وزیراعظم عمران خان کا پہلا امتحان، کیا 50 ارب روپے کے سکینڈل میں دو جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں گے؟ روف کلاسرا نے بڑا انکشاف کر دیا
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی روف کلاسرا نے انکشاف کیاہے کہ منگل کے روز یعنی آج وزیراعظم عمران خان اپنی نئی کابینہ کا پہلا اجلاس کرنے جارہے ہیں جس میں بجٹ کے حوالے سے اہم مشاورت ہو گی جبکہ اس دوران ایک سکینڈل بھی پیش کیا جائے گا جو کہ واٹر اینڈ پاور کی جانب سے بھیجا گیاہے ، پاکستان کا ” کھچی کینال “ بہت بڑا پراجیکٹ تھا جس میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئیں اور اس پر ماضی میں بھی چار انکوائریز ہو چکی ہیں ، جن لوگوں کے انکوائری میں نام آئے تھے اسے دیکھ کر سابق تین وزرائے اعظم کے ہاتھ پاﺅں پھول جاتے تھے تاہم اب 16 سال بعد یہ انکوائری رپورٹ عمران خان کو پیش کی جارہی ہے اور وہ تیسرے وزیراعظم ہیں جنہیں یہ ٹیسٹ دیا جارہاہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پاس ہوتے ہیں یا نہیں ۔
روف کلاسرا نے اپنے یوٹیوب چینل پر جاری ویڈیو میں ’’ کھچی کینال‘‘ سکینڈل کی تفصیلات سے پردہ ہٹاتے ہوئے بتایاکہ 2002 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کوشش کی جارہی تھی کہ تیزی سے ڈولپمنٹ کی جائے ، زیادہ توجہ بلوچستان پر تھی کہ ان کے مسائل کو حل کیا جائے ، تو ایک منصوبہ بنایا گیا جس کا نام ” کھچی کینال“ رکھا گیا ، اس کے تحت پنجاب اور بلوچستان کے سات اضلاع جہاں سے نہر نے گزرنا تھا ، یہ نہر تونسہ بیراج سے نکلنی تھی اور اس نے پنجاب اور بلوچستان کو سات اضلاع کے سیراب کرنا تھا ، سات لاکھ تیرہ ہزار ایکڑ زمین کو قابل کاشت بنانا تھا ، جنرل مشرف چاہ رہے تھے کہ فوری اس کا بنیا درکھا جائے ، بلوچستان میں بگٹی علاقے کے لوگ بہت خوش تھے کہ پنجاب سے نہرآرہی ہے ،ہمارے علاقے میں پانی آئے گا تو ہم کاشتکاری کریں گے ، اس میں تیزی کے ساتھ ڈولپمنٹ ہونے لگیں۔ تاہم جنرل پرویز مشرف نے انجینئرنگ کور کے لیفٹیننٹ جنرل ذولفقار علی خان کو چیئرمین واپڈ ا تعینات کیا ۔
روف کلاسرا کا کہناتھا کہ جنرل مشرف بہت جلدی میں تھے ، کہا باقی کام چھوڑیں اور اس نہر کا سنگ بنیاد رکھیں ،انہوں نے 2002 میں ہی سنگ بنیا رکھوا لیا ، اس وقت منصوبے کی لاگت 31 ارب روپے تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ یہ منصوبہ اسی میں پورا ہو جائے گا ، آج 16 سال گزر چکے ہیں اور ابھی تک وہ منصوبہ پورا نہیں ہوا ہے ،اس کی لاگت 80 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس پر پہلی انکوائری واپڈا نے غالباً 2005 یا 2006میں کروائی تھی، تاکہ تاخیر کی وجہ جانی جا سکے ،رپورٹ سے پتا یہ چلتا ہے کہ ہماری بیوروکریسی کسی کا نام لینے سے ڈرتے ہیں اور خصوصی طور پر جب ہمارے کوئی لیفٹیننٹ جنرل واپڈا کے چیئرمین بیٹھے ہوں ،اب چونکہ واپڈا اس پراجیکٹ کو خود لانچ کیے ہوئے تھا توان سے کیا توقع کر سکتے تھے کہ وہ اپنی غلطیاں اور خامیاں کس پر ڈالتے تاہم انہوں نے غلطیاں اور خامیاں کسی پر ڈالنے کی بجائے یہ کہا کہ اس میں ٹیکنیکل فالٹ ہیں ،ڈیزائن میں مسئلہ ہے ، فیزی بیلیٹی نہیں بنائی گئی اور ساتھ میں کسی افسر کا نام نہیں لیا ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ان چیزوں کی وجہ سے لاگت بڑھنا شرو ع ہو گئی اور ٹھیکیدار نے زیادہ پیسے لینے شروع کر دیئے ہیں ۔
سینئر صحافی کا کہناتھا کہ خیر انہوں نے اس انکوائری رپورٹ میں بڑے پیمانے پر خامیاں نہیں نکالیں اور 2006 کی انکوائری رپورٹ وہیں دب گئی ، اب اس کے دس سال بعدخیال آیا، ’ کونسل آف کامن ٹرسٹ ‘جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور ملک کے وزیراعظم بیٹھتے ہیں ، جہاں اجلاس میں تمام صوبے آپس میں معاملات کو طے کرتے ہیں لہذا کھچی کینال بھی پنجاب اور بلوچستان کے درمیان تھی تو معاملہ سی سی آئی میں آ گیا۔اس پراجیکٹ کو بھی کونسل آف کامن انٹرسٹ میں آگے لے کر چلا گیا، وہاں بھی ایک شکایت لانچ کی گئی جس میں سی سی آئی کو بتایا گیا کہ یہ پراجیکٹ 31 ارب کا تھا جس کی قیمت بڑھتی جارہی ہے لیکن اب تک یہ پوری طرح مکمل نہیں ہوا اس کے ذریعے سات لاکھ ایکڑ سے زائد زمین سیراب ہونی ہے ۔
روف کلاسرا کا کہناتھا کہ 2016 میں نوازشریف وزیراعظم تھے تو اس وقت سی سی آئی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا اس کی ایک اور انکوائری کی جائے اور اس کیلئے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو انکوائری کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا کہ پتا لگایا جائے کہ کیا غلطیاں اور ٹیکنیکل فالٹ آئے ، یہ پراجیکٹ 80 ارب کا کیسے ہوا ، اس میں جنرل مشرف کا کتنا قصورہے اور جنرل ذوالفقار علی خان کا کیا کردار ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ اس کمیٹی میں تصدق حسین جیلانی کے ساتھ تین بڑے افسران کو لگایا گیا ، نوازشریف نے اس معاملے کو بہت سنجیدہ لیا ،کمیٹی میں اس وقت کے سیکریٹر ی پلاننگ یوسف کھوکھر ، سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود ، واٹر اینڈ پاور کے سیکریٹری یونس ڈھاگہ کو اس میں شامل کیا گیا ۔کمیٹی نے تحقیقات کیں اور اپنی انکوائری رپورٹ سامنے لے کر آئے اور یہ وہی رپورٹ ہے جو کہ کل نوازشریف کے بعد عمران خان کی کابینہ میں بھی پیش کی جائے گی ۔
اس رپورٹ میں کمیٹی نے 28 کے قریب افسران کو پراجیکٹ مکمل نہ ہونے کا ذمہ دار قر ار دیا ہے اور کہاہے ان کی وجہ سے ہی لاگت 80ارب ڈالر تک چلی گئی ،اس میں پراجیکٹ ڈائریکٹر کے نام بھی شامل ہیں تاہم اس رپورٹ میں دو افراد کو فوکس کیا گیا ہے جن میں پرویز مشرف اور ان کے ساتھ میں جنرل ذوالفقار علی خان شامل ہیں جو کہ چیئرمین واپڈا تھے ، یہ انکوائری رپورٹ کہتی ہے کہ مشرف نے ذوالفقار علی خان پر زور ڈالا کہ میں سیاسی طور پر لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتاہوں کہ میں یہاں پراجیکٹ لا رہاہوں اور کام کر رہاہوں جبکہ سیاسی حکومتیں ڈلیور نہیں کرتی اورکھچی کینال بہت بڑا پراجیکٹ ہے ۔
روف کلاسرا کے مطابق مشرف نے لیفٹیننٹ جنرل پر پر دباﺅ ڈالا کہ کچھ بھی ہو اس کا سنگ بنیاد مجھ سے رکھوائیں ، تاہم سنگ بنیاد رکھ دیا گیا لیکن اس میں خرابیاں کیا ہوئیں ؟ چلیں جنرل مشرف کا تو مان لیتے ہیں کہ آرمی افسر تھے اور صدر بن گئے تھے ، انہیں ٹیکنیکل چیزوں کا نہیں پتا تھا لیکن ذوالفقار علی خان واپڈا کے چیئرمین تھے ، ان کو تو سب پتا تھا اس لیے انہیں پرویز مشرف کو بتانا چاہیے تھا کہ اتنے بڑے پراجیکٹ کا اس وقت تک سنگ بنیا رکھنا درست نہیں جب تک یہ تین چار کام نہیں ہو سکتے ۔ جن میں سب سے اہم کام فزیبلیٹی رپورٹ بنانا شامل تھا، یہ ان پراجیکٹ میں سے ایک ہے کہ جس کی فزیبلٹی رپورٹ ہی نہیں بنائی گئی ، جب کام شروع ہوا تو کوئی کنسلٹنٹ بھرتی نہیں کیے گئے جنہوں نے کام کو مانیٹر کرنا تھا ۔
روف کلاسرا کا کہناتھا کہ پتا چلا کہ چیئرمین واپڈا نے مشرف کو منع کرنے کی بجائے انہیں خوش کرنے کیلئے پراجیکٹ شروع کیا اور ایک بھی کنسلٹنٹ بھرتی نہیں کیا اور کوئی فزیبیلٹی نہیں ہے ، پی سی ون ٹو اور تھری کو ریوائز کیا گیا ، 18 مہینے بعد ان سے ہاتھ باند ھ کر معذرت کی اور کہا آپ تشریف لے جائیں اور پھر نیا چیئرمین آیا اور اس نے کنسلٹنٹ بھرتی کیے اور کام شروع ہوا ۔جب یہ پراجیکٹ لانچ ہوا تو بگٹی قبیلے کے ریاست کے ساتھ مسائل چل رہے تھے ، بہت خوش ہوئے کہ اس کھچی کینال کی حفاظت کرنے کیلئے بھی تیار ہیں اور اس تین سو گارڈ ہم دیں گے جو اس کینال کی نگرانی کریں گے تاکہ یہ جلدی مکمل ہو ،اس منصوبے کو اس وقت گیم چینجر قرار دیا گیا تھا تاہم سی پیک کو بعد میں گیم چینجر کا درجہ دیا گیا ۔
جب نوازشریف کو انکوائری کمیٹی کی رپورٹ سی سی آئی اجلاس میں پیش کی گئی تو فیصلہ کیا گیا کہ اس پر عملدرآمد کیلئے کمیٹی بنائی جائے جو سفارشات پر عمل کرے ، وہ دونوں جنرلز کے بارے میں دیکھے کہ کیا کارروائی ہو سکتی ہے اور رپورٹ میں شامل 28 افسران کیخلاف کارروائی کا جائزہ لیا جائے جس کی رپورٹ کابینہ میں پیش کی جائے ۔ اس کمیٹی میں لا ءمنسٹر بشیر احمد ، بیرسٹر ظفراللہ سپیشل اسسٹنٹ ، جاوید علی شاہ ، واٹر اینڈ پاور کے منسٹرمیں شاملے کیے گئے ۔یہ کمیٹی تو بنی لیکن اس کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا اور نوازشریف کے بعد یہ رپورٹ شاہد خاقان عباسی کو بھی پیش کی گئی لیکن کوئی پیش رف نہیں ہوئی تاہم حکومت ختم ہو گئی اوراسے نگران حکومت نے بھی ہاتھ نہیں لگایا ۔
روف کلاسرا کا کہناتھا کہ اب یہ ٹیسٹ عمران خان کے سامنے پیش کیا جارہاہے اور اب دیکھنا ہوگا کہ وہ اسے پاس کرتے ہیں یا نہیں ، یا وہ بھی ماضی کے وزیراعظموں کی طرح اسے اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کرنے کیلئے اور بھی بہت زیادہ کام ہیں ۔یہ رپورٹ واٹر اینڈ بورڈ کی جانب سے بھیجی گئی ہے اور کہا گیاہے کہ کابینہ اجازت دے کہ ان تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش پر عملدرآمد کیا جا سکے۔