ملک میں مالی بحران اور رمضان کا آخری عشرہ
رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو گیا ہے، جسے جہنم سے نجات کا عشرہ بھی کہتے ہیں۔لاکھوں لوگ 20رمضان کی مغرب کے بعد سے اعتکاف بیٹھ گئے ہیں۔ جو اللہ کی رحمت سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے عزیز و اقارب اور وطن عزیز کی سلامتی کی دعائیں مانگیں گے۔ کچھ کو وہ ساعت بھی نصیب ہوگی جس میں اللہ سے جو مانگیں مل جاتا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ اس رحمت کی گھڑی میں کوئی پاکستانی اللہ کا بندہ پاکستان کی مضبوطی مانگ لے، پاکستان کے لئے مالی طور پر خودکفالت کی دعا مانگ لے، پاکستان کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں سے ٹیکس مانگ لے۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں، مانگنے والوں اور جھوٹ کے سہارے مال کمانے والوں کے لئے قناعت مانگ لے، معصوم بچوں اور بچیوں پر ظلم کرنے والوں (ریپ کر کے قتل کرنے والوں) کے لئے اللہ کا خوف مانگ لے، پاکستان میں غربت کے مارے بچوں سمیت خود کشی کرنے والوں کے لئے رزق مانگ لے۔
پھر سوچتا ہوں کہ رمضان کا مبارک مہینہ اور یہ مقدس عشرہ تو 1436 سال سے آ رہا ہے۔ پھر ہم یہ سب کچھ کیوں نہیں مانگ سکے؟ تو پھر سوچنا چاہیے کہ یہ سب عبادات ہم ذاتی لالچ یا مالی منعفت کے لئے تو نہیں کرتے ہیں۔ میرا دعا پر پختہ ایمان ہے۔ کئی بار آزما بھی چکا ہوں کہ خلوص دل سے مانگی گئی دعا رنگ لاتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری دعاؤں میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے…… ”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے محلے میں ایک چھوٹے دکاندار کی دکان میں چوری ہو گئی تو وہ مختلف جگہوں پر فال نکالنے والوں اور پیروں کے پاس جا جا کر چور کا کھوج لگانے کی کوشش کرنے لگا۔ آخر ایک پیر موقع واردات پر آئے اور ادھر ادھر کی باتیں کرکے جب پیر سب تمام حربوں میں ناکام ہوئے تو کہنے لگے کہ جس کی چوری ہوئی ہے اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دی تھی اس لئے یہ چوری ڈھونڈنی ناممکن ہے“۔
تو کیا پاکستانیوں کی عبادات اور دعاوں کا رنگ نہ لانا بھی اسی لئے ممکن نہیں ہے کہ اس میں خلوص نہیں ہوتا یا یہ کہ وہ اپنے مال پر زکوٰۃ(ٹیکس نہیں دیتے) کی وجہ سے ساری دعائیں بیکار جاتی ہیں۔ آج کل پاکستان مالی بحران سے گزر رہا ہے۔ تو کیوں نہ اس مبارک عشرے میں دعاؤں سے پاکستان کو اس بحران سے نکال لیا جائے؟ ویسے ہم سب رمضان المبارک شروع ہوتے ہی جس خشوع و خضوع سے عبادات کرتے ہیں، عمرے کرتے ہیں اور خیرات و صدقے دیتے ہیں، اگر اسی طرح سال میں ایک بار اپنی آمدن پر پورا حساب کر کے ٹیکس ادا کر دیں تو پھر بھلے خیرات و صدقات نہ بھی دیں۔ ہمارا وطن ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ مشیر خزانہ کا بیان نظروں سے گزرا ہے کہ صرف 20 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ کیا پاکستان میں صرف 20 لاکھ لوگ ہی اتنی آمدن رکھتے ہیں جس پر ٹیکس لگتا ہے؟ اگر رمضان کے مہینے میں افطاری کے وقت کسی بھی پوش علاقے کے ریسٹورنٹ پر جا کر دیکھیں کہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ کسی بڑے شاپنگ مال پر دیکھ لیں، ملک کے طول و عرض پر لوگوں کی کوٹھیوں اور محلات پر ایک نظر ڈال لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنے لوگ ٹیکس دینے کے زمرے میں آتے ہیں۔
عمرہ کرنے والوں کی تعداد کے حساب سے پاکستان دنیا میں نمبر 1 ہے۔ تو اس کا کیا مطلب لیا جائے کہ ہمارے لوگ ٹیکس چوری کر کے عمرے کے لئے پیسے بچاتے ہیں؟ میری نظر میں رمضان کا مہینہ مسلمانوں کے لئے تربیت کا مہینہ ہوتا ہے۔ اللہ نے روزے فرض کئے ہیں، تاکہ ہم تقوی پکڑیں اور رک جائیں۔ یعنی کوئی بھی نیا قدم اٹھاتے وقت کوئی لفظ منہ سے نکالتے وقت اپنی تربیت کو نہ بھولیں۔ ورنہ آپ کے بھوکے پیاسے رہنے سے اللہ تعالی کو کیا فائدہ ہے؟حکومت کو بھی چاہیے کہ ڈالر کی قیمت کو قابو میں لانے کے لئے اقدامات اٹھائے اور ملک سے کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کو فارغ کیا جائے اور تمام لین دین شیڈول بینکوں کے ذریعے کیا جائے،جبکہٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کے لئے تمام دکانوں اور کاروباری اداروں پر فکس ٹیکس لگایا جائے، کیونکہ ہماری قوم ابھی تک ایمانداری کے اس درجے پر نہیں پہنچی جہاں احساس ذمہ داری سے ٹیکس دیا جاتا ہے۔