حکومت، طالبان مذاکرات کا پہلا دور، امید افزا
تجزیہ چودھری خادم حسین
کالعدم تحریک طالبان کی شوریٰ کے وفد اور سرکاری کمیٹی کے درمیان پہلے بلاواسطہ مذاکرات کسی تلخی کے بغیر اختتام پذیر ہوئے اور آئندہ ملاقات کے لئے مزید حالات ساز گار بنانے کے ارادے اورعزم کے لئے اپنی اپنی قیادت سے مزید مشاورت کا فیصلہ ہوا، اب تک جو اطلاعات ملیں وہ بہتر ہیں اور اچھی امید لگائی جا سکتی ہے۔ ہمیں زیادہ غرض دونوں اطراف کے غیر سرکاری طور پر سرکاری موقف سے ہے کہ یہی باتیں درست اور باقی سب ’’سکوپ‘‘ ہیں جو درست اور غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ شاہد اللہ شاہد کے مطابق مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے اور جب تک مذاکرات جاری رہیں گے جنگ بندی بھی برقرار رہے گی۔ ان کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے اپنے طور پر یقین کا اظہار کیا اور قوم کو خوشخبری دینے کا پھر اعلان کیا۔ سرکاری کمیٹی کی طرف سے خاموشی والی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ البتہ گزشتہ روز وزیر داخلہ کو رپورٹ پیش کر دی گئی، جو وزیراعظم کی آمد پر ان کو آگاہ کریں گے اور غالباً مذاکرات کا اگلا دور حکومتی مشاورت کے بعد ہی طے ہو گا کیونکہ جو ابتدائی معاملات سامنے آئے ہیں ان کی روشنی ہی میں بات چیت نے آگے بڑھنا ہے۔
اب ذرا باخبر ذرائع والی خبروں کا جائزہ لے لیا جائے تو متفقہ خبر یہ ہے کہ جنگ بندی میں توسیع اور غیر عسکری قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہوا اور اب غیر عسکری قیدیوں کو الگ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گا، جہاں تک طالبان کی طرف سے خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی رہائی والے مطالبے کا تعلق ہے تو جہاں یہ خبر شائع ہوئی وہاں حکومتی ادارے کا موقف بھی چھپ گیا کہ فوج کے پاس ایسے کوئی قیدی نہیں ہیں۔ ادھر طالبان کی طرف سے فہرست مہیا کئے جانے کا دعویٰ ہے اس پر حکومت نے غور اور تحقیق کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ غیر عسکری قیدیوں کا جہاں تک تعلق ہے تو وزیراعظم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جو لوگ زیر حراست ہیں ان میں سے بے گناہ افراد کو رہا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، اس سلسلے میں تحقیق کی ضرورت ہے اور جو بھی نام کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے بھیجے گئے ان کے حوالے سے تحقیق کر لی جائے گی۔
یہ تو خوشگوار باتیں ہیں اب ذرا باخبر ذرائع والی خبروں پر بھی نظر ڈال لیں۔ ایک تو یہ مطالبہ سامنے آیا کہ وزیرستان میں فوج کی ہفتہ وار پٹرولنگ اور کرفیو ختم کیا جائے تاکہ لوگ آزادانہ پھر سکیں۔ اس کے علاوہ، طالبان کے ترجمان سے یہ بھی موسوم کی گئی بات ہے کہ سرکاری کمیٹی ہماری مہمان ہے اور سابق وزیراعظم گیلانی اور سابق گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادوں کو رہا نہیں کیا جائے گا کہ ان کی سندھ حکومت ان (ٹی۔ ٹی ۔پی) کے زیر حراست لوگوں کو تنگ اور ان پر تشدد کر رہی ہے۔
اب اگر شائع اور نشر ہونے والی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو صورت مختلف بنتی ہے جو یقیناًخوش کن نہیں حالانکہ اطراف کے موقف یا جو کچھ کہا گیا اس کی روشنی میں رجائیت ہی رجائیت نظر آتی ہے اور اسی کو مقدم بھی جاننا چاہئے کہ امن کی ضرورت بہرحال ہے، ویسے بعض سرکاری ذرائع اور وزراء کے بیانات تو یہ تاثر دیتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان سے بات منوانا بہت کٹھن ہے۔ حکومت تو ان کو قومی دھارے میں شامل کرنا چاہے گی جو اسی طرح ممکن ہے کہ وہ نہ صرف پُرامن رہنے اور شدت پسندانہ کارروائیوں کو ترک کر دیں، بلکہ روائتی قبائلی انداز کے اسلحہ کے سوا باقی سارا اسلحہ رکھ کر سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں تو پھر عام معافی پر بھی غور ہو سکتا ہے لیکن یہ خواہش پوری ہونا بہت ہی زیادہ مشکل ہے کہ اس کے لئے القاعدہ سے تعلق ختم کرنا اور غیر ملکی شدت پسندوں کو بھی روکنا ہو گا۔ یہ حضرات یقیناًکالعدم تحریک طالبان کے نظم و ضبط میں تو نہیں ہیں، اس لئے مذاکرات کی کامیابی اتنی بھی سادہ اور آسان نہیں ہے۔
معترض حضرات کو تو قیدیوں کا تبادلہ جیسی اصطلاح پر بھی اعتراض ہے کہ یہ تو ریاست سے ریاست کا مسئلہ ہوتا ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کے لئے طالبان از خود یہ قدم اٹھائیں اور حکومت اپنے طور پر تحقیق کرے اور جو حضرات سنگین مقدمات میں ملوث نہیں ان کو غیر مشروط طور پر رہا کرنے کی سوچ پیدا کی جائے ۔ ایک تجویز عام معافی سے متعلق بھی ہے تو اس پر بھی عمل ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے تمام پہلوؤں پر غور لازم ہو گا کہ اطلاق کب سے اور کیسے حضرات پر ہو گا اور کیا جو لوگ سزا یاب اور خطرناک قرار دیئے گئے ان کے لئے عام معافی کا اطلاق ہو گا یا نہیں؟ اور اگر ہو گا تو کن شرائط اور طریق کار کے مطابق ہو گا۔ یہ تمام سوالات موجود ہیں اور ان کا جواب بھی لازم ہے اس لئے بہت زیادہ تبصروں سے گریز لازم ہے۔ یوں بھی کچھ وقت تو بہرحال لگے گا۔ اللہ کرے شدت پسندی اور ڈرون حملے اسی طرح رُکے رہیں جیسے اب رُک گئے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار سعودی عرب کے ڈیڑھ ارب ڈالر کے حوالے سے وضاحت پیش کر کے گلا خشک کر رہے ہیں، ان کی باتوں کے حوالے سے خود کچھ کہنے کی بجائے باخبر اور حامی جنرل(ر) حمید گل کا یہ کہنا بہت معنی خیز ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے۔