین گنوں کو اس طرح لگایا کہ دو گنیں نیم دائرے میں سروں پر تھیں اور ایک درمیان میں ۔ ادھر عاقل پوسٹ پر دشمن کی نفری زیادہ تھی ، وہ تھے بھی بلندی پر ۔
لیفٹیننٹ معاذ کا حملہ پسپا کر دیا گیا۔ صبح سویرے میجر طارق کے قائم مقام کمانڈنگ آفیسر میجر ارشد کا فون آیا کہ میجر طارق خود عاقل پوسٹ پر حملہ کریں اور اسے دشمن کے قبضے سے چھڑائیں۔ اس وقت تک میجر طارق اپنے آدمیوں کو حسن رج کے دفاع پر متعین کر چکے تھے اور لیفٹیننٹ معاذ کے ساتھ جانے والے آدمیوں کو ملا کر کل بارہ آدمی بنتے تھے جو حملے میں استعمال ہو سکتے تھے۔ میجر طارق نے مزید افرادی قوت اور ایمونیشن کی درخواست کی ۔ 60ملی میٹر ی ایک مارٹر اور آر پی جی ۔ 7راکٹ لانچر بھی طلب کیے۔ اس کے جواب میں بدر کیمپ سے لیفٹیننٹ مظاہرہ کی قیادت میں تیس آدمی اور بھیجے گئے جو ساری رات دشمن کی گولہ باری میں سفر کرتے ہوئے صبح ساڑھے چار بجے میجر طارق تک پہنچے۔ مارٹر کے ساتھ کل گیارہ گولے تھے۔ راکٹ لانچر پہنچ گیا تھا لیکن بھیجنے والے اس کے راکٹ بھیجنے بھول گئے تھے۔
اس وقت تک میجر طارق ، لیفٹیننٹ معاذ سے تفصیلی انٹرویو کر کے دشمن کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر چکے تھے۔ صورتحال یہ تھی کہ میجر طارق ’’حسن رج ‘‘ کی ایک ایسی ڈھلوان پر موجود تھے جو دشمن کی نظر سے اوجھل تھی۔ اس ڈھلوان سے اوپر چڑھیں تو چوٹی کے پار ایک نشیب تھا اور اس کے بعد ایک اور چوٹی جسے عاقل پوسٹ کا نام دیا گیا تھا۔ معاذ کے مطابق اس پر دشمن کے تیس کے قریب آدمی موجود تھے۔ لڑائی کے عام اصولوں کے مطابق دفاع میں لگی ہوئی نفری پر حملہ کرنے کے لیے کم از کم تین گناہ زیادہ افرادی قوت چاہیے بلکہ پہاڑی علاقوں میں بلندی پر بیٹھے دشمن کے پاؤں اکھاڑنے کے لیے تو اور بھی زیادہ نفری چاہیے ۔
جیسا کہ خود بھارتی سینا نے کارگل آپریشن میں کیا کہ بلندی پر بیٹھے دس بارہ آدمیوں پر حملے میں دو دو سو بلکہ تین تین سو افراد استعمال کئے اور پھر بھی منہ کی کھائی کہ بلندی پر بیٹھے افراد کے حوصلے جوان ہوں تو ان پر قابو پانا ممکن نہیں۔ لیکن میجر طارق کے پاس کل بیالیس افراد تھے۔ ان میں سے بھی کچھ پیچھے چھوڑنا تھے کہ وہ فائر کور مہیا کریں۔
دن نکل آیا تھا۔ میجر طارق نے اوپر جا کر دشمن کی پوزیشنوں کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ ان کی ایک پوزیشن تو عاقل پوسٹ کے دامن میں ہے اور دو پوزیشنیں چوٹی پر ۔ چوٹی کے پیچھے پہاڑ کے نیچے غالباً ان کا بیس کیمپ تھا اور یقیناً وہاں سے ڈھلوان بالکل سیدھی تھی کہ دائیں طرف سے جا کر دیکھا تووہاں سے لٹک رہے تھے جو وہ اوپر چڑھنے اور نیچے اترنے کے لیے استعمال کرتے ہوں گے۔ میجر طارق کو جائزے کے دوران ہی چھ افراد ان رسوں پر چڑھتے ہوئے نظر آئے جو شاید ایمونیشن یا راشن لے کر اوپر آرہے تھے۔
میجر طارق نے مشین گن کی مدد سے ان پر فائر کروایا۔ چار افراد زخمی ہوئے تھے۔ میجر طارق کو معلوم نہیں کہ بعد ازاں وہ مرکھپ گئے یا بچ گئے۔ اس کے فوراً بعد دشمن کی طرف سے زبردست فائر آیا تو یہ سب لوگ اوٹ میں ہو گئے۔ اب طارق نے اپنے افراد کو تین پارٹیوں میں تقسیم کیا۔ ایک پارٹی کو لیفٹیننٹ معاذ کی قیادت میں دائیں طرف روانہ کیا کہ وہ چکر کاٹ کر نالے میں اتر جائیں اور پھر دائیں ڈھلان سے دشمن پر حملہ کریں۔ دوسری پارٹی کو بائیں طرف سے ہوتے ہوئے دشمن کے عقب میں پہنچنے کی ہدایت کی۔
میجر طارق نے اپنے لیے مشکل ترین فیصلہ کیا کہ عین سامنے سے دشمن کو اس طرح الجھایا جائے کہ وہ عقب اور اپنے بائیں سے آنے والے افراد کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ اگر اسے سامنے سے مصروف نہ کیا جاتا تو وہ نالے کی طرف سے آنے والے لیفٹیننٹ معاذ کی پارٹی پر بھر پور فائرنگ کر سکتے تھے ۔
میجر طارق ، ایک سپاہی جس کا نام بادی تھا ، کولے کر پہاڑ پر چڑھ گئے۔ چوٹی پر پہنچے تو پرلی چوٹی کے دامن میں دشمن کو موجود پایا ۔ طارق کا فاصلہ ان سے بمشکل پچاس ساٹھ گز ہوگا۔ طارق نے انہیں للکارتے ہوئے ہتھیار پھینکنے اور اپنی پوزیشنوں سے نیچے اترنے کو کہا۔ وہ سخت حیران کہ یہ بلائے ناگہانی ان پر کہاں سے نازل ہوگئی۔ ان میں سے ایک نے سر پر سفید رومال باندھ رکھا تھا۔ طارق نے جب انہیں ہتھیار پھینکنے کو کہا تو سفید رومال والے نے پوچھا کہ ان کی یونٹ کون سی ہے۔ میجر طارق نے کہا کہ وہ اپنی پوزیشنوں سے باہر نکل کر نیچے آئیں تو وہ اپنی یونٹ بھی بتادیں گے۔ اسی دوران چوٹی پر موجود دشمن کو بھی ان کی موجودگی کی خبر ہوگئی اور وہ چوٹی کے قریبی سرے پر آکر ان پر فائرنگ کرنے لگے۔
میجر طارق اور سپاہی ہادی نے دائیں بائیں کے پتھروں کی آڑ لیتے ہوئے جوابی فائر کیا لیکن اس دوران چوٹی کے دامن والی پارٹی کو فرصت مل گئی۔ ان میں سے کچھ تو اپنی پوزیشنوں میں چھپ گئے اور کچھ اپنے دائیں طرف موجود نشیب سے ہوتے ہوئے مین پوزیشن کی طرف اوپر بھاگے۔ طارق خود تو دشمن پر فائر کرتے رہے اور سپاہی ہادی کو بتایا کہ فوراً پیچھے جاکر فائر بیس والی پارٹی کو کہیں کہ وہ بائیں طرف سے آگے جائیں اور دشمن کو پیچھے بھاگنے نہ دیں۔
وہ چلے لیکن ان کا راستہ دشمن کی مین پارٹی کی زد میں تھا ۔وہ تو آگے نہ جاسکے لیکن ایک این سی او نائیک عمر دین میجر طارق تک پہنچ گیا۔ اب وہ تین ہوگئے۔ تقریباً پندرہ منٹ کی فائرنگ کے تبادلے کے بعد نائیک عمر دین نے بتایا کہ اس کا ایمونیشن ختم ہوگیا ہے۔
میجر طارق نے اسے ہدایت کی کہ وہ پیچھے جائے اور نئے میگزین لے کر فوراً آگے آئے۔ وہ ابھی واپس نہیں آیا تھا کہ سپاہی ہادی نے شکایت کی کہ اس کی رائفل کا برج بلاک پہنچ گیا ہے۔ اس طرح دشمن کے مقابلے میں میجر طارق تنہا رہ گئے۔ انہوں نے فائر جاری رکھا او رہادی کو بتایا کہ وہ اپنی رائفل ٹھیک کرنے کی بجائے پیچھے جائیں اور رائفل بدل لائے۔
میجر طارق کی چیخ و پکار سے دشمن کو اندازہ ہوگیا کہ ان کا افسر یہی ہے جو چیخ چیخ کر انہیں ہدایات دے رہا ہے۔ انہوں نے غالباً اپنے کسی ماہر نشانہ باز (Sniper) کو میجر طارق پر نظر رکھنے کو کہا کیونکہ اس کے بعد ان پر مشین گن کے برسٹ کی بجائے اکا دکا گولیوں کا فائر بڑھ گیا۔ گولیاں آتی تھیں اور ارگرد کے پتھروں سے ٹکرا کر زناٹے کے ساتھ کسی او ررخ چلی جاتی۔ اس عمل کو ریکوشے(Ricochet) کہتے ہیں اور اس کی ایک مخصوص آواز کی پہچان ہوتی ہے یہ آوازیں وہ اس دن سے سننا شروع کردیتا ہے جس دن پہلی مرتبہ وہ فائرنگ رینج پر جاتا ہے۔
میجر طارق تن تنہا لڑرہے تھے اور بیس پچیس افراد کی فائرنگ کی زد میں تھے۔ وہ جونہی اوٹ سے سراٹھاتے، تڑا تڑگولیاں برسنے لگتیں۔ ایک دو گولیاں ان کے ہیلمٹ سے ٹکرا کر بھی ریکوشے ہوئیں لیکن اس مرد خدا نے ہمت نہیں ہاری اور میگزین بدل بدل کر فائر کرتا رہا اور اسی دوران ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ پہاڑ چلتے ہوئے اور زمین آسمان اپنی جگہ بدلتے محسوس ہوئے۔ دماغ سن ہوگیا اور انہیں اپنی کچھ خبر نہ رہی۔ کچھ دیر بعد ہوش و حواس بحال ہوئے تو انہیں لگا جیسے کسی نیند سے اُٹھے ہوں۔۔
’’ہیں! میں سوگیا تھا‘‘۔ انہوں نے حیرت سے سوچا۔ وہ گزشتہ دو دنوں سے مسلسل لڑرہے تھے اور دو دنوں سے پچھلی رات تک پوری رات پیدل سفر میں رہے۔ سچ ہی کہا ہے کسی نے کہ نیند تو انسان کو سولی پر بھی آجاتی ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے سوچا۔ مشین گن کے ایک برسٹ نے ان کے خیالات کا سلسلہ منقطع کردیا اور انہیں احساس ہوا کہ وہ تو حالت جنگ میں ہیں۔
’’ایسی حالت میں مَیں کیسے سوسکتا تھا؟ کہیں بے ہوش تو نہیں ہوگیا تھا۔ گولی شو لی تو نہیں لگ گئی تھی کہیں!‘‘۔
انہوں نے ہاتھ پھیر پھیر کر پورے جسم کا جائزہ لیا۔ پورا جسم ٹھیک خون کا بھی کوئی نشانہ نہیں۔اس دوران چونکہ ان کی طرف سے فائرنگ بالکل نہیں ہورہی تھی، سپاہی ہادی جو رائفل بدل کر ان سے ذرا پیچھے پوزیشن لے چکا تھا، بار بار انہیں پکار کر پوچھتا رہا تھا کہ سب خیریت ہے، آپ ٹھیک ہیں۔ جواب نہ پاکر آگے آیا۔ اس نے دیکھا کہ ہیلمٹ میں ایک سوراخ ہے اور ہیلمٹ کے نیچے سے سر کی پچھلی جانب سے خون رس رہا ہے۔ سپاہی ہادی نے ان کا ہیلمٹ اتارا تو جمع شدہ خون بہہ نکلا اور پورا چہرہ خون سے لت پت ہوگیا۔
میجر طارق کا خون رائیگاں نہیں گیا جب دشمن نے اپنی تمام تر توجہ انہیں ٹھکانے لگانے پر مرکوز کررکھی تھی تو وہ اپنی اطراف سے غافل ہوگئے اور وہ پارٹیاں جو نالے اور عقب کی طرف بھیجی گئی تھیں، دشمن کے سر پر پہنچ گئیں۔ انہیں اس وقت پتہ چلا جب وہ چوٹی پر پہنچ کر ان پر فائر کھول چکے تھے۔ ان کے سربراہ نے جو ایک میجر تھا، بھاگنے کی کوشش کی لیکن پیٹھ پر گولی کھا کر ہلاک ہوگیا۔ اس کے مقابلے میں اس کے نمبردو نے جو ایک کپتان تھا، زیادہ دلیری سے مقابلہ کیا اور لڑتا رہا لیکن اس کی کو ئی پیش نہ چلی اور وہ بھی مارا گیا۔
عاقل پوسٹ پھر سے پاک فوج کے قدموں تلے تھی۔ لیفٹیننٹ معاذ نے باآواز بلند میجر طارق کو آواز دی اور ہاتھ سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے پکارا ’’سر! پوسٹ ری کیپ چرڈ۔ آل اوکے۔‘‘
میجر طارق نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا، کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن نقاہت کی وجہ سے آواز نہ کھل سکی۔ ان کا سر ڈھلک گیا۔ سپاہی ہادی نے نائیک عمر کو آواز دی اور بتایا کہ میجر صاحب کے سر میں گولی لگی ہے، وہ آگے آجائے۔ نائیک عمر آگے آیا۔ دونوں نے سہارا دیا۔ میجر طارق نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے زخم کی گہرائی کا اندازہ لگانے کی کوشش کی تو آدھی انگلی زخم میں چلی گئی۔ فوجی جانتے ہیں کہ سر کا زخم کتنا مہلک ہوتا ہے، اگر میدان جنگ میں کہیں دوچار زخمی اکٹھے پڑے ہوں اور خوش قسمتی سے کوئی ایمبولینس آجائے لیکن اس میں جگہ کم ہو تو جس کے سر میں زخم آیا ہو، اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بچنے کی امید کم ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہو، بازو زخمی ہو، پیٹ کی بھلے سے انتڑیاں باہر آگئی ہوں، ان سب کے بچنے کا امکان ہوتا ہے، سو انہیں ترجیح دی جاتی ہے۔
میجر طارق خوش قسمت تھے کہ ان کا زخمیوں سے مقابلہ نہیں تھا، لیکن ان کا کہنا ہے ’’میں نہیں جانتا کہ اس خوش قسمتی پر مجھے خوشی ہے یا افسوس، اس لئے کہ جب آدھی انگلی زخم کے اندر چلی گئی تو مجھے پہلا خیال یہی آیا کہ میں شہید ہورہا ہوں۔ اس لئے مجھے بالکل درد محسوس نہیں ہورہا۔ جب میں اپنے جسم پر ہاتھ پھیر کر اپنا جائزہ لے رہا تھا۔ تب بھی سر کی طرف خیال نہیں گیا کہ درد بالکل نہیں تھا اور جب انگلی زخم میں داخل ہوئی تب میں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور درود شریف پڑھا اور پورے سکون سے اس فانی دنیا کو خیر باد کہنے کے لئے تیار ہوگیا‘‘
عجب چیز ہے لذت آشنائی!
نائیک عمر دین اور سپاہی ہادی نے انہیں اٹھانے کی کوشش کی تو عالم غنودگی سے نکلے۔ انہوں نے ہاتھوں کے سہارے اٹھنے کی کوشش کی تو بایاں بازو بے جان پایا۔ ساتھیوں کی مدد سے کھڑے ہوئے تو بائیں ٹانگ بھی شل تھی۔ نائیک عمر دین اور سپاہی ہادی انہیں سہارا دیتے ہوئے پیچھے لے چلے تو انہوں نے کہا’’فائر بیس والے تمام آدمیوں کو عاقل پوسٹ پر بھیج دو۔ تمام مشین گنیں بھی آگے جائیں اور معاذ کو کہنا کہ جلدی جلدی اپنی پوزیشنیں ٹھیک کرلے، دشمن کی طرف سے جوابی حملے کے لئے تیار رہے۔‘‘
نائیک عمر دین یہ ہدایات پہنچانے کے لئے فائر بیس کی طرف چلا گیا او رمیجر طارق کو ایک پتھر پر بٹھادیا گیا۔ جہاں سے وہ عاقل پوسٹ پر ہونے والی کارروائی دیکھتے رہے۔ پھر ساتھیوں کی مدد سے وہ ساڑھے چار گھنٹے پیدل چل کر بیس کیمپ پہنچے جہاں نرسنگ اسسٹنٹ شفاعت علی نے ان کی مرہم پٹی کی۔ زخم دھو کر جب وہ پٹی کرنے لگا تو میجر طارق حیران ہوئے کہ اس نے گولی کو چھوا تک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیکھو تو سہی بلٹ اندر تو نہیں ہے۔ نرسنگ اسسٹنٹ خود بھی ایک جی دار انسان تھا، ملنسار، خوش طبیعت، ہمہ وقت مستعد، ہر دم تیار، کارگل آپریشن ہی میں بعدازاں اس کا پیر ضائع ہوا۔ اپنی دلیری اور خدمت پر اسے تمغہ جرأت دیا گیا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس نے ہنستے ہوئے میجر طارق کو تسلی دی ’’سر! گولی اندر ہوتی تو آپ یہاں تک نہ پہنچتے۔‘‘
معلوم ہوا کہ گولی ہیلمٹ کے ایک سر کو چیرتی ہوئی، سر کے بالائی حصے کو زخمی کرکے دوسرے سرے سے گزرگئی۔ اگر اندر رہ جاتی تو آج ہم میجر طارق کو شہید کے لقب سے یاد کررہے ہوتے۔ ہیلمٹ کا جائزہ لیا تو واقعی اس میں دو سوراخ تھے اور مزید گولیوں کے بے تاحاشا نشانات ۔ آج کل میجر طارق اپنے اس ہیلمٹ کی تلاش میں ہیں جو وہیں کہیں عاقل پوسٹ اور ’’حسن راج‘‘ کی بلندیوں کے درمیان رہ گیا۔ شاید کوئی اٹھالایا ہوکہ کنٹرولڈ سٹور کی گئی چیزوں کی تعداد پوری رکھنی ہوتی ہے نا! او رسٹیبل ہیلمٹ کنٹرولڈ سٹور آئٹمزمیں سے ہے!!(سانحہ کارگل کے اصل حقائق پر مبنی کتاب ’’ استغفراللہ جنٹلمین‘‘ کا ایک باب)