پروفیسر خالد حمید کا قتل۔۔۔!
20مارچ 2019ء بروز بدھ تقریباً ساڑھے آٹھ بجے صبح گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں شعبہ انگریزی کے پروفیسر جناب خالد حمید مرحوم کو ان کے ایک سٹوڈنٹ خطیب حسین نے بہیمانہ طریقے سے چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا، اس واقعہ کے بعد جب ملزم سے پوچھا گیا کہ اس نے یہ واردات کیوں کی؟ تو اس نے کہا کہ: مقتول اسلام کے خلاف باتیں کرتا تھا۔
ملزم کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر لبرل اور مذہبی طبقات کے درمیان بہت بڑی جنگ چھڑ گئی، لبرلز نے کہا : یہ واقعہ مذہبی طبقے کی دہشت گردی ہے۔
مذہبی طبقے نے ملزم کو غازی و مجاہد کے القاب دینے شروع کر دیئے۔پھر ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں کوئی ٹیچر کسی جگہ کلاس روم میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کابیہودہ مذاق اُڑا رہاتھا ۔کہاگیا کہ یہ خالد حمید کی ویڈیو ہے،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ویڈیو میں موجود آدمی خالدحمید نہیں،بلکہ کوئی اور تھالیکن اس جعلی ویڈیو کا سہارا لے کر اس قتل کو جائز قرار دینے اورحقائق کو مسخ کرنے کی بودی کوشش کی گئی،جو سوشل میڈیا کا طرہ امتیاز ہے۔
اس کالم میں ناموں کے ساتھ مستند تحقیقات پیش کی جا رہی ہیں تاکہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔
مرحوم کے ایک بھائی جو کہ آج کل سعودیہ میں ہوتے ہیں، انہوں نے ملاقات میں بتایا کہ وہ ایک اعلی درجے کے دیانت دار انسان تھے، وہ جب بھی سعودیہ سے ان کے پاس رقم بھیجتے تو وہ پہلی فرصت میں اسے مطلوبہ جگہ صرف کر کے ایک ایک پائی کی تفصیل لکھ کر انہیں رسیدبھیج دیتے، پروفیسر مرحوم کے بھائی نے بتایا کہ پروفیسر حمید مرحوم اہلِ خانہ کو قرآن حکیم ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کیا کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ فقط تلاوت سے تمہیں ثواب تو مل جائے گا، مگر قرآن تمہارے اندر جو فکری تبدیلی لانا چاہتا ہے وہ نہیں آ سکے گی۔ان کے دوسرے بھائی جو کہ شہر کے بہت بڑے فزیشن ڈاکٹر ہیں، جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ اس وقت مسجد میں نماز عشاء ادا کرنے جا رہے تھے، انہوں نے بتایا کہ میرا بھائی پورے خاندان کا سہارا تھا، ہم مصروف لوگ ہیں، تو سب ضروری کام انہی کو بتاتے اور وہ احسن طریقے سے سرانجام دے دیا کرتے تھے، ہمیں ان پر اندھا یقین تھا، وہ دینی مدارس کے ساتھ تعاون کرتا تھا اور غریبوں کے گھروں میں نلکے لگوا کے دیا کرتا تھا۔جب گورنمنٹ ایس ای کالج کے ان کے رفقاء کار سے معلومات حاصل کی گئیں تو ان کا کہنا تھا: مرحوم کو یہاں کالج میں ڈیوٹی کرتے تیرہ سال گزر گئے مگر ان سے ہمیں کسی بھی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہے۔
انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ عاشق رسول پروفیسر خالد فرید صاحب نے کہا : وہ ایک ذمہ دارر، وقت کا بہترین پابند اور دفتری امور کا ماہر انسان تھا، جو بھی دفتری کام ان کے ذمے لگاتے وہ منٹوں میں کر کے دے دیا کرتے تھے۔
جب کالج کے طلبہ سے بات ہوئی تو پتہ چلا: مرحوم ان کے پسندیدہ ٹیچرز میں شامل تھے، تمام طلباء نے ان سے بے حد محبت کا اظہار کیا اور بہت زیادہ تعریف کی۔کالج کے سبھی لوگوں نے گواہی دی کہ مرحوم ہر جمعہ کو، اس مقدس دن کے احترام میں، باقاعدہ سفید سوٹ اور بلیک واسکٹ پہن کے آیا کرتے تھے جب ڈائریکٹر کالجز نے کالج کے پرنسپل اور تمام ڈیپارٹمنٹس کے ہیڈز سے اس سلسلے میں میٹنگ کی تو ببانگ دہل کہا :Khalid Hameed Was a great teacher۔
چلیں ایک منٹ کے لئے تصور کرلیں کہ ان کے بھائی ،دوستوں اور طلبہ کی طرف سے ایسی شہادتیں آنا فطری عمل ہے، لیکن آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے، لڑائی جھگڑے سے دور، پانچ وقت کے نمازی، روزانہ صبح قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے، دل کی بیماری سے قبل بکثرت روزے رکھنے والے شخص تھے۔سعودی عرب میں چھ سالہ قیام کے دوران کئی حج اور عمرے بھی کئے، جبکہ ایک حج اپنی والدہ محترمہ کی معیت میں کیا،جس کی تصویریں بھی ریکارڈ پر ہیں۔وہ اکثر نماز جمعہ جامع مسجد رحمانیہ میں خطیب اہل سنت حضرت علامہ قاضی غلام ابوبکر صاحب کی اقتداء میں ادا کیا کرتے تھے۔
ان کے محلے کی مسجد کے امام قاری محمد قاسم صاحب جو کہ گزشتہ بیس سال سے اس مسجد کے امام ہیں، انہوں نے بتایا کہ مرحوم روزانہ باقاعدگی سے ان کے پیچھے نمازیں ادا کیا کرتے تھے،بلکہ کچھ لوگوں نے مسجد میں درود و سلام پڑھنے پر جب اعتراض کیا تو مرحوم نے روکنے والوں سے ناراضی کا اظہار کیا، وہ ہر ماہ مسجد میں ایک ہزار چندہ دیا کرتے تھے، رمضان المبارک کے موقع پر مسجد میں صفیں خرید کر دیتے اور تعمیرات کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔
امام صاحب نے بتایا کہ جب میں عمرے پہ جانے لگا تو انہوں نے مجھے پانچ ہزار روپے بطورہدیہ دیے۔
اہلِ محلہ سے ملاقات کی گئی تو سب نے اس پر اتفاق کیا کہ وہ ہمارے دکھ سکھ کا ساتھی تھا، مسجد میں اکٹھے نماز ادا کیا کرتا تھا، اس کی اونچی آواز تک کسی نے کبھی نہیں سنی۔محلے میں صفائی کرنے والوں کی خاموشی سے مدد کر دیا کرتا تھا، ریڑھی سے سامان وغیرہ خریدتا تو چار پیسے اوپر دے دیا کرتا تھا۔
مفتی محمد کاشف صوبائی ناظم تنظیم المدارس جنوبی پنجاب نے بتایا :ان کے جامعہ کا ایک طالب علم جو کہ اب دورہ حدیث کر چکا ہے، مرحوم اس کے ساتھ دینی تعلیم کے حصول کے لئے بہت زیادہ تعاون کیا کرتے تھے، اسے ہر ماہ ایک ہزار روپے عطیہ دیا کرتے تھے، بوقت ضرورت تعلیمی سفر کے لئے دو بیگ بھی خرید کر دیئے، انہوں نے اس طالب علم سے وعدہ کیا تھا کہ جلد ہی وہ اسے ضرورت کی اہم دینی کتب بھی خرید کر دیں گے،مگر اس سے قبل ہی انہیں قتل کردیاگیا۔
قاری غلام عباس قمر مہتمم جامعہ حسنین کریمین (اہل سنت بریلوی)کا کہنا ہے کہ پروفیسر خالد حمیدہمارے مدرسے کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے تھے اور ہر سال جامعہ میں ہونے والی اجتماعی قربانی میں حصّہ شامل کرتے تھے۔حال ہی میں مرحوم نے بیٹے کی شادی کی تھی، جب ہم ان کی بہو کے والد سے ملے جو کہ پکے سچے عاشق رسول ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ مرحوم نادار لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ تعاون کیا کرتے تھے، مگر کبھی بھی انہوں نے زبان سے اس کا تذکرہ نہیں کیا، ان کی ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کی اس خوبی کا پتہ ان کے اہلِ خانہ سے چلا۔
اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مذہبی انسان تھے، لیکن پھر بھی مذہب کے نام پر قتل کئے گئے ۔