جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہے جارحیت کے ذریعے اس کی حیثیت میں تبدیلی کی ہر کوشش کا قومی عزم اور فوجی طاقت سے جواب دیا جائے گا، بھارتی قابض فوج کشمیریوں کے جذبہ ئ حریت کو دبا نہیں سکتی،آرمی چیف نے عید کے روز کنٹرول لائن کے پونا سیکٹر کا دورہ کیا اور جوانوں کے ساتھ نمازِ عید ادا کی،افسروں اور جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی کوششوں کے سنگین نتائج نکلیں گے۔امید کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کے مبصر مشن کی آزادانہ نقل و حرکت کو اہمیت دی جائے گی۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات، لاک ڈاؤن کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالمی توجہ ہٹانا ہے۔ اُن کا کہنا تھا افسروں اور جوانوں کا حوصلہ قابل ِ تعریف ہے، آزمائش میں ہونے کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد ضرور کامیاب ہو گی۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کا لاک ڈاؤن 5 اگست کے اقدامات سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیر ایک وسیع جیل خانے میں تبدیل ہو چکا ہے،لیکن بھارت تمام تر جابرانہ اور ظالمانہ اقدامات کے باوجود کشمیریوں کے دِلوں میں موجزن آزادی کا شعلہ سرد نہیں کر سکا،اِس لاک ڈاؤن کے دوران بھی کشمیری مجاہدین بے دریغ جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ یہ سربکف نوجوان کسی ظلم و ستم کو خاطر میں لائے بغیر اپنے سفر پر گامزن ہیں۔آزادی کی تحریکوں کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اتنے طویل عرصے کے لئے جدوجہد کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہی ہو، تین سو دِنوں کا لاک ڈاؤن بھی کشمیریوں کا جذبہ ئ آزادی متاثر نہیں کر سکا اور وہ وقت دور نہیں جب یہ خون رنگ جدوجہد منطقی انجام کو پہنچے گی، حق و صداقت کے تصور پر مبنی تحریکیں ہمیشہ ہی کامیاب و کامران ہوتی ہیں۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حالات سے دُنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا طویل سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ہر گذرتے دِن کے ساتھ اس میں تیزی آ رہی ہے۔بھارتی افواج کنٹرول لائن پر فائرنگ کے ساتھ ساتھ سرحدی دیہات کو بھی گولہ باری کا نشانہ بناتی ہیں جن میں پُرامن اور معصوم کشمیری جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں عید کے دن بھی بھارت نے سلسلہ جاری رکھا۔
بھارتی جارحیت پسندی کا دائرہ اب خطے کے دوسرے ملکوں تک بھی وسیع ہو چکا ہے، نیپال کے ساتھ بھارت کے تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں اور نیپال کے وزیر دفاع کو بھارتی آرمی چیف کے اشتعال انگیز بیانات کا کھلے عام جواب دینا پڑ رہا ہے۔ لداخ میں بھارتی فوجیوں نے چینی علاقے میں داخل ہو کر جس جارحیت کا ارتکاب کیا تھا چین نے اس کا مُنہ توڑ جواب دیا ہے۔ وادیئ گالوان میں چینی اور بھارتی فوجیں دو ہفتے سے آمنے سامنے ہیں۔بھارتی فوجی اگر غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے رہے اور متنازع علاقے میں سڑک کی تعمیر نہ روکی تو کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ نیپال بھی اس سڑک پر اعتراض کر چکا ہے اِس سے لگتا ہے کہ بھارت اب پورے خطے کے استحکام کو داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہے اور اپنے چھوٹے ہمسائے کے ساتھ بھی کشیدگی بڑھا رہا ہے،دُنیا کی واحد ہندو ریاست کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ تر ہو گئے ہیں،خشکی میں گھرے اس مُلک کی معیشت اور تجارت کا انحصار بھی بھارت پر ہے،لیکن بھارت نے بیک وقت اپنے بڑے اور چھوٹے ہمسایوں کے ساتھ فوجی تصادم کی صورتِ حال پیدا کر کے نہ صرف اپنے لئے مشکلات میں اضافہ کیا ہے،بلکہ پورے خطے کو شعلوں کے سپر د کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔چین عشروں سے فوجی تصادموں سے گریز کی راہ پر گامزن ہے اور اس کی ساری توجہ معیشت کی استواری پر ہے۔62ء کی سرحدی جھڑپوں کے بعد بھارت اور چین کے تعلقات بظاہر معمول کے مطابق ہی رہے ہیں،لیکن اب چین کے ”ون بیلٹ ون روڈ“ منصوبے نے بھارت کو بے چین کر دیا ہے،حالانکہ چین نے اُسے بھی دعوت دی تھی کہ وہ اس میں شریک ہو جائے۔ یہ عظیم منصوبہ تین براعظموں کو سڑک(اور ریل) کے ذریعے ملائے گا اور اگر بھارت اِس میں شریک ہوتا ہے تو اس کے لئے بھی آمدورفت کے نئے در وا ہوتے ہیں،لیکن اس نے پاکستان کی دشمنی میں اس مفید منصوبے میں نہ صرف شرکت نہیں کی، بلکہ امریکہ کو گمراہ کن معلومات دے کر امریکی حکام کو بھی اِس منصوبے کے خلاف بیانات دینے پر آمادہ کیا جس نے خاص طور پر اس کے تحت پاکستان کے لئے چینی قرضوں کو ہدفِ تنقید بنایا، اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ منصوبہ ختم ہو جائے یا تاخیر کا شکار ہو جائے،پاکستان کے بعض علاقوں میں بھی اس منصوبے کے تحت ہونے والی تعمیرات پر بھارت اعتراض کر چکا ہے، جبکہ اس کی اپنی حالت یہ ہے کہ لداخ کے متنازع علاقے میں ایسی سڑک تعمیر کر رہا ہے جس پر نیپال کو بھی اعتراض ہے اور چین کو بھی، اس معاملے پر اگر کوئی اختلافات تھے تو باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کئے جا سکتے تھے، لیکن بھارت نے یہاں بھی جارحانہ رویہ اپنایا اور بالآخر چینی فوجیوں کو بزورِ قوت بھارتی فوج کو واپس دھکیلنا پڑا،ایسی مہم جوئی بھارت کو مہنگی پڑ سکتی ہے، جس پر چین نے بھارتی حکومت کو پہلے ہی خبردار کررکھا ہے کہ وہ چینی منصوبے کو متنازع بنانے کی کوششوں سے گریز کرے۔
بھارت کشمیر کی کنٹرول لائن پر تو سالہا سال سے اشتعال انگیزیاں کر رہا ہے،لیکن اب اُس نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لئے چین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی تو ابتدا ہی میں اس کی فوجوں کو ذِلت آمیز پسپائی اختیار کرنا پڑی،اِس لئے دانش مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ بھارت نہ صرف چین اور نیپال کے ساتھ اپنے تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرے،بلکہ پاکستان کی امن کوششوں کا بھی مثبت جواب دے۔تعلقات معمول پر لانے کے لئے پاکستان نے ہمیشہ دست ِ تعاون بڑھایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی انتخاب سے پہلے کہا تھا کہ اگر مودی دوبارہ منتخب ہو گئے تو پاکستان کو اُن کے ساتھ بات چیت میں سہولت ہو گی،لیکن بھارتی جارحانہ پالیسی نے اُن کی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے،بھارت نہ صرف کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے،بلکہ پورے بھارت میں کروڑوں مسلمانوں کے خلاف بھی جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔ بی جے پی کے انتہا پسند رہنما مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے قتل ِ عام کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں یہ کوششیں نہ صرف کشمیریوں،بلکہ اندرونِ مُلک بھارتی شہریوں میں بے اطمینانی کا باعث بن رہی ہیں،جبکہ بیرونی محاذ پر بھارتی جارحیت کا سلسلہ بھی پھیل رہا ہے،جس سے خطے کا امن خطرے میں ہے۔ اقوام متحدہ کو پیش بندی کے طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔