اقوام متحدہ میں جمہوریت؟

اقوام متحدہ میں جمہوریت؟
اقوام متحدہ میں جمہوریت؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اقوام متحدہ کی  جنرل اسمبلی میں 193 ممبر ہیں جبکہ اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ صرف جائزہ لے سکتی ہے اور بحث کر سکتی ،سفارشات مرتب کر سکتی ہے بین الاقوامی امن کے لیے، بین الاقوامی حفاظت کے لیے ملکوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے انسانی حقوق ،بین الاقوامی قانون اور ملکوں کے درمیان ثالثی کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی صرف بحث کر سکتی ہے جبکہ اصّل طاقت سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبرز کے پاس ہے ان میں سب سے بڑی طاقت ویٹو کا اختیار ہے جس کو استعمال کر کے وہ کسی بھی قرارداد کو ویٹو کر سکتے ہیں اس لیے کوئی بھی فیصلہ ان پانچ مستقل ممبرز کی مرضی کے بغیر نہیں لیا جا سکتا لہٰذا تمام نان مستقل ممبرز   راضی ہوں لیکن ان پانچ ممالک میں سے کوئی ایک بھی راضی نا ہو تو کوئی بھی قرارداد پاس نہیں ہو سکتی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی شکل میں بد ترین ڈکٹیٹر شپ   نافذ ہے لیکن سوائے ایران کے کوئی بھی ملک اس نظام کے خلاف بولتا نظر نہیں آتا کوئی نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو ختم کر کے تمام اختیارات  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو دے دیئے جائیں ،ویٹو کا اختیار ختم کر دیا جائے اور 5 ملکوں کی بد ترین آمریت کو ختم کر کے تمام ملکوں کو برابر کے اختیار دے دیے جائیں،  تنقید امریکہ  پر تو ہوتی ہے کے وہ  اقوام متحدہ کے ذریعے تمام دنیا کو کنٹرول کرتا ہے لیکن ان ممالک کے سربراہان جو کنٹرول ہو رہے ہیں، ان میں شعور کب آئے گا۔ اقوام متحدہ میں ڈکٹیٹر شپ نہیں جمہوریت کا نعرہ اب تک نہیں لگا ،کوئی آواز تو اٹھائے کوئی اپنا حق تو مانگے مگر افسوس کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ ایران  نے آواز اٹھائی اس کو مثال بنا دیا گیا، ایران واحد ملک ہے جو فلسطین میں حماس کی مدد کر رہا ہے ، حزب اللہ کی مدد کرتا ہے اور  اسرائیل کو للکارتا ہے ، وہی ملک لیکن ظلم ستم کی چکّی میں پس رہا ہے اور ہم سب چپ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ امریکا کے وزیر خارجہ mike pompeo نے ایران سے نئی نیوکلیئر ڈیل کے لیے جو شرائط رکھیں ان میں سے چند یہ ہیں
1)ایران حزب اللہ اور حماس کی مدد بند کرے
2)ایران اسرائیل کو دھمکیاں دینا بند کرے
اس کے باوجود کہ ایران نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن سے مکمل تعاون کیا پھر بھی امریکا نے معاشی پابندیوں کو دور جدید کے محلق ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور ایران پر معاشی پابندیاں لگا دیں جس کے نتیجہ میں ایران سے تیل کی فروحت ساٹھ فیصد تک کم ہو چکی ہے۔ یورپ جس نے ایران کے ساتھ ڈیل میں رہنے کا عندیہ دیا تھا وہ بھی اپنی کمپنیز کو ایران کے ساتھ کاروبار کرنے پر مائل نہیں کر سکا کیوںکہ امریکا نے تنبیہ کی تھی کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والے کوئی بھی کمپنی امریکا میں کاروبار نہیں کر سکے گی، امریکا ایران کے مقابلے میں بہت بڑی معیشت ہے لہٰذا کوئی بھی ملٹی نیشنل کمپنی اس صورت حال میں ایران کے ساتھ کاروبار نہیں کرے گی ،امریکا، چین اور بقیہ دنیا کو فری ٹریڈ کا درس دیتا ہے اور خود اسی ٹریڈ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے تو کوئی امریکا کے خلاف بولنے والا نہیں ،امریکا انتہائی آرام سے پراپیگنڈا  کی جنگ بھی جیت رہا ہے ،افسوس کہ امریکا نے تجارت کو جنگی ہتھیار بنایا اور کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر کر رہا ہے جب کہ ہم امریکا کی پڑھائی پٹی ’کیمیائی ہتھیار‘  تک ہی محدود ہیں ،وقت آگیا ہے دنیا اس ہتھیار کے استعمال پر بھی پابندی لگائے۔
کیوں کہ پاکستانی سعودی عرب کے کیمپ میں ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح کبھی ceto اور cento کا رکن بن کر امریکا کے کیمپ میں تھا، پاکستان آج تک ایران کے حق میں کھل کر نہیں کھیل سکا،  اس کی وجہ سعودی ڈالربھی ہوسکتے  ہیں۔
اقوام متحدہ سے ڈکٹیٹرشپ کو نکالنے کے لیے ہر کسی کو آواز اٹھانی چاہیے اور ایران اور فلسطین کے لیے ہم نہیں بولیں گیں تو کشمیر کے لیے بھی پھر ہمارے علاوہ کوئی اور نہیں بولے گا.

.

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

.

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔ 

مزید :

بلاگ -