پنجابی زبان کیسے ترقی کرسکتی ہے؟
یہ امر خوش آئند ہے کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور صوبائی وزیر اطلاعات صمصام بخاری پنجابی زبان کی ترقی کے حوالے سے دلچسپی لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
گورنر چودھری محمد سرور کے ساتھ ایک آدھ ملاقات میں پنجابی زبان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر مکالمہ بھی ہوا اور انہوں نے یقین بھی دلایا کہ تحریک انصاف کی حکومت اس حوالے سے اقدامات کرے گی۔ ظاہر ہے وہ مصروف آدمی ہیں اور زبانی باتیں یاد رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے ،لیکن اتنا ہی بہت ہے کہ انہوں نے پنجابی زبان میں دلچسپی کا اظہار تو کیا۔ ورنہ یہاں تو ایسے ایسے لوگ حکومت میں براجمان رہے ہیں، جنہیں اس دھرتی نے جنم دیا اور اس دھرتی کے لوگوں نے حیثیت سے بڑھ کر نوازا، لیکن انہیں اس دھرتی کی زبان اور ثقافت سے خدا واسطے کا بیر رہا۔ اب چونکہ وزارت اطلاعات و ثقافت کا قلمدان صمصام بخاری کے پاس ہے، جن کا تعلق اس خانوادے سے ہے، جس کی برکت سے اس خطے میں تصوف کی خوشبو کے ساتھ ساتھ خدمت انسانی کے مظاہر بھی دکھائی دیتے ہیں۔
دونوں شخصیات کا ذکر اس لئے لازم تھا کے گزشتہ دنوں گورنر ہاؤس میں پنجابی زبان کی ترقی کے لئے بنائے گئے ادارے پیلاک کی جانب سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب پنجابی لُغت کی رونمائی کے حوالے سے تھی۔
اس ماحول میں جہاں پنجابی زبان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، پنجابی لُغت کا سامنے آنا بڑی بات ہے۔ تقریب کے مقررین نے اس لُغت کو زبان کے فروغ کے لئے اہم سنگِ میل قرار دیا۔ اس حوالے سے جن لوگوں نے شب و روز کا فرق مٹا کر محنت کی وہ تمام مبارکباد کے مستحق ہیں۔
پنجابی لُغت کے اجراء کے حوالے سے اس تقریب کے خاص مہمان ضیاء شاہد تھے۔ جہاں دیگر مقررین نے تصویر کا ایک ہی رُخ دیکھا وہیں ضیاء شاہد نے تصویر کے تمام رُخ بیا ن کئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ محض لُغت شائع کر دینے سے یہ سوچ لینا کہ اب پنجابی زبان کی ترقی کا خواب تعبیر کی طرف سفر شروع کر دے گا خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ لُغت محض ایک مسودہ ثابت ہو گی، جسے طاق پر رکھ کر فراموش کر دیا جائے گا۔
مجھے ضیاء شاہد کی اس رائے سے ہر گز اختلاف نہیں۔ انہوں نے بالکل درست فرمایا کے محض کتابیں چھاپ دینے سے کوئی زبان کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ پنجابی صحافت کا دِیا اپنے لہو سے روشن کرنا پڑتا ہے۔ ضیاء شاہد نے بھی ہر ممکن حد تک اس دیے کو روشن رکھا،لیکن بد قسمتی سے حکومت کی عدم دلچسپی اور سیاستدانوں نے تیز ہوا کا کردار ادا کرتے ہوئے اس دیے کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں، کبھی پنجابی زبان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی اس خطے کی ثقافت کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔
میں چودھری سرور اور صمصام بخاری سے پُر امید ہوں کہ وہ پنجابی زبان کے لئے اپنا کردار ادار کریں گے۔ وزارتِ اطلاعات، خواہ اس کا تعلق مرکز سے ہو یا پنجاب سے، اگر وہ پنجابی جرائد و رسائل کے حوالے سے اپنے فرض سے غافل رہے گی تو یہ دیا اپنی لَو بر قرار نہیں رکھ پائے گا۔ مَیں اسے پنجاب کی بڑی بد قسمتی ہی قرار دوں گا کہ یہاں پنجابی اخبارات کے لئے صرف5 فیصد اشتہارات کو کوٹہ مقرر کیا گیا ہے۔
یہ کوٹہ موجودہ سپیکر صوبائی اسمبلی جناب پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں طے پایا تھا، لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے پنجابی اور اس کی زبان کے ساتھ گویا سوتیلوں سا سلوک کیا اور آج یہ 5 فیصد اشتہارات بھی ڈمی اخبارات کا پیٹ بھر رہے ہیں، ایسے وقت میں اربابِ اختیار کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔
اگر اب بھی پنجابی اخبارات کو اُن کا جائز حق نہ ملا تو پھر یہ زبان اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ پنجابی کو سکول کی سطح پر رائج کیا جائے اور اسے نصاب کی زبان بنایا جائے۔
اگر یہ مشکل ہے تو پھر کم از کم اتنا ضرور کیا جائے کہ اسے میٹرک تک لازمی مضمون کی حیثیت دے دی جائے۔ موجودہ حکومت سے ہمیں بڑی اُمیدیں ہیں، پنجابی زبان سے محبت کا فرض اس حکومت کو نبھانا ہے۔ اگر یہ لوگ بھی اپنی ماں بولی کا قرض اُتارنے میں ناکام رہے تو یقین مانیے تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔