جذبات پر قابو پائیں - جمہوریت بچائیں!!
سیاست میں برداشت ختم ہو جائے تو جمہوریت بال کھولے بین کرتی دکھائی دیتی ہے اور وہی کچھ ہوتا ہے جو لاہور کے ضمنی الیکشن اور اندرون سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں ہوا ہے۔ لاہور کے ایک صوبائی حلقے میں لڑائی جھگڑوں میں ایک جان گئی جبکہ اندرون سندھ دو جانیں گئیں متعدد زخمی ہوئے۔ پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں ضمنی الیکشن 17 جولائی کو ہونا ہیں مگر ابھی سے سیاسی درجہ حرارت بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ جھگڑے اور تصادم شروع ہو چکے ہیں۔ اللہ خیر کرے ہماری سابقہ روایات کے مطابق تو انتخابی نتائج کے موقعہ پر حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، جیتنے والے جب خوشی میں آپے سے باہر ہوتے ہیں تو ہارنے والے بھی طیش میں آ جاتے ہیں جس سے افسوسناک واقعات جنم لیتے ہیں۔ اندرون سندھ کے جن 14 اضلاع میں بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں وہ روایتی طور پر پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں چنانچہ پیپلزپارٹی نے ان میں سے بیشتر میں جھاڑو پھیر (کلین سویپ) کامیابی حاصل کی ہے۔ مخالفین نے اگرچہ الزام لگایا ہے کہ صوبائی حکومت چونکہ پیپلزپارٹی کی ہے اس لئے سرکاری مشینری استعمال کر کے، دھاندلی سے کامیابی سمیٹی گئی ہے، اگر یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو 18ء کے عام انتخابات میں کیا ہوا تھا؟ تب تو سرکاری مشینری پیپلزپارٹی کے ماتحت نہیں تھی، اگر یہ دلیل مان لی جائے تو سوات کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی کامیابی پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ اسی طرح ابھی سے یہ مان لیا جائے کہ پنجاب کے آمدہ ضمنی الیکشن میں بھی ن لیگ کے امیدوار جیتیں گے حالانکہ وہ تمام کے تمام تحریک انصاف کے منحرفین ہیں۔ اس لئے اچھی حکمت عملی تو یہ ہو گی کہ مخالفین کی طاقت کا درست اندازہ لگا کر آئندہ عام انتخابات کی تیاری کی جائے جو اگلے سال 2023ء میں متوقع ہیں۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے اپنے کارکنوں اور امیدواروں میں جمہوری جذبہ اور قوت برداشت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ جمہوریت کا مستقبل روشن ہو اور گزشتہ روز جو واقعات گھوٹکی، پنو عاقل، سکھر، مورو، نوابشاہ اور تھرپارکر میں ہوئے ہیں ان کا اعادہ نہ ہو۔ پر امن انتخابات ہی جمہوریت کی بقاء کے ضامن ہو سکتے ہیں۔
دوسرا اہم معاملہ موجودہ حکومت کا بجٹ اور ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ وفاقی بجٹ پیش کرتے وقت اور منظور کرتے وقت ٹیکسوں کے بوجھ میں گراں بار اضافہ ہوا ہے۔ بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یکلخت 13 بڑی صنعتوں پر دس فیصد کے حساب سے مزید 466 ارب روپے کے ٹیکس عائد کر دیئے اور لطیفہ یہ سنایا گیا کہ پہلی بار غریب عوام کی بجائے امیروں پر ٹیکس لگائے گئے ہیں، حالانکہ یہ ہاتھ گھما کر کان پکڑانے والی بات ہے یہ تمام ٹیکس منتقل عوام پر ہی ہوں گے۔ اگر آسان لفظوں میں کہا جائے تو یہ ملکی معیشت پر خودکش حملہ ہے اس کا پہلا مظہر تو سٹاک ایکسچینج کے حالات ہیں جو یکدم کریش کر گئی، ہزاروں حصص کی قیمتیں دھڑام سے گر گئیں اور حصہ داروں کے اربوں روپے ڈوب گئے، مزید تباہی سے بچنے کے لئے سٹاک مارکیٹ ہی بند کرنی پڑی جن صنعتوں پر دس فیصد اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے ان میں چینی، ٹیکسٹائل، کھاد، سیمنٹ، سٹیل، گیس، بنک، ایل این جی، کیمیکل، سگریٹ، آٹو موبائل شامل ہیں۔ ان پر ایک اچٹتی نظر ہی ڈالیں تو بتائیں کہ ان میں سے کون سی چیز ہے جو عام آدمی کے استعمال کی نہیں ہے۔ جب یہ مہنگی ہوں گی تو بوجھ کس پر آئے گا؟ اس بجٹ میں ایک اور شگوفہ پڑھنے کے لائق ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کر دیا مگر ان کی تنخواہوں پر پندرہ فیصد ٹیکس لگا دیا جبکہ انکم ٹیکس کی سلیب بھی کم کر دی ہے۔ یہ تو دو دے کر چار واپس لینے والی بات ہو گئی۔ گزشتہ روز حکومت اور ان کے حامیوں کی جانب سے اس بات پر خوشیاں منائی گئیں کہ چینی بنکوں کے کنسورشیم کی طرف سے 2-3 ارب ڈالر سٹیٹ بنک کو مل گئے ہیں۔ خوشیاں منانے والے اگر یہ بھی بنا دیتے کہ یہ خطیر رقم عطیہ یا امداد نہیں بلکہ قرض ہے جو بھاری منافع (سود) پر حاصل کیا گیا ہے تو خوشیاں منانے کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے بلکہ تشویش بڑھ جاتی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ملکی معیشت اس قابل ہے یا مستقل قریب میں ہو گی کہ یہ قرض اور اس سے پہلے کے سینکڑوں گنا زیادہ قرض ادا ہو سکیں۔ اگر ہم قرض ادا کرنے کے قابل نہ ہوں اور قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لئے بھی مزید قرض لینے پر مجبور ہوں تو سمجھ لیں کہ سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہونے کی منزل قریب ہی نہیں قریب تر اور ہمارا اس جانب سفر تیز سے تیز تر ہو گیا ہے۔ اب بچا کچھ نہیں تو عالمی منڈی میں کیا بیچنے نکلیں گے؟؟
مال و متاع و کوچہ و بازار بک گئے
قصرِ شہی میں جبہ و دستار بک گئے
جو وفا خریدنے آئے تھے شہر میں
بولی لگی تو سارے خریدار بک گئے
ہوش و حواس، عہد وفا، سجدہ و قیام
اے عشق! تیرے سارے شاہکار بک گئے