شروع میں ٹی وی خشک اور پھسپھسا سا تھا،رات 11بجے قومی ترانے کے بعد اگلے دن شام 5 بجے تک ٹی وی پر کپڑے کا غلاف چڑھا کرسنبھال دیا جاتا تھا 

 شروع میں ٹی وی خشک اور پھسپھسا سا تھا،رات 11بجے قومی ترانے کے بعد اگلے دن شام ...
 شروع میں ٹی وی خشک اور پھسپھسا سا تھا،رات 11بجے قومی ترانے کے بعد اگلے دن شام 5 بجے تک ٹی وی پر کپڑے کا غلاف چڑھا کرسنبھال دیا جاتا تھا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:59
شروع میں تو ٹی وی بھی بس یوں ہی خشک اور پھسپھسا سا تھا کہ ہوا ، نہ ہوا ایک ہی بات تھی۔ اس میں ہوتا ہی کیا تھا ! شام5بجے شروع ہوتا تھا۔ تلاوت اور ترجمے کے بعد نعت اور پھر بچوں کا اسلامی قاعدہ۔اس کے بعد بچے کھیل کود میں مصروف ہو جاتے تو ٹی وی پرکاریگروں اور ہنرمندوں کو برقی آلات ٹھیک کرنا اور خواتین کو گھریلو ٹوٹکے اور کھانا پکانا سکھایا جاتا تھا ۔ اس دوران بچے کھیل کود سے فارغ ہو کر واپس آجاتے تو کھانے کے بعد ان کو چند ہلکے پھلکے پروگرام ، کارٹون اور ایک دو انگریزی دستاویزی فلمیں دکھا کر بستر کی طرف روانہ کر دیا جاتا تھا ۔ 
اب بڑوں کی باری آتی تو ان کو کچے پکے کلاسیکی گانے ، طبی نسخے، کچھ سیاسی اور ادبی انٹرویو اور مختلف تفریحی پروگرام دکھائے جاتے تھے ۔ مذہبی تہواروں پر ٹی وی پر زیادہ قبضہ علما ءہی کا ہوتا تھا ۔ الیکشن کے دنوں میں حکومتی سیاست دان ٹیلی وژن پر خزانے کا سانپ بن کر براجمان ہو جاتے اور جی بھر کے مخالفوں کے لتے لیتے جبکہ اپنی حکومت کے مکمل کیے جانے والے منصوبوں کا بڑھا چڑھا کر چرچا کرتے۔ 
ریڈیو کے بر عکس ٹیلی وژن والوں نے تفصیلی خبریں سنانے کے لیے9 بجے کا وقت منتخب کیا تھا ۔ خبروں میں زیادہ تر وقت تو حکومت کی مد ح سرائی میں ہی گزر جاتا ، پھر کچھ ادھر اُدھر کی غیر ملکی خبریں بیان کر دی جاتی تھیں ۔ رخصت ہونے سے پہلے افراتفری میں موسم کا الٹا سیدھا حال اس طرح بیان کرتے تھے جیسے کسی پر احسان کر رہے ہوں۔ باہر بارش ہو رہی ہوتی اور خاتون بورڈ پر اشارے کر کر کے فرماتی تھیں کہ محکمہ موسمیات کی اطلاع کے مطابق آج کراچی اور اس کے گردو نواح میں موسم خشک اور گرم رہے گا ۔
اس کے بعد قوالی یا کلاسیکل موسیقی کے استاد اپنے قدر دانوں کو بٹھا کر ایک آدھ گھنٹہ نکلوا دیتے ۔ زیادہ تر لوگ اس وقت تک سو جاتے تھے ۔ پھر ٹی وی کو بھی نیند آجاتی تھی تو وہ بھی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر کوئی 11بجے تک رخصت ہو جاتا تھا، اور ہاں جاتے جاتے وہ قومی ترانہ سنانا نہ بھولتا تھا ۔ اگلے دن شام 5 بجے تک ٹی وی پر کپڑے کا غلاف چڑھا کرسنبھال دیا جاتا تھا ۔ دن کو ٹی وی دیکھنے کا خیال ہی احمقانہ سا تھا ۔ میں سوچتا تھا کہ شاید دن کو تصویریں صاف نہیں آتیں اور روشنی کی وجہ سے سگنل راستے میں ہی دھندلے پڑ جاتے ہیں ۔لیکن یہ سارا دن بند رہنے کے بعد اپنے وقت پر ہی شروع ہوتا تھا، 5 کم 5پر یہ مخصوص موسیقی سے اپنے کام کاآغاز کرتا ۔ ہاں سوموار کے دن ٹیلی وژن بھی تنخواہ دار ملازمین کی طرح ہفتہ وار تعطیل کرتا تھاکیونکہ وہ پانچ چھ گھنٹے روزانہ کام کرکے بہت تھک جاتا تھا نا بیچارہ ،یا شایدمحکمے والوں کی مشینری آرام طلب ہوجاتی تھی اور تھوڑا سکون مانگتی تھی۔ 
 صرف شام کو ٹیلی وژن چلنے کی یہ روائت بہت بعد میں جا کراس وقت ختم ہوئی جب اس پر پہلی دفعہ صبح کے پروگرام نشر کیے گئے۔ یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا ،خصوصاً خواتین میں کیونکہ وہ شوہروں اور بچوں کے جانے کے بعد فارغ ہو جاتی تھیں ۔ 
جب پاکستان کے بڑے شہروں میں اسٹوڈیو کھل گئے تو ہر اسٹیشن اپنے اپنے پروگرام تیار کرتا تھا ، اور اس کی ریکارڈنگ ایک ریل کی شکل میں دوسرے اسٹیشنوں کو بھیجا کرتا تھا ۔ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ جو ڈرامہ یا پروگرام آج کراچی میں چلا وہ اگلے دن لاہور اور اس سے اگلے دن کسی اور سٹیشن پر چلتا تھا۔
قومی نشریاتی رابطے پر پروگرام پیش کرنے کے تجربے تو شروع ہو گئے تھے اور کامیابی سے کسی بھی شہر سے خصوصی پروگرام نشر کیے جا سکتے تھے جو سارے شہروں کے ناظرین ایک ہی وقت میں دیکھتے تھے ۔ البتہ بین الاقوامی براہ راست رابطہ سن 70 کی دہائی کے اوائل میں آیا جب محمد علی کلے کی باکسنگ کا مقابلہ ساری دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی اسی وقت دکھایا گیا۔ یہ اس وقت یقیناً ایک بہت بڑی بات تھی۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -