پاکستان کا جوہری پروگرام بھارت سے آگے ہے

پاکستان کا جوہری پروگرام بھارت سے آگے ہے
پاکستان کا جوہری پروگرام بھارت سے آگے ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاک بھارت جوہری تحقیقاتی ادارے تقسیم ہند کے ساتھ ہی بن گئے تھے۔ ان اداروں کا فوری سبب جنگ عظیم دوم میں امریکی جوہری صلاحیت سے ناگا ساکی اور ہیرو شیما کی جوہری تباہی تھا۔ یہ پاک بھارت ادارے کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ مگر سقوط ڈھاکہ (1971ء) اور بھارتی جوہری دھماکے (1974ء) نے پانسا پلٹ دیا۔ سقوط ڈھاکہ کے المیہ، بھارتی جوہری دھماکوں سے بھارت کی جنوبی ایشیا میں اسلحی برتری نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپ کے اہم اور حساس ترین جوہری اداروں میں اپنی تحقیقاتی اہلیت، صلاحیت اور تجربات کا لوہا منوا چکے تھے۔ امریکی جوہری تحقیقاتی ادارے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو منہ مانگی، تنخواہ پر اپنا بتانا چاہتے تھے، مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اپنے دین و وطن سے محبت لازوال تھی اور ہے، انہیں یورپ میں مالی آسودگی اور بے بہا علمی، جوہری تحقیقاتی عزت وعظمت میسر تھی۔ انہوں نے مغربی دولت و عزت کو ٹھکرایا اور بھارتی دھماکوں کے بعد پاکستان کی بے لوث اور غیر مشروط خدمت کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم بھٹو سے رابطہ قائم کیا، جنہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمشن کے سربراہ منیر احمد خان کے حوالے کر دیا،ڈاکٹر عبدالقدیر خان، منیر احمد خان کے عدم تعاون سے تنگ تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی تنخواہ معمولی تھی۔ لیبارٹری اور سٹاف ناپید تھا، مگر سرکاری کاغذوں میں دفتر، لیبارٹری، سٹاف اور سٹاف ڈیوٹی کے لئے ایک خستہ حال چھوٹی سوزوکی وین تھی۔ منیر احمد خان کا رویہ اور پالیسی حوصلہ شکن تھی۔ وزیراعظم بھٹو کے احباب نے صورتِ حال سے بھٹو صاحب کو آگاہ کیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی 1976ء کے اوائل میں وزیراعظم سے ملاقات کا بندوبست کیا اور وزیراعظم بھٹو نے ڈاکٹر صاحب کو کہوٹہ لیبارٹری کے قیام کی اصولی اجازت دی۔ بھٹو کی حکومت 1977ء میں انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک کے نتیجے میں ختم ہو گئی اور جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو فوری اور مضبوط بنیادوں اور خصوصی ترجیحات کے ساتھ جاری رکھا۔ کہوٹہ لیبارٹری کی عمارت کا کام بھی جلد مکمل کیا اور عالمی جوہری مبصرین کی تحقیقات کے مطابق پاکستان نے 1982ء میں تجرباتی دھماکوں کے لئے چاغی میں کھدائی مکمل کرلی تھی اسی دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ماہرانہ ٹیم نے مزید اہم اور برتر جوہری ہتھیار تیار کئے پاکستان کو بہترین میزائل نظام عطا کیا جدید ترین سیٹلائٹ سسٹم دیا۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہ ہوتے تو پاکستان جوہری (ایٹمی) قوت نہ بنتا اور پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر نہ ہوتا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے مایہ ناز سائنسدان اور ان کے عظیم رفقاء کی موجودگی میں عالم اسلام علمی تحقیقاتی اور سائنسی میدان میں بھارت سے کئی گنا آگے ہے۔پاکستان کا جوہری پروگرام بھی غیر روائتی ہے۔ یہ مغرب کی تقلید نہیں۔ یہ مغربی سائنسی ارتقاء سے بھی آگے کی بات ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان علمی، ادبی سماجی اور سائنسی شخصیت ہیں۔ انہوں نے طب، زراعت، توانائی اور ملکی ضرورت کے کئی دیگر شعبوں میں تحریری تجاویز اپنے کالموں میں بیان کی ہیں۔ پاکستان کی مختلف جامعات بھی ڈاکٹر صاحب نے جوہری تحقیقاتی ادارے قائم کئے جو انسانی بہبود اور علاج معالجے میں کام آتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان سراپا خیر اور عمل پیہم کی تصویر ہیں۔ آپ صابر، شاکر اور مزید کام کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب سیدھے سادے اور پاکستان سے بے بہا محبت کرنے والے انسان ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مغربی تعلیم و تربیت سے بھی آراستہ تھے، دولت اور عزت بھی تھی، مگر انہوں نے قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی طرح مغرب چھوڑا اور قومی و ملی خدمت کے جذبے سے پاکستان آئے۔
ڈاکٹرصاحب بچپن سے غازی تھے، بلکہ محلے کی مسجد میں فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کی تلاوت بچپن سے معمول رہی ہے۔ ہاکی شوق سے کھیلتے تھے۔ قرآن و سنت سے محبت، قرآن فہمی، سیرت رسولؐ اور تاریخ اسلام سے قلبی شوق تھا اور تاحال ہے۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ میری کردار سازی میں نسیم حجازی کے ناولوں کا کلیدی کردار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کی قومی و ملی روایت کے امین اور اسلام کی شاندار تاریخ کے احیاء کے ترجمان اور پاکستان کے روشن مستقبل کے پیامبر ہیں۔ ان کی اپنے دین اور وطن سے محبت غیر مشروط ہے۔ کاش! ملک کی تمام سیاسی قوتیں اتفاق رائے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تاحیات پاکستان کا صدر بنانے کا اعلان کر دیں۔ محسن پاکستان کے لئے تمام اہلِ وطن پاکستان یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کو اعزاز دینے سے پاکستان سرکار اور عوام باوقار ہوں گے۔ مَیں نے ڈاکٹر صاحب کوایوان اقبال لاہور میں پہلی بار غالباً 1990ء کے یوم تکبیر میں سنا تھا۔ 5منٹ کی تقریر کم از کم 15بار اللہ و رسولؐ کے ذکر اور شکرسے مزین تھی۔ چہرہ مہرہ وجیہہ اور نورانی تھا۔ انداز انتہائی سادہ اور پُرکشش تھا۔ گفتگو مختصر مگر پُر تاثیر تھی۔ سامعین کو محسوس ہوتا تھا کہ ان پر اللہ کا خاص کرم ہے اور کیوں نہ ہو، انہوں نے اللہ و رسولؐ کی پسندیدہ امت مرحوم کو امت زندہ بنا دیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں سرطان جیسے موذی مرض سے اسی طرح نجات دی، جس طرح قصیدہ بُردہ شریف کے امام بوصیری کو بیماری سے شفا عطا کی تھی۔
راقم ڈاکٹر صاحب سے پچھلے برس اپنے تایا زاد بھائی سید محبوب الٰہی اور چھوٹے بچوں کے ساتھ پہلی اور اب تک آخری بار ان کی رہائش گاہ پر ملا تھا۔ ڈاکٹر صاحب معصوم الطیع اور سچے جذبوں کے پیکر ہیں۔ وہ اپنے بڑے بھائی عبدالقیوم مرحوم کی بیماری سے پریشان تھے اور بھوپال میں اپنے بچپن اور ہاکی ٹیم کے زندہ رہ جانے والے واحد دوست کو ملنے کے خواہاں تھے۔

مزید :

کالم -