سیاسی طرز عمل اور معاشی صورتحال

 سیاسی طرز عمل اور معاشی صورتحال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جس طرح کسی بھی قوم کے لئے تاریخ نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ٹھیک اُسی طرح حکمران طبقات کے لئے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے ماضی میں بھی حکمران طبقہ مختلف طریقوں سے اپنے خیالات کا اظہار کراتے رہے۔اپنی خوبیوں کو ظاہر اور اپنی بدعنوانیوں،استحصال اور جرائم کو چھپاتے تھے۔ بادشاہوں اور آمروں کے دور میں حکومتیں مورخوں کو ملازم رکھا کرتی تھیں۔مورخ چونکہ ملازم ہوتے تھے اس لئے اُن کے فرائض میں شامل ہوتا تھا کہ وہ حکمرانوں کو مثبت انداز میں پیش کریں۔ اس سرکاری تاریخ میں باغیوں اور مزاحمت کرنے والوں کو  تو تاریخ سے نکال دیا جاتا تھا یا اُن کے کردار کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا تھا۔مثال کے طور پہ مصر کی قدیم تاریخ میں جنگوں میں صرف فتح کا ذکر ہوتا تھا شکستوں کے بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی تھی۔اسی طرح وہ حکمران کہ جن کو اُن کے جانشین پسند کرتے تھے اُن ناموں کو بادشاہ کی فہرست سے خارج کر دیا جاتا تھا۔


یہ تو میں تاریخ کے کچھ پہلوؤں پہ بات کر رہی تھی۔ اگر اب بھی موجودہ صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو اب بھی بہت سی باتوں میں اشتراک دکھائی دیتا ہے۔پہلے ادوار میں صرف لکھاری تھے پھر شاعر اور ادیبوں نے بھی سیاسی تحریروں میں اپنا کردار ادا کیا اور بہت سے شعراء ایسے تھے جو اپنی انقلابی شاعری سے عوام کو گرماتے تھے اور بہت سو کو اُس دور میں بھی باغی قرار دیتے ہوئے اُن کو سزائیں بھی دی گئی تھیں۔اسی طرح بہت سے شعراء نے بھی آمریت اور مختلف جمہوری ادوار میں قید و بند کی صعوبتیں بر داشت کیں۔اب چونکہ میڈیا کا دور ہے۔ایک دور تھا کہ جب ایک خبر پہ کئی کئی دن درکار ہوتے تھے مگر اب ایک خبر چند سیکنڈز میں ہی پھیل جاتی ہے۔
جیسا کہ میں نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بات کی ہے یہ کام صرف اُس وقت نہیں بلکہ اب بھی کیا دیا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی اچھائیوں کو پھیلاتی، کرپشن،اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کو چھپاتے ہیں مگر اس کے لیے طریقہ کار کچھ منفرد ہو چُکا ہے۔اس کے لیے اب نجی چینلز پہ ایڈز اور سوشل میڈیا کی ٹیمیں تشکیل دیتے ہوئے ہر سیاسی جماعت اُس سے فائدہ اُٹھاتی ہے۔


پاکستان کی مو جودہ معاشی صورت حال کا ہم موازنہ کریں تو اس وقت شہباز شریف جس طرح بھاگتے دوڑتے نظر آرہے ہیں مگر ماضی کی کی گئی خامیوں کو کبھی عیاں نہیں کیا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کوئی پہلی بار اقتدار میں نہیں آئی مگر اب  شاید کچھ بہتر کر دیں کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کی شاہ خرچیاں دیکھتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہا کہ عوام پہ بوجھ کم ہو کیونکہ پچھلے دنوں سینٹ چیئرمین کی مراعات کی ڈیٹیل جان کے ایک لمحے کے لیے یہ احساس آیا کہ اب ہم شاید ایک ترقی یافتہ ملک میں رہتے ہیں۔
ایک مزید معاشی استحکام کے لیے عسکری اور سیاسی قیادت ایک پیج پہ ہے یہ ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کونسل تشکیل دی گئی۔اس وقت پاکستان کا لاکھوں ایکڑ زرعی رقبہ غیر آباد ہے۔96لاکھ ہیکٹر رقبے میں سے 2لاکھ ہیکٹر قابل کاشت ہے۔لاکھوں ایکڑ صحرائی رقبہ غیر آباد ہے غیر آباد رقبہ بھی تھوڑا نم ہو اور اُس پہ ہل چلایا جائے تو قابل کاشت ہو سکتا ہے وہ غیر آباد زمین بھی قابل کاشت ہوسکتی ہے۔اب اس پلان کو پایہ تکمیل پہ پہنچانے کے لیے چند اہم اقدامات کا خیال رکھنا ہو گا۔
1:سرمایہ کاری میں رکاوٹ بننے والی پالیسیوں سے اجتناب اور ایسی پالیسیز بنائی جائیں جو شارت ٹرم ہوں۔


2:عام کسانوں نے سرکاری سطح پر جو زراعت کرنی ہے اُسے سہولیات فراہم کی جائیں کھادیں اور بہتر ادویات مناسب قیمتوں میں مہیا کی جائیں۔
کیونکہ جب کاشت کے دوران ان چیزوں کی ضرورت پیش آتی ہے مہنگے داموں یہ چیزیں کسانوں کو ملتی ہیں تو اُن سے پروڈیوس ہونے والی فوڈ آئیٹم پھر مجبوراً مہنگے داموں مارکیٹ میں بھیجنی پڑتی ہیں اور بنیادی خوراک بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جاتیں ہیں۔
اس پلان کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے حکومتی سطح پہ ان اہم پہلوؤں کا خیال رکھنا بے انتہا ضروری ہے۔
پاکستان 1958ء سے2019ء تک 22 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چُکا ہے مگر بدقسمتی سے آج تک معاشی پلان پہ خرچ ہونے کی بجائے یہ فند ترقیاتی کاموں پہ خرچ ہوتا رہا ہے اب اگر معاشی پلان بن رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں بہتری لا ئی جا سکے۔
نئے عالمی مالیاتی معاہدے کے لئے فرانس میں منعقد سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کرسٹنا اور جارجیوا سے ملاقات کی اور پاکستان کے معاشی نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔30جون معاہدے کی آخری تاریخ ہے۔ 2019ء سے اس معاہدے کا آغاز ہوا جو کہ اب تک صرف سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
پاکستانی معیشت کی استعداد کی بات کریں تو قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ملک ہے، اگر معاشی استحکام کی مربوط،پائیدار اور دیرپا حکمت عملی سے ان وسائل کے ساتھ استفادہ کیا جائے تو کوئی مشکل نہیں کہ ملک عزیز کو معاشی محرانوں سے نکالا جا سکے۔گب تک اس پلان کی جانب قدم نہیں اُٹھایا جائے گا تب تک قرضوں کے چنگل سے نکل کر خود انحصاری کی جانب پیش رفت ممکن نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -