”چھوٹے دماغ“ کے آدمی سے بڑی توقعات وابستہ نہ کریں

”چھوٹے دماغ“ کے آدمی سے بڑی توقعات وابستہ نہ کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو فون کر کے انہیں لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی پر مبارک باد دی ہے اور دونوں ممالک کے عوام کی بہتری کے لئے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے جنوبی ایشیا میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، یہ بات دفتر خارجہ کے ترجمان، ڈاکٹر فیصل نے بتائی، وزیر اعظم مودی نے فون کرنے پر وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیاہے۔
نریندر مودی کی انتخابی کامیابی کی خبریں آتے ہی وزیر اعظم نے ٹویٹ کے ذریعے مبارک کا پیغام بھیج دیا تھا۔ اب فون پر بھی بات کر کے مبارک باد دہرا دی ہے اور یہ ارادہ بھی ظاہر کر دیا ہے کہ خطے کے امن و خوشحالی کے لئے وہ مودی سے مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود نے بھی اپنی طرف سے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے ایسے ہی جذبات کا اظہار کر دیا ہے تاہم مذاکرات کے سلسلے میں کوئی بات تو اسی وقت آگے بڑھے گی جب نریندر مودی دوسری ٹرم کے لئے حلف اٹھا کر کابینہ تشکیل دے دیں گے، اس مرتبہ وزیر خارجہ بھی نیا ہوگا کیونکہ سشما سوراج نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ اب وزیر نہیں بنیں گی اس لئے انہوں نے الیکشن بھی نہیں لڑا تھا تاہم وہ اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلاتی رہیں اس وقت دونوں ملکوں میں مذاکرات کا سلسلہ تو تعطل کا شکار ہے تاہم کرتار پور راہداری کی تعمیر کے سلسلے میں مذاکرات ہوتے رہتے ہیں یہ راہداری بابا گورو نانک کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر کھولے جانے کا پروگرام ہے غالباً اسی لئے اس پر کام جاری ہے اور حالیہ کشیدگی کے باوجود اس میں تعطل نہیں آیا۔
نریندر مودی نے پوری انتخابی مہم کے دوران کشیدگی کا جو ماحول پیدا کر رکھا تھا اور شعلہ بار تقریروں کے ذریعے پاکستان کو جو دھمکیاں دی جا رہی تھیں فی الحال ان کا سلسلہ تو رکا ہوا ہے کہ انتخابی کامیابی کے بعد شاید اب اس کی ضرورت بھی نہیں، دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ایک ملاقات بھی ہو چکی ہے، دوران ملاقات شاہ محمود کو مٹھائی بھی کھلائی گئی اب شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر وزرائے اعظم کی ملاقات متوقع ہے، اگر یہ ملاقات ہو گئی اور محض کیمرہ سیشن کی بجائے کوئی ٹھوس نتیجہ بھی نکل آیا تو شاید معاملات آگے بڑھیں جو ابھی تک رکے ہوئے ہیں۔
اس موقع پر اہم سوال یہ ہے کہ کیا ”چھوٹے ذہن“ کے آدمی کے ہوتے ہوئے جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال ہو گا اور اگر ہوگا تو کیا کشمیر پر بھی مذاکرات ہوں گے؟ چند روز قبل ہی اطلاعات پر وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ مذاکرات جب بھی ہوں گے، ان میں مسئلہ کشمیر شامل ہوگا۔ دونوں ملکوں کی بنیادی وجہ نزاع یہی مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ جب کبھی مذاکرات ہوئے بھی ہیں تو کشمیر پر کوئی سنجیدہ بات نہیں ہوتی، جنرل پرویز مشرف آگرہ مذاکرات میں بزعم ِ خویش کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے لیکن بھارتی کابینہ کے عقابوں نے دورے کے اختتام پر کوئی اعلان تک جاری نہ ہونے دیا اعلان کا ایک مسودہ کبھی پاکستانی وفد کے پاس آتا جس میں تھوڑا بہت ردو بدل کیا جاتا پھر بھارت کی کابینہ کے کچھ وزیر اس پر غور کرتے اور یوں یہ مسودہ ادھر سے اُدھر ضرور ہوتا رہا، البتہ کوئی اعلان نہ ہو سکا۔ پرویز مشرف کے دور میں کشمیر کو مختلف زونوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پر بھی غور ہوتا رہا اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی جاری رہی، کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کا امکان تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو برطرف کر دیا اور ان کے خلاف تحریک چل پڑی جس کے بعد بھارت نے مذاکرات کا سلسلہ روک دیا پیپلزپارٹی کے دور میں یوسف رضا گیلانی اور من موہن سنگھ کے مصر میں مذاکرات ہوئے لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا، مودی کا پورا دور تو پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے سب سے برا تھا، کنٹرول لائن پر کشیدگی رہی جو اب تک جاری ہے فروری کے مہینے میں تو بھارت نے پاکستان کی حدود میں فضائی حملہ بھی کر دیا اور میزائل حملے کی تیاری بھی کر لی، اب وہ دوبارہ کامیاب ہوئے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ ان کا یہ دور سابق پانچ سالہ دور سے کیسے مختلف ہوگا کیا اس دوران کچھ نیا ہوگا یا ”سٹیٹس کو“ چلتا رہے گا اس کا انحصار مودی حکومت کے رویئے پر ہے۔
مودی کے پورے دور میں کشمیر کے اندر ظلم و ستم کا راج رہا، کشمیریوں کو شہید کیا جاتا رہا۔ اس دوران مودی نے ریاستی تشدد کے ذریعے کشمیریوں کو دبانے کی جتنی بھی کوششیں کیں سب ناکام رہیں جس پر انہوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کا سوچا اور آئین کی ان دفعات میں رد و بدل کا فیصلہ کیا جن کے تحت کشمیر کے اندر کوئی بھی غیر کشمیری جائیداد نہیں خرید سکتا اب تک مودی کو اس میں کامیابی تو نہیں ہوئی لیکن یہ منصوبہ انہوں نے ترک نہیں کیا حکومت سازی کے امور سے فارغ ہو کر وہ اس طرف توجہ دیں گے البتہ کشمیر کی سیاسی قیادت انہیں ایسے کسی فیصلے کے منفی نتائج سے خبردار کر چکی ہے۔ مودی نے اپنے عہد میں ریٹائرڈ فوجیوں کے لئے کشمیر میں رہائشی کالونیاں بنائیں جن کا مقصد بھی ریاست میں کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ اس لئے اب اگر جامع مذاکرات شروع بھی ہوتے ہیں جس کا فی الحال امکان نہیں تو بھارت کشمیر کے مسئلے پر بات کرنے سے گریز ہی کا راستہ اختیار کرے گا یا پھر پہلے کی طرح معاملے کو لٹکانے کی کوشش کرے گا اس لئے یہ پاکستان کی ڈپلومیسی کا امتحان ہے کہ وہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر کس حد تک بات چیت کے لئے بھارت کو آمادہ کر پاتی ہے۔ اگرچہ رسماً تو دونوں وزرائے اعظم میں خیر سگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں لیکن ان کا ٹیسٹ اسی وقت آئے گا جب مذاکرات شروع ہوں گے اور یہ طے پا جائے گا کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہے اور اس ایجنڈے میں کشمیر ہے یا نہیں، وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں مودی ”چھوٹے دماغ“ کا آدمی ہے جو بڑے منصب پر فائز ہو گیا ہے اب اسے دوبارہ یہ عہدہ مل گیا ہے ماضی شاہد ہے کہ ان سے کسی بڑے فیصلے کی توقع تو نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے ان سے زیادہ بڑی بڑی توقعات نہ باندھی جائیں تو اچھا ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -