فلمی صنعت کی زبوں حالی

فلمی صنعت کی زبوں حالی
فلمی صنعت کی زبوں حالی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملتان روڈ پر واقع ایشیاء کے تینوں بڑے فلم سٹوڈیوز باری ، شاہنواز اور ایورنیو سناٹوں کی لپیٹ میں ہیں۔ جہاں کبھی روشنیوں کی چکا چوند تھی ۔ شوٹنگیں ہوتی تھیں۔ا اداکاروں کی گہما گہمی تھی۔ اب وہاں اداسیوں کا راج ہے۔ شاہنواز سٹوڈیو تو ویئر ہاؤس میں تبدیل ہو چکا ہے۔ باری سٹوڈیو آسیب زدہ لگتا ہے۔ ایورنیو سٹوڈیو ز کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ اس صنعت کی بقاء کے لئے اگر حکومت نے کچھ نہ کیا تو خود فلمی صنعت نے بھی کچھ نہیں سوچا۔ اس صنعت نے بڑے بڑے اداکار، تکنیک کار، تخلیق کار، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز دئیے۔ جنہوں نے کامیاب ترین فلمیں بنائیں۔ جنہوں نے نہ صرف عالمی سطح پر شہرت پائی، بلکہ کم وسائل کے باوجود پاکستانی فلمی صنعت کو بھی زندہ رکھا اور ثابت کیا کہ وہ فلم کے کسی بھی شعبہ میں کسی سے کم نہیں۔ ہمارے گلوکاروں، شاعروں اور کمپوزرز نے بھی منوایا کہ وہ کانوں میں رس گھولنے والے گیت تخلیق کر سکتے ہیں۔ یہ ایسے گیت تھے جن میں سے کچھ کا چربہ بھارت نے بھی کیا۔ بدقسمتی یہی رہی کہ یہ انڈسٹری اپنے عروج پر پہنچ کر زوال کا شکار ہو گئی۔


پاکستانی فلمی صنعت نے ’’تیری یاد‘‘ سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ پھر فلمیں بنتی چلی گئیں اور یہاں تک کہ اُن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی۔ ضیاء الحق کے دور میں جب فلمسازوں کی رجسٹریشن کا قانون آیا تو اس سے ہی فلمی صنعت کی بدحالی کا آغاز ہوا۔ قانون اچھا تھا۔ رجسٹریشن کے اس قانون کے ذریعے صرف ایسے فلمسازوں کو فلم میکنگ کی اجازت دی گئی تھی جو فلم میکنگ کی کسوٹی پر پورا اترتے تھے، لیکن اس قانون کے خوف سے ایسے فنانسر بھاگنا شروع ہو گئے جو کالا دھن لے کر فلم میکنگ کرتے تھے۔ یہ بحران 1981ء میں شروع ہوا اور تواتر کے ساتھ 83ء تک جاری رہا۔ اس دوران سینما انڈسٹری بھی اسی بحرانی کیفیت سے دوچار رہی۔ سٹوڈیوز میں صرف اِکا دُکّا فلمیں بننے لگیں۔ 90ء ہی کی دہائی میں فلموں پرعروج آیا، لیکن علاقائی زبان کی فلموں میں تقسیم ہو جانے سے اسے بہت نقصان پہنچا۔ پنجابی میں تو فلمیں بن ہی رہی تھیں، پشتو، سندھی اور سرائیکی میں بھی فلمیں بننے لگیں۔ جس سے فلموں کا سرکٹ متاثر ہوا۔ فلموں کا بجٹ بھی بہت بڑھ گیا تھا۔ بلیک اینڈ وائٹ کی جگہ کلر فلموں نے لے لی تھی۔ آرٹسٹوں نے بھی معاوضے بڑھا دئیے تھے۔ اس لئے فلموں پر بہت زیادہ مالی بوجھ پڑ گیا۔ سرکٹ محدود ہو جانے کے باعث فلموں کی ریلیز پر ڈسٹری بیوٹرز کو بھاری مالی خسارہ ہونے لگا۔ سرحد یعنی خیبر پختونخوا میں صرف پشتو فلم چل رہی تھی۔ سندھی فلموں نے سندھ میں اردو کے سرکٹ کو متاثر کیا ہوا تھا۔سرائیکی زبان کی فلمیں جنوبی پنجاب میں جگہ بنائے ہوئے تھیں۔ اس لئے اردو میں بننے والی فلموں کا سرکٹ صرف کراچی تک اور پنجابی کا پنجاب تک محدود ہو کر رہ گیا۔ چونکہ فلموں پر لاگت بہت زیادہ آ رہی تھی اور ریکوری کا ذریعہ محدود سرکٹ کی وجہ سے کم ہو گیا تھا۔ اس لئے پروڈیوسرز اور فنانسرز فلمی صنعت سے بھاگنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے دیگر کاروبار شروع کر دئیے۔ رفتہ رفتہ فلم ڈسٹری بیوٹرز کے سب سے بڑے مرکز رائل پارک کی رونقیں بھی ماند پڑنا شروع ہو گئیں۔ جہاں کبھی فلموں کے ڈسٹری بیوشن آفس تھے وہاں اب پرنٹنگ پریسوں کے دفاتر ہیں یا پریس لگے ہوئے ہیں جو چند ڈسٹری بیوٹرز رہ گئے ہیں ان کے دفاتر میں بھی سناٹا طاری ہوتا ہے۔ فلم کی تقسیم کا کوئی بزنس نہیں ہو رہا۔ ہر طرف خاموشی دکھائی دیتی ہے۔


یہی حال سینما ہاؤسز کا بھی ہے۔ میکلوڈ روڈ جو لاہور میں سینما انڈسٹری کا سب سے بڑا مرکز تھا، اب وہاں بہت سے سینما پلازوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں یا پھر وہاں ڈرامہ ہاؤسز قائم ہیں۔ لاہور کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں اور تحصیل کی سطح پر بھی یہی صورت حال ہے۔ وفاق میں ایک وزارتِ ثقافت بھی ہے، جس کا کام ہی اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت اور دیکھ بھال ہے، لیکن اس وزارت کا فلم کے حوالے سے رویہ بڑا ’’سائیلنٹ‘‘ اور افسوس ناک ہے۔ اُس کے وزیرنے کبھی فلم پر کوئی پالیسی بیان نہیں دیا اور نہ ہی اس کی بحالی کے لئے کبھی کوئی پالیسی سامنے آئی۔ شیخ رشید جب اس وزارت کے وزیر تھے تو اس کی بھلائی کے لئے ایک آدھ بیان ضرور دے دیا کرتے تھے ،جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ فلمی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ بھی فلمی صنعت کے لئے کچھ نہ کر سکے۔ ہم نے بہت وقت گنوا دیا۔ پاکستانی فلمی صنعت کو حکومتی سہارے کی ضرورت ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم فلمی صنعت کو ’’صنعت‘‘ کا درجہ دیں۔ ہر حکومت اپنی صنعتوں کی ترقی کے بارے میں سوچ بچار کرتی ہے۔ پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ فلمی صنعت کے بارے میں بھی اگر ترجیحی بنیادوں پر اس پرغور کیا گیا تو یہ صنعت ختم ہونے سے بچ سکتی ہے۔

مزید :

کالم -