نسلِ انسانی کو صدیوں تاریکی اور جہالت میں پھینکنے میں یونانی فلاسفہ کا بھی ہاتھ ہے

مصنف:لطیف جاوید
قسط:28
یونانی فلسفے کے زوال کے اسباب
یہ جاننے کے لئے کہ یونانی فلسفہ کو زوال کیوں آیا پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اِس نے ترقی کیوں کی تھی؟ یونانی فلسفہ کے عروج کے دور کا مطالعہ ہم کر چکے ہیں۔ اس میں 3 خصوصیات ہمیں نمایاں نظر آتی ہیں۔معقولیت پسندی ، تحقیق پسندی اور استفہامیت یعنی سوالات گری۔ یہ قدریں یونانی فلسفے کے زوال کے دورمیں پامال نظر آتی ہیں۔ میرے نزدیک یونانی فلسفے کے زوال کے اسبا ب حسبِ ذیل ہیں ۔
۰ اول یہ کہ فلسفہ کا آ غاز تھیلس سے یہ کہہ کر ہوا تھا کہ یہ کائنات ایک مادی مشین ہے۔اور یہ سبب و مسبب کے ضابطوں پر چل رہی ہے کسی آسمانی ہستی یعنی دیوی دیوتا کے تابع نہیں۔ ارسطو تک تمام فلاسفہ اسی کے قائل تھے۔ لیکن ارسطو کے بعد فلویہودی اور اسکندر افرودیسی نے خدا کی ذات کو عقل و حکمت سے بالا ہے اور سب قدرتوں کا با عث ہے ،یہی نظریہ نو فلاطونیت والوں نے اپنایا۔یوں تھیلس کا نظریہ رد ہوا ۔اور یہ امر یونانی فلسفہ کے زوال کا باعث بنا۔
۰ دوم یہ کہ یونانی فلاسفہ اپنے لیکچروں میں تحقیق پسندی اور استفہا میت کی تلقین کرتے رہے اور تقلید پسندی سے منع کرتے رہے ا ور ان کے شاگرد اِنہیں اپناتے رہے ، تو یونان میں پہ در پہ فلسفی پیدا ہوتے رہے۔ ارسطو کے بعد فلاسفہ میں معقولیت ،تحقیق پسندی اور استفہامیت کا رواج کم ہو گیا۔نئی سوچ اور فکر معدوم ہو گئی۔تنقیدی نگاہ کی جگہ تقلید پسندی نے لے لی،سوالات گری اور تفکر سے دوری ہو گئی۔تویونان سے فلسفہ کی روح بھی پرواز کر گئی۔
۰ سوم یہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ یونانی فلاسفہ کی ایک سوچ بھی یونانی فلسفہ کے زوال کی ذمہ دار ہے۔ وہ یوں کہ یہ لوگ عقل کو عقیدہ سے برتر سمجھتے تھے لیکن ساتھ ہی ذہن کو مادہ سے برترخیال کرتے تھے۔ کیونکہ یہ مثالیت پسند تھے۔ عقیدہ پرستی اورمثالیت پسندی دونوں ایک ہی شے یعنی قیاسی منطق سے جنم لیتی ہیں۔ ذہن اور خداکی ہم آہنگی سے عقیدہ پرستوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا اگر ذہن مادہ سے برتر ہے تو تا بت ہوا کہ عقیدہ بھی مادہ اور عقل سے برتر ہے۔ گویامابعدالطبیعیات، طبیعیات پر حاوی ہے۔ اِس سے وہ فلسفہ کو مذہب کی لونڈی منوانے اور عقل پر برتر ی دینے میں کامیاب ہو گئے۔ یوںیونانی فلاسفہ کی مثالیت پسندی، یونانی فلسفہ کے زوال کا باعث بن گئی۔
۰ چہارم یہ کہ یونانی فلسفہ کے زوال کا سبب ان فلاسفہ کی ایک غلطی ہے جس کی نشاندہی راجر بیکن اور برٹرینڈ رسل نے بھی کی ہے۔ اور عجیب بات ہے کہ یہ کوتاہی بھی تمام یونانی فلاسفہ سے ہوئی کہ یہ ذاتی مشاہدے اور حسّی ادراک سے کام لینے کے بجائے پہلے سے طے کردہ کلیات پر حقائق(یعنی قیاسی منطق) کو توڑ مروڑ کر سچ ثابت کرتے رہے۔ یہ امرایک طرف یونانی فلسفہ کے تنزّل کا سبب بنا اور دوسری طرف سائنسی فکر پر قد غن لگانے کا باعث ہوا۔
اِن حقائق سے ثابت ہواکہ نسل ِ انسانی کو صدیوں تاریکی اور جہالت میں پھینکنے میں یونانی فلاسفہ کے نظریہ مثالیت پسندی اور حسّی ادراک سے حصولِ علم کے انکارکا بھی ہاتھ ہے۔
۰ پنجم یہ کہ یونانی فلسفہ کے زوال کی ایک وجہ تاریخی بھی ہے۔ دوسری صدی قبل مسیح میں اہل روم نے یونان پر قبضہ کر لیا اور یونان کے حاکم ہو گئے۔ یہ لوگ اس فلسفیانہ فکر اور سوچ سے عاری تھے جو اہلِ یونان کا خاصہ تھا۔اِن لوگوں کی فلسفہ اور فلاسفہ سے لاپروائی اور بے توجہی اور دل شکنی کی وجہ سے اہلِ یونان میں فلسفہ کی روح دم توڑنے لگی۔ ایک رویت کے مطابق یہ لوگ فلسفی ذہن کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صاحب ِ اقتدار کی دی گئی سہولیات یا مخا لفتو ں سے نظریات متاثر ہوتے ہیں۔ ایتھنز میں علم کی شمع انکساغورس نے حکومتی حمایت سے ہی روشن کی تھی۔ ارسطو کی علمی کامیابیوں میں اسکندرکی مہیا کردہ سہولیات کا بھی ہاتھ ہے۔اسکندر گیا تو ارسطو کو بھی اپنی اکیڈمی اور ایتھنز چھوڑنا پڑے۔پس یونان پر غیر فلسفی ذہن کا راج بھی فلسفہِ یونان کے زوال کا باعث ہے۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔