"روٹی کے دو نوالے ہیں مشکل سے دستیاب"

"روٹی کے دو نوالے ہیں مشکل سے دستیاب"

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 قومی اقتصادی کونسل نے توانائی بچت منصوبے کے تحت یکم جولائی سے ملک بھر کی مارکیٹس رات آٹھ بجے بند کرنے کی منظوری  دی ہے۔یہ ایسا فیصلہ ہے جس پر متضاد آرا سامنے آرہی ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا لائف سٹائل ہے۔پہلے توانائی بحران اور اس اہم فیصلے پر بات کرتے ہیں۔ حکومت نے توانائی بچت پروگرام تو پیش کر دیا ہے اب اگلا مرحلہ اس پر عمل درآمد کا ہو گا۔اس سلسلے میں حکومت کی معاونت دراصل ملک کو توانائی بحران سے نکالنے میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ملک میں کسی حکومت نے توانائی بچت کا کوئی منصوبہ بنایا ہو۔توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دکانیں جلد بند کرنا اس کا کوئی مستقل حل نہیں۔ملک کے تمام سرکاری اداروں کے لیے بجلی کے معیاری پنکھے، ایل ای ڈی بلبز اور توانائی کے مؤثر آلات کی خریداری کا پلان بنایا گیا مگر تاحال اس پر عملدرآمد شروع نہیں ہو سکا۔


بظاہر توانائی بچت منصوبہ وقت کی ضرورت محسوس ہوتا ہے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے توانائی کا شعبہ بہت زیادہ خسارے کا شکار ہے۔ اس کے پس منظر میں موجود وجوہات جن میں حکومتی سطح پر عدم دلچسپی، ملک میں موجود قدرتی ذرائع کے بجائے مہنگے تیل سے بجلی پیدا کرنا، چوری اور محکمانہ لوٹ کھسوٹ سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی المیہ ہے کہ توانائی جیسے تکنیکی شعبوں میں فیصلہ سازی کے عمل میں نان پروفیشنل ارباب اختیار شریک ہیں کہ ابھی تک گردشی قرضوں اور لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔
حکومت نے دن کی روشنی کا فائدہ اٹھانے اور توانائی بچت مہم کا جو فیصلہ کیا ہے اس پر ایک طبقے کی رائے ہے کہ  ہمیں اپنے معمولات میں تبدیلی لانی ہو گی۔اگلے مرحلے میں تاجر تنظیموں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔یہاں تو اب تاجر طبقہ کو مارکیٹ آٹھ بجے بند کرنے کا اقدام اس لیے گوارا نہیں کہ وہ رات گئے تک اپنا کاروبار چلائے رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، وہ جلد سونے اور جلد جاگنے کے عادی ہی نہیں رہے۔شہروں کے ساتھ ساتھ اگر دیہی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو دیہات میں بسنے والے اب بھی سورج نکلنے سے پہلے ہی معمولات زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور سورج غروب ہونے سے قبل اپنے معمولات ختم کر دیتے ہیں، یہ معمولات زندگی صرف دیہات میں ہی دیکھنے کو  ملتے ہیں۔تاہم پاکستان کے بڑے شہروں میں جہاں زندگی ترقی کر گئی ہے وہاں پر معمولات بدل گئے ہیں۔
ہمارا طرز زندگی پوری دْنیا سے الگ ہے۔ دوسرے طبقے کی رائے میں کاروبار آٹھ بجے بند کرنے سے تاجروں کو معاشی نقصان ہو گا۔رات جلد دکانیں بند کرنے سے ایسے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے اور ان کے لیے گھریلو معاشی مسائل حل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ہر حکومت اس سلسلے میں اب تک  ناکام ثابت ہوئی اور کوئی بھی حکومت تاجروں کو اس سلسلے میں دکانیں جلد بند کرانے کے لیے آمادہ نہیں کر سکی۔


پاکستان ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے یہاں لاکھوں افراد گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے ڈبل ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہیں اس وجہ سے گھر کے سربراہ کا مالی ضروریات  کو پورا کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں ہوتا اور اس کو رات گئے ضروری اشیاء ہی پوری کرنی پڑتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ اس کی مجبوری ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی  ملازمتیں ہیں جن کی ٹائمنگ رات کی ہوتی ہے اس  صورت میں  وہ لوگ کیا کریں گے، توانائی بچت پلان میں اس کا تو کوئی ذکر نہیں نہیں کیا گیا۔
 رات کے وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی اہم مسئلہ ہے تاحال اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جا سکی۔ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے پاس منصوبے تو بہت ہیں لیکن عمل درآمد کے لئے منصوبہ بندی کا فقدان ہے اس  وجہ سے ہم ترقی تو کر گئے ہیں لیکن منصوبہ بندی میں کمی کی وجہ سے بحران اور مشکلات میں گھرے رہتے ہیں۔کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے
بہت اچھی صفت ہے وقت کی پابندی کرنا بھی
سلیقہ ”واپڈا“ سے سیکھو بروقت آنے جانے کا 
ملک میں مہنگائی اس قدر ہو گئی ہے کہ جو لوگ ہفتے میں ایک دن دکان بند کرتے تھے وہ بھی چھٹی کے روز کچھ وقت کے لیے دکان یا کام پر چلے جاتے ہیں تاکہ زندگی کی گاڑی چل سکے۔ ان مسائل کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
روٹی کے دو نوالے ہیں مشکل سے دستیاب
مہنگائی اس قدر ہے کہ مر جائے آدمی

مزید :

رائے -کالم -