جمہوریت کا ایک اور انتقام

جمہوریت کا ایک اور انتقام
جمہوریت کا ایک اور انتقام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جمہوریت نے ایک مرتبہ پھر ہمارے ملک میں انتقام لے لیا ہے۔ اس سے پہلے فروری 2008 ءمیں جمہوریت نے اپنی فعالیت دکھائی جب سوسائٹی اور وکلا ءبرادری کی بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں آٹھ سالہ آمریت کی سیاہ رات کا خاتمہ ہوا ، لیکن افسوس، پاکستانیوں کے لئے ایک ایسی صبح ِ کا ذب طلوع ہو گئی جس کے ملگجے سایوںنے روز ِ روشن کا چہرہ ڈھانپ لیا۔ پاکستان میں عوام کی حکومت ، جس کا مقصد عوام کی فلاح ہو، قائم ہونے کی بجائے غیر ملکی ثالثوں کا حمایت یافتہ این آراو زدہ ٹولہ ملک پر مسلط کر دیا گیا ۔ نااہل افراد کے اس ٹولے کے پاس آٹھ سالہ آمریت کے بعد ملک کو اصل جمہوری قدروں کے مطابق چلانے کی نہ تو خواہش تھی اور نہ ہی اہلیت۔ وہ جمہوریت کا اندھا انتقام تھا ۔جس کا نشانہ بڑی حد تک اس ملک کے عام شہری بنے۔
گزشتہ پانچ کی ”عوامی حکومت “.... جس کی بنیاد این آر او پر تھی۔ کے دوران نہ تو جمہوری قدریں یہاںجڑ پکڑ سکیں اور نہ ہی ہمارا ملک یا عوام اپنی زندگیوں میں سماجی یا معاشی تبدیلی کی کوئی جھلک دیکھ سکے۔ اس کی بجائے، انہوںنے ملک میں اتنی ناقص حکومت اور بد انتظامی دیکھی ،جس کی مثال اس ملک کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں سیاسی انارکی اور معاشی دیوالیہ پن کے عفریت منہ پھاڑے کھڑے تھے اور لوگوں سے جمہوریت جی بھر کے انتقام لے رہی تھی۔ چشم فلک نے کبھی اس ریاست میں عام آدمی کو اتنی مفلوک الحالی کا شکار نہیں دیکھا تھا کہ وہ دو وقت کی روٹی کا محتاج ہو چکا تھا، لوڈ شیڈنگ نے اُس کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ،جبکہ ملک تشدد اور لاقانونیت کی آگ میں جل رہا تھا۔ یہ بدترین حکومت اس لئے بھی تھی کہ اس کا بنیادی مقصد ہی چنداستحقاق زدہ افراد کی دولت کا تحفظ کرنا، اُن کی سیاسی قوت میں اضافہ کرنا اور ان کو لوٹ مار کے مزید مواقع فراہم کرنا تھے۔
چنانچہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اب ایک مرتبہ پھر جمہوریت نے انتقامی کارروائی کی ہے، تاہم اس مرتبہ ، شاید ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ، نسل در نسل حکمرانی کرنے والے خاندان اس زد میں آکر زمین بوس ہو گئے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کی پاکستان پیپلز پارٹی آج عملی طور پر قومی سیاسی افق سے غائب ہو چکی ہے۔ گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات ، جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھاری مینڈیٹ ملا ہے اور یہ پاکستان کی واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھری ہے، اس لئے بھی اہمیت کے حامل تھے کہ ان میں سیاسی میدان میں نووارد پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی قوت بن کر ابھری ہے جو ملک کے مستقبل کے سیاسی کینوس پر گہرے نقوش مرتب کرے گی۔ اگرچہ انتخابات کے بعد دھاندلی، غلط گنتی ، نتائج تبدیل کردینے اور دیگر بے ضابطگیوں کے واقعات سامنے آئے ہیں،لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں یہ الزامات ”معمول “ کا حصہ ہیں، اہم بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر انتخابات درست ہوئے ہیں، ٹرن آﺅٹ کافی اچھا رہا ہے اور اُس جماعت کو حکومت مل گئی ہے ،جس کے ہاتھوں اقتدار اکتوبر 1999ءکو ایک آمر نے چھین لیا تھا۔
 یہ اس ملک میں ہونے والی ایک اہم تبدیلی ہے۔ گزشتہ دو ادوار ، جو ادھورے رہ گئے تھے، کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کی قیادت اب زیادہ سمجھ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس کے پاس ملک کو درپیش سنگین مسائل سے نمٹنے کے لئے منشور بھی ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ جب یہ تیسری مدت کے لئے حکومت سنبھال رہی ہے تو ریاست اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے، چنانچہ اس کے سامنے اقتدار کوئی پھولوں کی سیج نہیںہوگی ،کیونکہ ملک کو داخلی اور بیرونی محاذوں پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ہمیں اس وقت یقینا مضبوط ، باصلاحیت اور فعال معاشی ٹیم کی ضرورت ہے ،جس میں پبلک سیکٹر سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور ماہرین شامل ہوں تاکہ وہ وفاقی اور صوبائی کابینہ کی معاونت کر سکیں۔ اس وقت کابینہ، جس کی تعداد مختصر ہونی چاہیے، کے سامنے توانائی کا بحران اور امن و امان کا مسلہ¾ اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے مسائل کا حل ملک کے اندر ہی ہے، چنانچہ ہمیں اسلام آباد کا کام واشنگٹن، لندن، دوبئی اور ریاض کو نہیں سونپنا چاہیے۔
 اس کا مطلب بیرونی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنا نہیں،بلکہ اپنے فیصلے خود کرنے کا مجاز ہونا ہے۔سنگین معاشی صورت ِ حال کے پیش ِ نظر ضروری ہے کہ دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے ہم اپنے اخراجات کنٹرول کریں ، افراط ِ زر پر قابو پائیں، جی ڈی پی کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے سامان ِ تعیش کی درآمد پر پابندی لگائیں۔ ہماری قومی زندگی کے اہم خدوخال خود انحصاری اور سادگی ہونے چاہئیں۔ ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرضے ہمارا سرمایہ نہیں ہیں، اُن کو استعمال کے بعد واپس کرنا ہے، چنانچہ ملنے والی امداد اور قرضہ جات کو مالی اور انسانی وسائل بڑھانے کے لئے بروئے کار لایا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ زرعی اور صنعتی پیداوار بڑھائی جائے ، بیمار پڑتی ہوئی کپڑے کی صنعت کا احیا کیا جائے اور اپنے غیر استعمال شدہ قدرتی ذرائع سے استفادہ کیا جائے۔
گزشتہ حکومت کے انجام سے سبق سیکھتے ہوئے نئی حکومت کو معاشرے کے ہر شعبے اور سرکاری اداروں سے ہر قسم کی بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوای عہدے سنبھالنے والوں، چاہے وہ منتخب ہوں یا غیر منتخب ، دفاعی ہوں یا سول افسران، کے لئے ضروری ہے کہ وی آئی پی کلچر ، مہنگی گاڑیوں اور بھاری اخراجات کرنے کی روایت سے کنارہ کشی اختیار کریں، یہ ملک ان لغویات کا مزید متحمل نہیںہوسکتا۔    
پاکستان مسلم لیگ (ن)معاشی جدت پذیری، سماجی تصور اور صنعتی ترقی کے منصوبوںکے لئے جانی جاتی ہے، چنانچہ اسے ملک کے تجارتی اور صنعتی مراکز کو سڑکوں اور شاہراہوں کے ذریعے باہم مربوط کرنا چاہیے۔ ریلوے کی بحالی بھی اہم ،لیکن کٹھن اقدام ہو گا۔ عوامی فلاح کے لیے بڑے بڑے منصوبوں ، جیسا کہ کراچی اور لاہور کے درمیان تیزرفتار ٹرین سروس، شہروںمیں میٹرو طرز کا نظام ، پینے کے صاف پانی کے منصوبے، صحت اور تعلیم کی سہولتیں، بجلی کی فراہمی اور دیہاتی اور گھریلو صنعت کو فروغ دینا شامل ہے، پر کام شروع کیا جائے۔ انتخابات کے دوران کی جانے والی تقاریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے طویل المدتی منصوبوں کے علاوہ درمیانے اور مختصر مدت کے منصوبے بھی رکھتی ہے۔ اس کواندازہ ہے کہ بجلی کی تقسیم اور بچت کی پالیسی کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
معاشی منصوبوں کے علاوہ ملک میں امن و امان کی فضا بہتر بنانے ،جنونیت اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے برداشت اور تحمل کے کلچر کا فروغ ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی میں ہمیں قائد ِ اعظم ؒ کے سنہرے اصول کو مد ِ نظر رکھنا چاہیے ”دوستی سب کے ساتھ، دشمنی کسی کے ساتھ نہیں“....ہمیںیہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بیرونی دنیا ہماری دشمن نہیںہے، ہمارا دشمن ہمارے درمیان ہی موجود ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان کے کچھ مسائل کی وجہ اس کی جغرافیائی پوزیشن بھی ہے۔ ہمیں دانائی سے کام لیتے ہوئے اس اہم جغرافیائی محل ِ وقوع کو اپنے فائدے میں ڈھالنا چاہیے۔ ہماری نئی قیادت کے سامنے یقینا یہ ایک اہم ٹیسٹ ہے کہ وہ ان مسائل سے کس طرح عہدہ براہ ہو تی ہے۔

نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔       ٭

مزید :

کالم -