واجد ضیا کا بیان قلمبند 3اضا فی دستاویزات ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست منطور
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،آئی این پی ) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیور(نیب)کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کا بیان قلمبند کرلیاجب کہ احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے قطری خط اور 3 اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست منظور کرلی،مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ واجد ضیا اپنی رائے دے رہے ہیں،جے آئی ٹی نے عمران خان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا اور واجد ضیا عمران خان کا بیان لیے بغیر ان کی پٹیشن کے ساتھ جمع دستاویزات کا متن پیش کر رہے ہیں۔ منگل کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی۔ کارروائی کے دوران جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کا بیان قلمبند کیا گیا۔سماعت کے دوران نیب نے قطری شہزادے کے خط اور تین اضافی دستاویزات کو بطور شواہد پیش کرنے کی درخواست جمع کرائی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے قطری شہزادے کے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط ، برٹش ورجن آئی لینڈ اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کے خط کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنادیا۔نیب نے استدعا کی تھی کہ 17 جولائی 2017 کو قطری شہزادے حمد بن جاسم کا واجد ضیا کو لکھا گیا خط، برٹش ورجن آئی لینڈ کے اٹارنی جنرل آفس کا واجد ضیا کو لکھا گیا خط اور واجد ضیا کو برٹش ورجن آئی لینڈ سے رابطے کا اختیار دینے کا خط پیش کرنا چاہتے ہیں۔واجد ضیا نے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ لینڈ رجسٹری ریکارڈ کے مطابق نواز شریف نے 1993 سے 1996 تک دو فلیٹس خریدے جب کہ ملزمان خود اعتراف کرتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا اور جب فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا گیا تو حسین نواز طالبعلم تھے۔ واجد ضیا نے کہا کہ تمام ملزمان مانتے ہیں کہ فلیٹ نمبر 16 صرف نواز شریف کے زیر استعمال رہا اور میاں شریف نے فلیٹ صرف اس وقت استعمال کیا جب وہ علاج کے لیے برطانیہ گئے تھے۔ واجد ضیا نے کہا کہ ملزمان نے دو ٹرسٹ ڈیڈز جمع کرائی اور جے آئی ٹی کے مطابق دونوں ٹرسٹ ڈیڈ کا صفحہ نمبر 2 اور 3 ایک جیسا تھا جن پر تاریخیں تبدیل کی گئیں۔ واجد ضیا کے مطابق ملزمان نے ٹرسٹ ڈیڈ پر اوور رائٹنگ کر کے 2004 کو 2006 بنایا جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ گواہ اپنی رائے دے رہا ہے۔استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ 2006 آف شور کمپنیز سے متعلق قانون سازی کا اہم سال تھا،نئی قانون سازی کے بعد بیئرر شیئرز کی ملکیت چھپانا ممکن نہیں تھا۔واجد ضیا نے کہا کہ سپریم کورٹ میں دی گئی نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھجوائی، ریڈلے کی رپورٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے جس کے بعد مریم نواز کو طلب کیا گیا اور انہوں نے دو ٹرسٹ ڈیڈز جمع کرائیں جو بقول ان کے اصلی تھیں۔ واجد ضیا نے کہا کہ فرانزک ٹیسٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ مریم نواز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ٹرسٹ ڈیڈز بھی جعلی ہیں جب کہ مریم نواز، حسین اور کیپٹن(ر)صفدر نے جعلی دستاویزات پر دستخط کر کے سپریم کورٹ میں پیش کیں۔ واجد ضیا نے مزید کہا کہ حسن نواز نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی یہی کاپیاں عدالت میں پیش کیں، حسن اور حسین نواز کی طرف سے اسٹیفن مورلے سے لی گئی قانونی رائے جامع نہیں تھی جب کہ مورلے نے ٹرسٹ ڈیڈ اور دیگر متعلقہ دستاویزات کو دیکھے بغیر رائے دی۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ مورلے کی رائے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن ضروری نہیں تھی اور اس کے مقابلے میں درخواست گزار عمران خان کی طرف سے جمع کرائی گئی قانونی رائے تفصیلی تھی۔مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے عمران خان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا اور واجد ضیا عمران خان کا بیان لیے بغیر ان کی پٹیشن کے ساتھ جمع دستاویزات کا متن پیش کر رہے ہیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس