شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 19
ان علاقوں میں رہنے والوں کی مختلف دشواریاں بھی ہیں ..... شیر کو ہلا ک کرنے کے لیے ان کے پاس مناسب ہتھیار نہیں ہوتے..... ان کی زمینیں دور دور تک پھیلی ہوتی ہیں جن میں ان کو کام کرنا ہوتا ہے ..... اور اکثر تنہا کام کرنا ہوتا ہے ..... اس کے علاوہ زندگی کے کاروبار کے سلسلے میں ان کو دوسری آبادیوں سے آمدورفت قائم رکھی ہوتی ہے ....۔ اکثر پیادہ،. کبھی بیل گاڑی پر ایک آبادی سے دوسری تک سفر کرنا ضروری ہوتا ہے ..... جو کبھی تنہا ہوتا ہے کبھی دو چار ساتھیوں کے ہمراہ ..... اس سفر کے راستے گھنے جنگلوں ،‘ ندی نالوں پہاڑیوں کھڈوں اور وادیوں سے گذرتے ہیں ..... جہاں ہر قسم کے حشرات الارض اور درندے ہوتے ہیں ..... انسانوں کو ان ساری بلیات سے مقابلہ کرنا اور دفاع کرنا ہوتا ہے .....
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان تمام دشواریوں کے درمیان رہ کر بھی یہ لوگ بخیرہ عافیت لمبی عمر پاتے ہیں .....بیڑ کنڈ کی چوپال میں دوسرے ہی دن نہار کے قصے چل نکلے .....
’’بہت بڑا نہا رہے .....‘‘ ایک بولا .....
’’ اے بھیا ..... میں نے پیٹھ میں جو نہار دیکھا تھا ..... ‘‘ ایک بوڑھا بولا ’’ وہ تو بیل سے بھی بڑا تھا ..... اور سانڈ کے برابر تگڑا.....‘‘
’’ اچھا .....‘‘ کئی تعجب بھری آوازیں آئیں .....
’’وہ ڈکراتا تو معلوم ہوتا بادل گرج رہا ہے ..... دل دہل جاتا ..... ‘‘
اور وہ بڑے میاں اپنے تجربات دیر تک بیان کرتے رہے .....
’’مگر یہ جو شیر آگیا ہے ..... یہ بھی خطرناک ہے ..... ‘‘ ایک شخص نے کہا
’’خطرہ تو ہے ..... ‘‘دوسرا بولا
’’مراری جی کہتے تھے اس نے کئی آدمی کھائے ہیں ..... ‘‘
’’ مراری کو کیا معلوم یہ وہی نہار ہے ..... ‘‘
’’ وہی ہے ..... تبھی تو ہمارا پیچھے آیا ..... ‘‘
’’ہاں ..... یہ تو ہے ..... ‘‘
ذرا دیر خاموشی رہی .....
’’چوکنا رہنا چاہیے ..... ‘‘ ایک بوڑھا بولا .....
بس ..... یہی کچھ وہ کر سکتے تھے ..... ان کی سوچ محدود رہی تھی ..... لیکن شیر سے بچنے کی اور تدبیر بھی کیا تھی .....
اس آبادی میں صرف ایک شخص کے پاس بارہ بور کی ایک نالی بندوق تھی ..... دو آدمیوں کے پاس توڑے دار بندوقیں تھیں ..... جن میں سے اک فیروز شاہی دھماکہ تھا ..... اور ایک عام بھر مار بندوق ..... یہ لوگ کبھی کبھی ہرن یا چیتل شکار کر لیتے جس کا گوشت ساری آبادی میں تقسیم کیا جاتا .....آبادی میں ہندو بھی تھے مسلمان بھی ..... لیکن کسی کو کبھی مذہبی تعصب کا خیال بھی نہیں ہوا ..... وہ سب برابر تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ..... اس واقعے کو دو ہفتے گزر گئے ..... اور جیسی کہ انسانی خصلت ہے ..... لوگ یہ بھول ہی گئے کہ پندرہ دن پہلے ایک چالاک شیر ان کا پیچھا کر تا رہا تھا ..... یا کم از کم ان کے پیچھے پیچھے کئی میل آیا تھا ..... ویسے گاؤں والوں کی مصروف زندگی میں ہر بات یاد رکھنے کا موقعہ بھی نہیں ہوتا .....
ایک روز صبح سویرے دو آدمی بیڑ کنڈ سے کھڈ جانے کے لیے نکلے ..... ایک کے ہاتھ میں کلہاڑی دوسرے کے پاس لاٹھی ..... دونوں کے سروں پر بھاری بوجھ ..... جو وہ کھڈ میں فروخت کے لیے جا رہے تھے ..... وہ لوگ برابر آتے جاتے ہی رہتے تھے کوئی نئی بات نہ تھی ..... بیڑ کنڈ سے نکل کر وہ لوگ ابھی بمشکل ایک میل گئے ہوں گے ..... یک بارگی شیر نے حملہ کیا ..... اور پیچھے چلنے والے کو کمر سے پکڑ کر دو تین زور دار جھٹکے دیئے ..... دوسرا آدمی تین چار گزر آگے تھا ..... وہ پلٹ کر دوڑا ..... اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی ..... جس کے سرے میں اس نے لوہے کے دو بھاری چکر لگا رکھے تھے ..... اس نے وہ لاٹھی گھما کر شیر کی کمر پر ماری ..... ضرب اتنی زبردست تھی کہ شیر جیسا طاقتور دیو بھی تلملا کر ہٹا ..... مجروح آدمی کو تو اس نے چھوڑ اا ور دوسرے پر حملہ کیا ..... اس نے لاٹھی گھمائی اور ہٹا ..... اب وہ دیہاتی شیر ہوگیا ..... لاٹھی خوفناک طریقے سے گمھاتا دو چار قدم بڑھاتا ..... شیر گھبرا کے پیچھے ہٹا ..... اس نے ایک اور نعرہ لگا کر شیر پر گویا حملہ کیا..... اور شیر ..... بالاخر بھاگ پڑا ..... یہ شخص ..... جو غالباً اس وقت اپنے حواس میں نہیں تھا ..... لاٹھی گھماتا اس کے پیچھے دوڑا ..... اور شیر بھاگ کر غراتا ہوا جھاڑیوں میں گھس گیا .....
س نے واپس آکے اپنے ساتھی کی خبر لی ..... شیر نے اس کو پہلے شانے سے پکڑا تھا ور پیٹ کو پنجوں سے نوچ ڈالا تھا ..... اس کے بعد کولھے کے اوپر کمر سے اس طرح پکڑا تھا کہ اوپر کے دانت پیٹ کے نچلے حصے میں نچلے دانت کولہے اور کمر کی بیچ کے حصے میں گھسے تھے..... شیر نے اس کو دو تین جھٹکے دیئے تھے ..... شیر اگر کسی جاندار کو پکڑ کر دو چار جھٹکے دیدے تو اس جاندار کے جسم کی ساری ہڈیوں کے جوڑوں کا اپنی جگہ چھوڑ دینا عین یقینی ..... بعض ہڈیوں کا ٹوٹ جانا عین ممکن ..... اور ریڑھ کی ہڈی کی گرہوں کا ٹوٹنا یا علیحدہ ہونا موت.....وہ شخص ابھی زندہ تھا ..... لیکن جسم کا کوئی عضو حرکت کرنے کے قابل نہیں تھا ..... اس بہادر ساتھی نے اس کو سہارا دینے کی کوشش کی لیکن بیکار ..... وہ سنبھل ہی نہیں سکتا تھا
’’اٹھنے کی سکت ہے ..... ؟‘‘ساتھی نے پوچھا ..... اس کا نام کڑبا تھا .....
’’نہیں ‘‘ وہ بیچارا تو بمشکل ہی بول سکا .....
’’ہوں ..... ‘‘
ایک لمحہ اس نے سوچا ..... کچھ نہ کچھ تو کرنا ضروری تھا ..... کڑبا نے اس کو اٹھا کر پیٹھ پر لادنے کی کوشش کی ..... لیکن غالباً اس بیچارے کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ..... دہرا ہو کر گر گیا ..... کڑبا کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے ..... زخمی کوئی بچہ تو تھا نہیں ..... وہ بھی کڑیل جوان ہی تھا ..... وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ زخمی کی آنکھیں پھر گئیں ..... اور سر ڈھلک گیا ..... کڑبا کو اس کی موت کا افسوس ہوا ..... لیکن وہ کیا کرسکتا تھا ..... اس نے تو اپنی جان پر کھیل کر شیر پر حملہ کیا اور اس کو بھگا دیا ..... وہ بھاگ کر گاؤں گیا ..... اس خبر سے ساری آباد ی میں کہرام مچ گیا ۔دس بارہ مسلح جوان ایک چار پائی لے کر کڑبا کی معیت میں دوبارہ اس جگہ آئے جہاں مجروح آدمی تھا اور کڑبا کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ شخص زندہ تھا ..... آنکھیں کھلی تھیں .....
انہوں نے اس کو اٹھا کر چار پائی پر ڈالا اور جس قدر جلد گاؤں پہنچ سکتے تھے پہنچے ..... وہ آدمی ..... غالباً بہت سخت جان تھا ..... طے یہ ہوا کہ اگلے روز اس کی بیل گاڑی میں ڈال کر بلھار شاہ لے جایا گیا ..... رات بھر وہ زندہ رہا ..... اور ہوش میں رہا ..... کڑبا کی جوانمردی کا حال اسی نے سنایا ‘ اور اس لمحے سے کڑبا کو بیر کنڈ کا بہادر ترین اور معتبر ترین شخص سمجھا جانے لگا .....
صبح ہوتے ہوتے زخمی نے دم توڑ دیا .....اس شیر نے اس علاقے کو د وسال تاخت و تاراج کیا ..... صرف بیر کنڈ سے اس کو نو شکار ملے ..... دوسری آبادیوں سے اس نے کتنے انسانوں کو لقمہ بنایا اس کا قابل اعتماد ریکارڈ نہیں مل سکا ..... لیکن اندازہ یہ ہے کہ کل ساٹھ ستر آدمی اس نے شکار کیے تھے ..... جو بہت بڑی تعداد ہے۔
عظمت خاں صاحب میری خط و کتابت تو رہتی ہی تھی ..... وہ اس آدم خور کا حال مجھ کر برابر لکھتے رہتے تھے ..... آخری خط جس میں انھوں نے اس کی تاخت و تاراج کے بارے میں لکھا وہ یوں تھا ..... !
’’حضرت ..... سچ جانو ..... اپن تو خود بھی اس کے شکار کو جانے کا ارادہ کر رہے ہیں ..... مگر تم جاؤ تو خوب گزرے گی ..... اب اس آدم خور کا لائسنس بھی اپن کے پاس رہے گا ..... اگر تم آؤ گے تو پھر تو تم ہی اس کا شکار کرو ..... اپن تمہارے ساتھ رہیں گے ..... جب آنا ہو تو اطلاع فرما دو ..... اپن تو تمہارے خادم ہینگے ..... ناگپور سے مل جائیں گے ..... ‘‘
میں نے رخت سفر سنبھالا ..... اور زیادہ تاخیر کیے بغیر لاہور سے ٹرین پر بیٹھ گیا ..... امر تسر سے ہی مجھے گرانڈ ٹرنک میل مل گیا ..... ایرکنڈیشنڈ کوچ میں میری نشت بہ آسانی مل گئی اور میں دوروز کے طویل سفر کی نیت کر کے اپنی جگہ پر بہ آرام متمکن ہو گیا .....
لاہور سے ہی میں عظمت میاں کو ٹیلیگر ام دے چکا تھا ..... ایک ٹیلگرام امرتسر سے اور دے دیا اس خیال سے کہ شاید لاہور سے تاردیر میں پہنچے ..... (جاری ہے )
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں