رویت کا مسئلہ، افہام و تفہیم اور اجتہاد سے حل کریں!

رویت کا مسئلہ، افہام و تفہیم اور اجتہاد سے حل کریں!
رویت کا مسئلہ، افہام و تفہیم اور اجتہاد سے حل کریں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عیدالفطر آئی گذر گئی۔ روزہ داروں نے شکر ادا کیا اور کورونا وائرس کے باعث احتیاطی تدابیر کے ساتھ عید کی نماز کے اجتماعات بھی ہوئے،اکثر مقامات پر احتیاط نظر انداز بھی کی گئی، عید ہی کی خاطر لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تھی۔ ہدایات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کورونا متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا،اسی دوران ملک میں چاند کی رویت پر اپنی طرزِ کا مختلف تنازعہ سامنے آیا۔ اس میں پوری قوم دو حصوں میں بٹ گئی۔ایک وہ جو مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور دوسرے سائنسی کیلنڈر کے حامی تھے۔ عیدالفطر کے لئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ تاخیر سے آیا تاہم یہ اس کے مطابق تھا جو وفاقی وزیر سائنس فواد چودھری کی وزارت کے کیلنڈر کی تاریخ تھی، تاہم اس سے یہ ہوا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے مطابق روزہ رکھنے والوں کے روزے پورے نہ ہوئے اور ان کو 29 روزوں پر اکتفا کرنا پڑا، جبکہ سعو دی عرب اور خیبرپختونخوا کے اکثر علاقوں میں مفتی پوپلزئی کے اعلان کے مطابق روزے رکھے گئے،

جو سعودی عرب ہی کے مطابق پورے ہوئے، عیدالفطر کے چاند کی رویت کے حوالے سے یہاں جو صورتِ حال پیدا ہوئی اس نے ایک بحث کو جنم دیا، ماضی میں تقسیم اور تنازعہ افرادی گروہوں کے درمیان ہوتا تھا،لیکن اس بار یہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر اور رویت ہلال کمیٹی کے درمیان تھا جس میں وزارت سائنس کا موقف مانا گیا۔ اس سلسلے میں پوری قوم کو تقسیم کر دیا گیا۔ایک حصہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور دوسرا سائنسی کیلنڈر کے ساتھ تھا۔دُکھ اِس بات کا ہے کہ خالص ایک تکنیکی معاملہ کو اَنا اور بحث کا مسئلہ بنا کر تنازعہ پیدا کرایا گیا۔ سائنسی کیلنڈر کے حامیوں میں صاف دِل و دماغ والے روشن خیال مسلمان بھی تھے تاہم اکثریت ان حضرات کی تھی، جو ملاّ کی مخالفت کے نام پر دینی شعائر کا ہی احترام نہیں کرتے اور سیکولرازم کی بنیاد پر دین ہی کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان حضرات نے سوشل میڈیا پر اپنا صدیوں کا غصہ نکالا اور یہ کہہ کر معترض حضرات کو چُپ کرانے کی کوشش کی کہ مذہب انسان اور خدا کے درمیان معاملہ ہے، جبکہ یہ حضرات نماز اور روزہ سے بھی عاری ہیں اور یہ سائنس کی آڑ میں ملا ئیت کا نام لے کر دین سے بے زاری کا ثبوت دے رہے تھے، سنجیدہ فکر اور دین دار حضرات کے نزدیک جدید علوم سے استفادہ ہونا چاہئے۔


اس سلسلے میں ہماری ذاتی رائے ہے جس کا اظہار کیا تو بعض حضرات اخلاقی سطح سے بھی گر گئے،جبکہ ہم خود سیکولر(غیر فرقہ واریت) ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے رہے تاہم ہم مقلدین میں سے ہیں اور دین کے حامی ہیں، جہاں تک جدید علوم (سائنس) کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک یہ کوئی متنازعہ بات نہیں، ہمارا دین بھی اس سے منع نہیں کرتا،بلکہ آج کے دور میں تو دین کی حقانیت بھی اسی سائنس سے ثابت ہوتی ہے۔ البتہ کمی اِس امر کی ہے کہ انتہا پسندی نے ماحول کو مکدرّ کیا ہوا ہے، جو دونوں طرف ہے اور اس میں اعتدال کا راستہ کہیں گم ہوتا چلا گیا ہے، ہمارے پیغمبر، پیارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو راہیں متعین کیں ان سے رہنمائی سائنسی علوم کی بہتری کے لئے بھی ضروری ہے،لہٰذا تنازعہ بنانے اور فتح و شکست کا تاثر پیدا کرنے کی بجائے اعتدال کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ باہمی افہام و تفہیم اور دینی اجتہاد کے ذیعے متفقہ فیصلے ہو سکیں۔


ملک بھر میں کیا دُنیا بھر میں چاند کی رویت پر اختلاف کی بجائے اتفاق ہونا چاہئے۔اس سال مجموعی طور پر دُنیا کے اکثریتی ممالک میں عیدالفطر ایک ہی روز ہوئی اور پاکستان کے سوا کہیں بھی کوئی بڑا اختلاف نہیں ہوا اور یہاں بھی بات بگڑتے بگڑتے بنا لی گئی اور عید منانے پر تنازعہ نہیں ہوا، ہم نے ایک روزہ کم ہونے کی بات کی تو یہ بھی حقیقت ہے،جو پھڈا کیلنڈر کے حوالے سے فواد چودھری نے شوال کے چاند کے حوالے سے کیا وہ انہوں نے رمضان کے چاند پر کیوں نہ کیا؟ اور شوال کے چاند کے وقت اَنا کا مسئلہ بنایا، بیانات اور پریس کانفرنس کے ذریعے مفتی منیب الرحمن اور رویت ہلال کمیٹی کا مذاق اڑایا اس سے ان کے اور ان کے ماننے والوں کی دِل شکنی ہوئی،حالانکہ گذشتہ ماہ اس بار بھی ان کی وزارت سائنس کا نمائندہ رویت کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھا، اسے تمام ثبوتوں کے ساتھ دلائل دینا چاہئیں تھے، لیکن برادرم فواد نے اپنے موقف کے لئے جو طریقہ اختیار کیا وہ مجھے پسند نہیں آیا،24مئی کی عید پر انہوں نے رویت ہلال کمیٹی کا شکریہ ادا کرنے کا تکلف کیا تو پہلے بھی بہتر طریقہ اختیار کیا جانا چاہئے تھا۔


بہرحال میرا موقف واضح ہے وہ یہ کمیٹی کی معاونت کے لئے محکمہ موسمیات کے ماہرین(معہ فلکیات) کی تکنیکی رائے یہی تھی کہ چاند کی پیدائش 23مئی کو ہو چکی جو سعودی افق کے حوالے سے دکھائی دے گا،لیکن پاکستان میں چونکہ جلد غروب ہو گا اور بہت مدھم ہو گا،اِس لئے یہا ں نظر آنا مشکل ہے۔ پسنی کے علاقے میں دیکھا جا سکتا ہے،لیکن امکانات معدوم ہیں یہ رائے بعد میں بھی وزنی ثابت ہوئی کہ شہادت پسنی ہی سے حاصل کرنا پڑی، حالانکہ یہ کمزور تھی، پھر بھی فیصلہ ہوا تو اس کی وجہ کا بوجھ حضرت مفتی منیب الرحمن پر ہے کہ وہ قوم کو بتائیں اور اب تو موجودہ رویت ہلال کمیٹی کی میعاد بھی پوری ہو چکی، نئی کمیٹی شاید ہی بنے اور اگر بن بھی گئی تو چیئرمین اب روشن خیال ہی ہو گا،مَیں اب بھی محکمہ موسمیات کی رائے کے ساتھ ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ چاند کی حرکت کے حوالے سے سائنس کی توضیح اور حرکت اور ویب سائٹ پر نظر ہونا بھی ہمارے دین کی فتح ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا ”چاند دیکھ کر روزہ رکھ لو“ اور چاند دیکھ کر عید کر لو“ اور یہ آج کے جدید علم نے ثابت کر دیا،کیونکہ دُنیا بھر میں چاند نہ تو بیک وقت نظر آ سکتا ہے اور نہ ہی یکم تاریخ میں یکسانیت ہو سکتی ہے کہ اوقات (صبح+شام) بہت مختلف ہیں۔

سعودی عرب اور پاکستان میں وقت میں بھی دو گھنٹے کا فرق ہے، اِس لئے جب چاند سعودی عرب میں نظر آئے تو وہ پاکستان میں نظر آنے سے پہلے غروب ہو جاتا ہے اور یوں اگلے روز زیادہ روشن ہو کر نظر آتا ہے۔ یہ بات جانتے اور تسلیم کرتے ہوئے بھی مَیں ایک عید کا قائل ہوں اور اوقات کے فرق کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی ایک روز عید ہو سکتی ہے۔بشرطیکہ اس کے لئے اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور علماء کرام اجتہاد سے کام لیں کہ اوقات کے فرق کو مٹایا جا سکتا ہے،ایسی صورت میں حرمین شریفین کی رویت کو متفقہ رویت مانا جا سکتا ہے،جو ایشیا اور یورپ میں بھی(وقت کے تفاوت کے باوجود) ایک ہی روز عید کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔یوں تنازع بھی ختم ہو جائے گا اس کے لئے شرط یہی ہے کہ ضد اور انا کی بجائے افہام و تفہیم سے کام لیا جائے اور علماء کرام بھی دین ہی کی متعین راہوں پر چلتے ہوئے اجتہاد کریں، اللہ سے دُعا اور عوام سے اپیل ہے کہ ”مذہب“(دین) کو متنازعہ بنانے سے گریزکریں،پہلے ہی ہم(مسلمان) گو ناگوں مشکلات سے دوچار ہیں، اور اللہ کے حضور توبہ کی ضرورت ہے۔ چہ جائیکہ کہ ہم لادینیت کا مظاہرہ کریں، شاید کہ اُتر جائے، تیرے دِل میں میری بات!


(گزارشات نیک نیتی سے پیش کر دیں مجھے رویت کے معاملے کا وسیع تجربہ بزرگوں کی بدولت ہے اور میں لکھ بھی سکتا ہوں لیکن تنازعہ سے دور رہنے کی وجہ سے گریز ہی بہتر جانا ہے اس لئے یہ سلسلہ اب یہاں موقوف کیا جاتا ہے)

مزید :

رائے -کالم -