کیا کورونا وائرس کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا؟ سائنس کی روشنی میں حقیقت جانئے
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس پھیلنے کے بعد سے ایک سازشی نظریہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے کہ یہ وائرس پھیلا نہیں پھیلایا گیا ہے۔کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ وائرس چین کی کسی لیبارٹری میں تیار کیا جا رہا تھا اور وہاں سے حادثاتی طور پر پھیل گیا اور کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی چینی معیشت کو نقصان پہنچانے کی سازش ہے۔ تاہم اب تک ہونے والی سائنسی تحقیقات ان دونوں قسم کے لوگوں کو غلط ثابت کر رہی ہیں اور بتا رہی ہیں کہ کورونا وائرس کسی لیبارٹری میں تیار ہی نہیں ہوا۔ فوربز کے مطابق امریکہ کی طرف سے چین پر اور چین کی طرف سے امریکہ پر الزام لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے وائرس تیار کرکے پھیلایا، کیونکہ انسان جھوٹ بولتے ہیں، الزام لگاتے ہیں لیکن وائرس جھوٹ بولتے ہیں نہ الزام لگاتے ہیں۔ ایک چیز جو انسانوں اور وائرس میں مشترک ہے وہ جینیاتی مواد ہے اور وائرس کے جینیاتی مواد سے بخوبی پتا چلایا جا سکتا ہے کہ یہ کیسے تیار ہوا اور کیسے انسانوں میں منتقل ہوا۔ چین اور امریکہ سمیت مختلف ممالک کے سائنسدان اب تک اپنی تحقیقات میں واضح کر چکے ہیں کہ یہ وائرس چمگادڑ سے کسی ایسے دوسرے جانور میں منتقل ہوا جس کا گوشت ووہان کی مارکیٹ میں فروخت ہوتا تھا اور پھر اس دوسرے جانور سے یہ انسانوں میں منتقل ہوا۔
26فروری 2020ءکو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے دو سائنسدانوں ڈیوڈ ایم مورینز اور پیٹر ڈیسزیک کی تحقیقاتی رپورٹ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی۔ انہوں نے اس تحقیق میں بتایا کہ کورونا وائرس چمگادڑ میں پائے جانے والے وائرس سے مشابہہ ہے۔ اس وائرس نے پہلے کسی نامعلوم جانور کو متاثر کیا۔ اس جانور کا گوشت کسی انسان نے کھایا اور یہ اس انسان میں منتقل ہو گیا۔ اس کے بعد برطانیہ، چین اور دیگر ممالک کے سائنسدانوں تحقیقات میں بھی کورونا وائرس انسانوں میں پھیلنے کا لگ بھگ یہ سبب بیان کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر کورونا وائرس امریکہ یا چین کی کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہوتا تو اس کے جینیاتی مواد سے سائنسدانوں فوری پتا چلا لیتے کہ یہ مصنوعی وائرس ہے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب تک کسی ایک بھی سائنسی تحقیق میں اس کا شبہ تک ظاہر نہیں کیا گیا چنانچہ انسانوں کے ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات محض الزامات ہی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔