جوتشی فواد اور گھبرایا ہواعمران خان
لگتا ہے فواد چودھری نے سورج گرہن کے دوران سورج کی طرف دیکھ لیا تھا جس کا ان پر اثر ہوگیا، وگرنہ یوں بیچ چوراہے میں ہنڈیا کون پھوڑتا ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ فوادکے مطابق ابھی تو ایک اور سورج گرہن دسمبر میں بھی لگنا ہے، خدا جانے تب تک کیا ہو گا؟
سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت میں جا کر فواد چودھری ماہر فلکیات ِماہر علم نجوم اورجوتشی بن گئے ہیں، ستاروں کی چال، شدھ گھڑی، منحوس گھڑی کا انہیں پہلے سے اندازہ ہو جاتا ہے۔ پہلے وہ عید کے چاند کی تاریخیں دیتے تھے، اب حکومت کے خاتمے کی دینے لگے ہیں۔ وزیر اعظم ان سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی واپس لے لیں گے۔
اسد عمر کو تو خیر پہلے ہی کچھ معلوم نہیں ہوتا، اب انہیں فواد کی زبانی علم ہوا کہ انہیں جہانگیر ترین نے اور جہانگیر ترین کو انہوں نے فارغ کروایا ہے۔ یہ فارغ الوقت لوگوں کی قصے کہانیاں ہیں۔ کرونا وائرس سے لڑائی کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم سندھ کے وزیر اعلیٰ سے لڑ رہے ہیں اور ان کی کابینہ باہم جوتم پیزار ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ترین، اسد اور شاہ محمود قریشی پارٹی کے بڑے ہیں اور فواد جیسے چھوٹے بتا رہے ہیں کہ پارٹی کے بڑے پارٹی کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ فواد چودھری کے سہیل وڑائچ کو انٹرویو کی مثال اس معصوم بچے کی ہے جو کلاس ٹیچر کو امی ابا کی ہر بات بتا دیتا ہے!
فواد کے انٹرویو کا لب لباب یہ ہے کہ عید قرباں 31 جولائی کو جبکہ قربانی ساڑھے پانچ ماہ بعد ہوگی۔وہ شیخ رشید کی طرح میڈیا کی ڈارلنگ بننا چاہتے ہیں اور کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ان کا بس چلے تو اپنی ٹک ٹاک بناکر سوشل میڈیا پر ڈالنا شروع کر دیں۔معلوم کرنا چاہئے کہ فواد چودھری کامشیرکون ہے،وہ کون ہے جس سے مشورہ کر کے وہ ٹوئیٹ کرتے ہیں، پریس کانفرنسیں کرتے ہیں اور مفتی منیب سے لڑتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی تصویریں بتاتی ہیں کہ وہ یہ سب کچھ عمران خان کی مشاورت سے کرتے ہیں، مگر لگتا ہے کہ ان کے پیچھے مبشر لقمان ہے۔تبھی تو لوگوں کو عید کے چاند کے پیچھے لگا کو خودحکومت کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔خاکم بدہن، مگر لگتا ہے کہ فواد کو مفتی منیب کہ آہ لگنے والی ہے، شاکر شجاع آبادی نے کہا تھا
میڈی آہ دا اثر توں ڈیکھ گِھن سیں
فلک توڑیں ایہہ شعلے بھا دے بلنے
لیکن فواداپنی پوری کوشش کے باوجود روئت ہلال کمیٹی ختم نہ کروا سکے تو حکومت کیا خاک ختم کروائیں گے۔
یہ سب فواد چودھری کا کیا دھرا ہے کہ وزیر اعظم کو خود اپنے دفاع کے لئے قومی اسمبلی میں تقریر کرنا پڑی ہے۔کیا عمران خان واقعی فیل ہو گئے ہیں، کیا انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ فیل ہوگئے ہیں؟ ان کی کشتی ڈوبنے والی ہے، وہ فارغ ہونے والے ہیں، کیا پی ٹی آئی کا ڈبہ گول ہونے والا ہے؟
عمران خان پہلی مرتبہ اپنی تقریر میں اپوزیشن کو چور نہیں کہاہے۔ بس یہ بتایا کہ نواز شریف اور آصف زرداری ان کا نہیں کسی اور کا مسئلہ ہیں۔ لیکن کیا کریں کہ یہاں بھی وہ ایک اور یو ٹرن لے گئے ہیں کیونکہ وہ تو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ایک ایک کو پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا۔ پھر کہتے تھے کہ شاہد خاقان عباسی کہتا تھا کہ مجھے پکڑ لو، میں نے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا، اب واپس جا کر اس کا اے سی بھی اتاروں گا۔ آج بتارہے ہیں کہ ان کی کسی سے دشمنی نہیں ہے، ان کی ہو نہ ہو لیکن انہوں نے عوام کے ایک طبقے کو بالعموم اور بچوں کو بالخصوص،ضرور ملک میں سیاسی نظام کے تسلسل کا دشمن بنادیا ہے، اب عمران خان خود اپنے ہی بیانئے کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں، انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کرونا جیسی مصیبت سے کیسے جان چھڑوائے، وہ اسے اگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں، بس تقریریں کرسکتے ہیں۔ لیکن کیا کریں کہ کراچی طیارہ حادثے کا شکار ہونے والوں کے لواحقین سوشل میڈیا پر کہتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان آپ سے سوال ہوگا، آپ سے حساب ہوگا!
عمران خان کو اپنے بیانات میں تسلسل اور تضاد نہ ہونے پر اصرار کیوں ہے جب وہ خود کہتے تھے کہ یو ٹرن لینا عظیم لیڈر کی نشانی ہوتی ہے!یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ این سی او سی کا کام ختم ہونے سے پہلے وہ اس ادرے کوخراج تحسین کیسے پیش کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب سپریم کورٹ اس کے کاموں پر معترض ہے۔کیا این سی او سی کا کام صرف ڈیٹا کلیکشن تھا؟یہ کام تو کسی یونیورسٹی کے طالب علموں کا کوئی گروپ بھی کر کے دے سکتا تھا۔اب وزیر اعظم جن ایس او پیز پر عمل کرنے کے لئے وہ عوام کو اکسا رہے ہیں، عوام کو تو اس کا مطلب تک نہیں آتا،وہ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ یہ ایس پی او پیز کیا ہوتا ہے، جبکہ محلے کے ڈاکٹر ان کو سمجھاتے ہیں کہ اس کا مطلب سائنس آف پروٹوکول ہوتا ہے!