قومی معیشت، ڈالر کی اڑان اور الیکشن2018ء
پاکستان 210 ملین سے زائد نفوس پر مشتمل ایک ایسا ملک ہے، جس میں آبادی کی اکثریت یوتھ پر مشتمل ہے اس کی قومی پیداوار 1060 ارب ڈالر پر مشتمل ہے۔
اس حوالے سے دنیا میں پاکستان کا 25 واں نمبر ہے یعنی قومی پیداوار کے حجم کے اعتبارسے پاکستان 169 اقوام میں 25ویں نمبر پر ہے 2017ء میں پاکستان کی معیشت نے 5.28 فیصد کی شرح سے گروتھ ظاہر کی۔
پاکستان کی اقتصادیات یعنی قومی پیداوار میں 60 فیصد حصہ سروس سیکٹر ، 21 فیصد صنعت اور 19 فیصد زراعت کا ہے۔گویا پاکستان کی معیشت تنوع اور مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے۔
6 کروڑ سے زائد افراد کام کرتے ہیں، یعنی قومی پیداوار کے عمل میں فعال حصہ لیتے ہیں کار آمد ہیں۔ کام کرتے ہیں ان میں 42 فیصد زراعت، 35 فیصد خدمات اور 23 فیصد صنعتی شعبے کے ساتھ وابستہ ہیں 6 فیصد ایسے افراد بھی ہیں جو کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں کام نہیں ملتا ہے، یعنی انہیں بے روزگاری کا سامنا ہے 2017ء میں قومی معیشت نے برآمدات کے ذریعے 22 ارب ڈالر کمائے جبکہ 48 ارب ڈالر سے زائد رقم درآمدات پر خرچ کی گئی درآمدات کا 28 فیصد چین سے منگوایا گیا۔
بیرونی قرضوں کا حجم جون 2017 ء میں 83 ارب ڈالر تھا جو بڑھتے بڑھتے 89 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے اور جون 2018ء تک مزید بڑھنے کے قوی امکانات ہیں یہ ہماری قومی معیشت کا اجمالی جائزہ ہے۔
سردست صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے حسابات جاریہ (کرنٹ اکاؤنٹ) میں 10.82 ارب ڈالر کا خسارہ ہے گزرے آٹھ مہینوں میں (جولائی 2017ء سے فروری 2018ء ) ہم نے 42.6 ارب ڈالر کی خریداری (امپورٹ ) کی لیکن ہماری کمائی (ایکسپورٹ ) صرف 19.4 ارب ڈالر ہوئی گویا ہمیں بیرونی تجارت میں 23.2 ارب ڈالر کے خسارے / گھاٹے کا سامنا ہے یہ خسارہ کیسے پورا ہو گا کیونکہ مرکزی بینک کے خزانے میں تو ڈالر 12 ارب سے بھی گھٹ چکے ہیں۔
یہ صورتِ حال گھمبیر ہے زرمبادلہ کے آمدن و اخراجات میں اس قدر تفاوت اور گھاٹا خاصا پریشان کن ہے۔ ہمارے بیرونی قرضے 89 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں اس مد میں 2017-18ء کے مالی سال کے دوران ہمارے ذمے 6 ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہیں۔ اب تک 2.4 ارب ڈالر ادا کر دئیے گئے ہیں 3.6 ارب ڈالر 30 جون تک ادار کرنے ہیں یہ کیسے ہو گا۔
ابھی تک معلوم نہیں تجارتی خسارہ اس پر زرمبادلہ کے پست ذخائر اور پھر 3.6 ارب ڈالر کی ادائیگی کیسے ممکن ہو گی۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے ہمارے ذمہ داران اور کارپردازان پہلے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں اور خادم حسین رضوی کی مہم جوئی کے ساتھ نمٹتے رہے پھر پانامہ منظر عام پر آیا۔ اب سپریم کورٹ اور نیب کی پیشیاں قومی منظر پر چھائی ہوئی ہیں۔
پچھلے دنوں ڈالر نے ایک جست لگائی اور 115 روپے تک جا بیٹھا گزشتہ 8 دسمبر 2017ء میں بھی روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی ہو گئی تھی گزشتہ 3 ماہ کے دوران بھی روپے کی قدرمیں 10 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے ۔
حالیہ قدر زر میں کمی ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث ہمارے قرضوں میں بیٹھے بٹھائے 10 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے، یعنی 89 ارب ڈالر کے قرضوں میں 900 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔
ہمارے حکام آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے وقت انکی شرائط قبول کرتے ہیں انکے مطابق ہماری کرنسی ابھی بھی OVER VALUED ہے اس لئے ڈالر 125/120 روپے کا ہونا چاہئے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ جون 2018 کے بعد ہمارے ذمہ داران قدر زر میں مزید گراوٹ کریں گے۔ ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا ۔ ہماری کرنسی اور بے قدر ہو جائے گی۔
گزشتہ سال ہم نے 3500 ارب روپے اکٹھے کئے۔ یعنی ہماری مجموعی قومی وصولیوں کا حجم 3500 ارب روپے تھا، جس میں سے 1482 ارب روپے قرضوں کی مد میں ادا کئے گئے یعنی کل وصولیوں کا 42.36 فیصد قرضوں کی مد میں خرچ ہو گیا اس سال صورتِ حال اور بھی زیادہ نازک اور پریشان کن ہو چکی ہے پاور سیکٹر کے 900 ارب روپے کا گردشی قرضہ اور خسارے میں چلنے والے قومی اداروں ( پاکستان سٹیل ملز، واپڈا ، پی آئی اے وغیرہ) کے 500 ارب روپے کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں یہ سب اخراجات بیک جنبشِ قلم ہو جاتے ہیں۔ یعنی کھو ہ کھاتے میں چلے جاتے ہیں۔
ان حالات میں قومی معیشت کی صورتِ حال مزید خطرناک ہو جاتی ہے جب اس سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ سازی بھی نہ کی جارہی ہو ۔ ہماری قومی سیاست ، افتراق و انتشار میں گھری ہوئی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ انتظامیہ اور دیگر متعلقہ ادارے ایک گومگو کی صورتحال کا شکار ہیں عدالتوں کے فیصلے "زبان زد عام" ہیں پوری قوم بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں 65 ملین افراد انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور اتنے ہی افراد یعنی 65 ملین لوئر مڈل کلاس یعنی غربت کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ لوئر مڈل کلاس فی الاصل غربت ہی ہوتی ہے گویا 21 کروڑ کی آبادی میں 13 کروڑ انسان غربت یا بہت زیادہ غربت کا شکار ہیں۔
ایسے حالات میں روپے کی قدر میں کمی عوام کے لئے بلائے جان ثابت ہو گی۔ ہم نے 2017ء میں کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد پر 419 5. ارب ڈالر خرچ کئے زراعت اور اس سے متعلق اشیا پر 7.124 ارب ڈالر خرچ کئے یعنی ہماری یہ درآمدات تو ہر حالت میں مہنگی ہونگی پیٹرولیم اور پیٹرولیم مصنوعات پر بھی قدر زر میں کمی کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بجلی و گیس کے نرخوں میں گرانی پیدا کرے گا گویا مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہونا 100 فیصد یقینی ہے عام لوگوں کی قوت خرید میں کمی ’’حکومت وقت‘‘ کی پزیرائی میں کمی کا باعث بنے گی قوم الیکشن 2018ء کی طرف گامزن ہے قومی افق پر افتراق و تفریق نے بے یقینی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے انتہائی اہم معاملات پر فیصلہ سازی کا عمل معطل نظر آرہا ہے قوم میں اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے ایسے میں قدر زر میں کمی اور پستی مہنگائی کا جو طوفان لانے جارہی ہے وہ سیاسی درجہ حرارت میں بھی اشتعال پیدا کرے گی جس کے نہ صرف جاری سیاسی صورتِ حال پر اثرات مرتب ہوں گے، بلکہ الیکشن 2018 ء کے متوقع نتائج بھی زیروزبر ہو سکتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈالر کی اڑان اسی مقصد کے لئے ترتیب دی گئی ہو ۔ ذرا سوچئے۔