جب عبداللہ حسین نے کراچی کے ہوائی اڈے پر رسالے میں نظم پڑھنے کے بعد شاباش کا خط لکھا

جب عبداللہ حسین نے کراچی کے ہوائی اڈے پر رسالے میں نظم پڑھنے کے بعد شاباش کا ...
جب عبداللہ حسین نے کراچی کے ہوائی اڈے پر رسالے میں نظم پڑھنے کے بعد شاباش کا خط لکھا

  

 مصنف: زاہد مسعود

 قسط:8

”شاملات“ نسرین انجم بھٹی کا تیسرا پنجابی مجموعہ کلام ہے مگر یہ مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد شائع ہوا اور اس کو نسرین انجم بھٹی کے غیر مطبوعہ کاغذات کے پلندے سے برآمد کیا گیا۔ جو ان کی ہمشیرہ پروین نے پنجابی ادبی بورڈ کی سیکرٹری پروین ملک کے حوالے کر دیا تھا۔ کاغذات کے اس پلندے میں نسرین کی بہت سی نظمیں غزلیں، کافیاں ، گیت پنجابی اور اُردو زبان میں ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے۔ مجھے بھی یہ کاغذات دیکھنے کا اتفاق ہوا ان میں سے نسرین کا ایک پورا مجموعہ ”شاملات“ برآمد کرنا ایک انتہائی دشوار کام تھا جو مشتاق صوفی پروین ملک اور امجد سلیم منہاس کی نسرین کے ساتھ محبت کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ ”شاملات“ ان کی نظم بھی ہے جسے کتاب کا عنوان بنایا گیا ہے اور اس کی املاءکو نسرین کے شاعری کے تناظر میں صحیح سباق و سباق میں رقم کرنا مشتاق صوفی کا کمال ہے جس کے لیے وہ داد کے مستحق ہیں۔ 

نسرین انجم بھٹی کے کاغذات کے اس پلندے کے مطالعے میں ان کے ریڈیائی فیچر اور اردو نظموں کے اقتباسات بھی موجود ہیں جن کو منضبط شکل میں پیش کرنے کے لیے ان کی کتاب ”شاملات“ ایک راہنما اصول بھی ثابت ہو گی کیونکہ نسرین انجم بھٹی کا اپنا خط کافی شکستہ تھا۔ نیز وہ اپنی نظموں کو پرچیوں کی شکل میں تحریر کر دیتی تھیں اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر کئی کئی دن محنت کرنے کی عادی تھیں۔ یہ ان کا سٹائل تھا جس کی وجہ سے ان کا بہت سا کام سامنے نہیں آ سکے گا حالانکہ ان کا طرزِ زندگی ایک کل وقتی شاعرہ جیسا تھا۔ انہوں نے بہت لکھا کیونکہ وہ ہمہ وقت عام لوگوں کے درمیان رہتی تھیں چونکہ ان کے موضوعات بھی سراسر عوامی تھے لکھنے کے لیے آمادہ رہتی تھیں لہٰذا وہ ہر وقت اس حوالے سے محسوس کرتیں اور پھر نوٹس لیا کرتی تھیں بعدازاں جب بھی ان کو موقع ملتا وہ اپنے محسوسات کو جو نوٹس کی شکل میں ان کے پاس ہوتے اسے نظم یا کسی بھی تخلیقی صنف میں ڈھال لیتی تھیں۔ ”شاملات“ میں شامل زیادہ تر شاعری چونکہ ان کے مسودات سے لی گئی ہے لہٰذا ان کا معیار ”نیل کرائیاں نیلکاں“ اور اٹھے پر تراہ“کے لیول کا نہیں کیونکہ مذکورہ دونوں کتابوں کی تکمیل نسرین کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی جبکہ شاملات کو یہ موقع حاصل نہ ہو سکا۔ موضوعاتی سطح پر اور تخلیقی سطح پر ان کی اس کتاب میں شامل نظموں کو اگرچہ نسرین کے اسلوب کی نظمیں بھی قرار دیا جا سکتا ہے مگر ان کی تکمیل کو نسرین کی توجہ اور یکسوئی نہ مل سکی۔

نسرین انجم بھٹی بطور اُردو شاعرہ 

نسرین انجم بھٹی نے اروو اور پنجابی زبان میں شاعری کی، وہ دونوں زبانوں میں اظہار پر دسترس رکھتی تھیں۔ اُن کی اُردو نظموں کا ایک مجموعہ ”بن باس“ اکتوبر1994ءمیں شائع ہوا جبکہ ان کی بہت سی اردو نظمیں غیر مطبوعہ ہیں۔ ”بن باس“ پر اردو کے سینئر ترین ادیبوں اور شاعروں نے اظہار خیال کیا۔ 

عبداللہ حسین کہتے ہیں:

”سولہ سترہ سال پیچھے کی بات ہے، میں پاکستان کے مختصر دورے کے بعد واپس جانے کیلئے کراچی کے ہوائی اڈے پر جہاز کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ وقت گزاری کی خاطر ایک رسالہ پڑھنے لگا۔ نسرین انجم بھٹی کی ایک نظم سے میں اس قدر متاثر ہوا کہ وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے انہیں شاباش کا خط لکھ دیا۔ اب اتنے برسوں کے بعد نسرین کی نئی شاعری کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اس عرصے کے اندر نہ صرف زبان اور محاورے کی تشکیل میں، بلکہ الفاظ اور جذبات کے باہم میل کی وضع کاری میں کس قدر ترقی کی ہے۔ یہ ایسے عوامل ہیں جن کے بغیر شاعری نہ دل کو پکڑ سکتی ہے نہ دماغ کو، اور نہ ہی کوئی ایسی صدا پیدا کر سکتی ہے جو آدمی کی کوکھ پہ اثرانداز ہو۔ نسرین کی طویل نظم ”بن باس“ اس اعلیٰ صداکاری کا نمونہ ہے۔ اگلے 17برس میں ان کی ترقی کی رفتار یہی رہی تو ان کی شاعری آفاق کو گرفت میں لینے کے قابل بھی ہو جائے گی۔ “

( جاری ہے )

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -