71فیصد کاروباری ادارے کیش فلو کے مسائل سے دوچار،اے سی سی اے
لاہور(پ ر)کووڈ 19- (COVID-19)کے مربوط اورمسلسل اثرات کے باعث اداروں کو بڑھتے ہوئے آپریشنل چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ادارے کے سائز سے قطع نظر، ملکی اورشعبہ کی سطح پر، وباء کے اقتصادی اور سماجی اثر ات میں اضافہ ہو ا ہے اور کاروباری اداروں کے ساتھ اکاؤنٹنسی کے پیشے کے لیے بھی چیلنجوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات کووڈ19-کے حوالے سے دی ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس(اے سی سی اے) کے عالمی سروے ’دی روڈ ٹو ریکوری (The Road to Recovery)‘ سے ظاہر ہوئی ہے۔مارچ 2020ء میں شائع ہونے والی پہلی رپورٹ کے تین ماہ بعد واضح ہونے والی تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتوں اور پالیسی سازوں کو کئی اہم مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسوسی ایشن نے دنیا بھر میں حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اقتصادی بحالی کے پیکیجز پر نظر ثانی کریں اور مستحکم و پائیدار ترقی کی واپسی ممکن بنائیں۔پاکستان میں، مجموعی صورت حال کی معمولات کی بحالی سست روی کا شکار ہے۔ سروے کے دوران، پاکستان میں، خوداْن کے یا اْن کے ادارتی شعبے کردار کے بارے میں پوچھے گئی خصوصی سوالات کے جواب میں شرکاء میں سے 55فیصد کی رائے میں ملازمین کی کارکردگی پر منفی اثر پڑا تھا جبکہ 48 فیصد ادارے، 6ماہ بعد ملنے والے مستقبل کے حوالے سے اہم مواقع سے طویل مدتی فوائد حاصل کرنے پر توجہ دے رہے تھے۔52 فیصد کے مطابق کسٹمرز نے خریداری روک دی تھی یا پھر کم کردی تھی۔
اور 71فیصد کے مطابق انہیں کیش فلو سے تعلق رکھنے والے مسائل کا سامنا تھا۔اس رپورٹ کے حوالے سے اے سی سی اے پاکستان کے ہیڈ سجید اسلم نے کہا:”جون کے مہینے کے لیے ہمارے ڈیٹا سے کیش فلو کے چیلنجوں کا اظہار ہو رہا ہے کیوں کہ پاکستان میں شرکاء کی نصف تعداد نے اِسے مسئلہ قرار دیا ہے۔مارچ میں کی گئی تحقیق سے اب تک، نئے ڈیٹا سے مالیات اور قرضوں کے حوالے سے زیادہ گہری تشویش ظاہر ہوئی ہے اور اس میں اگر عالمی اقتصادی حالات کو شامل کر لیا جائے تواِس کا مطلب ہے مزید مشکل معاملات سے بھی نمٹنا ہے۔“سجید اسلم نے مزید کہا:”متعدد اداروں کے لیے اِن اہم مسائل میں جس مسئلے کو مرکزیت حاصل تھی، اُن میں کسٹمر کی طلب کا خاتمہ تھا کیوں کہ نصف سے زائد شرکاء کے مطابق، پاکستان میں خریداری بالکل رک گئی تھی یا پھر بہت کم ہو گئی تھی۔اِس کا مربوط اثر یہ ہوا کہ نئی مصنوعات کاتعارف اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کو ملتوی کر دیا گیا جس سے سپلائی چین کے مسائل اور کسٹمرز کے آرڈرپورا کرنے کے مسائل میں اضافہ ہو گیا۔“پاکستان میں دیگر اثرات میں 72فیصد نے لچکدار ’ورکنگ فرام ہوم‘ کی حکمت عملی اپنائی جبکہ 42 فیصد نے سماجی فاصلے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے عملے کو روٹیشن کی بنیاد پربلانا شروع کر دیا۔47فیصد آپریٹنگ کاکاسٹ میں کمی کی حکمت عملی پر کام کر رہے تھے اور40 فیصدادارے کارکردگی میں بہتری کی مواقع تلاش کرنے کی غرض سے آرگنائزیشن پروسیسز کا جائزہ لے رہے تھے اور27 فیصدوباء سے متاثر ہونے والی آبادیوں کے حوالے سے اپنی سماجی ذمہ داری کو جائزہ لے رہے تھے۔سروے میں شرکاء سے سرکاری سکیموں کے مؤثر ہونے کے بارے میں بھی دریافت کیا گیااور،پاکستان سے تعلق رکھنے والے،ایک چوتھائی سے بھی کم شرکاء نے اکنامک اسٹمولس پیکیج (economic stimulus package) کوکارآمد قرار دیا۔پنی گفتگو کے اختتام پر سجید اسلم نے کہا:”وباء کے گہرے نتائج مرتب ہوئے ہیں جو سنہ 2020ء کے بعد بھی جاری رہیں گے لیکن یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ شرکاء پہلے سے تیاری کر رہے ہیں، طویل مدتی بنیادوں پر سوچ رہے ہیں اورساتھ ہی موجودہ صورتحال سے بھی نمٹ رہے اور کووڈ19-سے متاثر ہونے والی کمیونٹی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں بڑے پیمانے پر سوچ رہے ہیں۔“رپورٹ کے مصنف اور اے سی سی اے میں ہیڈ آف بزنس منیجمنٹ جیمی لیون نے رپورٹ میں بحالی کے مشورے پرتفصیل سے بیان کیے گئے اے سی سی اے کے روڈ میپ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:”اپنے ’روڈ میپ ٹو ریکوری‘میں ہم اداروں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ '3As' کو اپنائیں یعنی قلیل مدتی اور فوری بحران سے نمٹنے کے عمل (Act)کریں اور مسلسل عمل کریں؛ معلومات کے مختلف ذرائع کا تجزیہ کریں (Analyse) تاکہ درمیانی مدت میں بحالی کے راستے پر سفر شروع کیا جا سکے اور طویل مدتی بنیاد پر کس طرح حکمت عملی تیار کی جائے