پی ٹی آئی حکومت میں صحت کا شعبہ
پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت کو بنے پونے دو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ اس دوران نہ صرف عوام بلکہ زیادہ تر ماہرین بھی متفق نظر آتے ہیں کہ عمران خان حکومت ناکام اور نا اہل ثابت ہوئی ہے۔ معیشت اور گوورننس کی ناکامی کا سب سے زیادہ خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جو تیزی سے بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے جوق در جوق غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں۔معیشت اور گوورننس، اور اس کے علاوہ زندگی کے دوسرے اہم شعبے جن کا عوام کی زندگیوں سے براہ راست تعلق ہے مثلاً تعلیم، صحت، زراعت اور صنعت و پیداوار وغیرہ بھی تباہ حالی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ تعلیم کو ہی لے لیجئے، صوبہ پنجاب میں 20 مہینوں میں 10 سیکرٹری ہائر ایجوکیشن تبدیل کئے گئے۔ لگتا ہے عمران خان اور عثمان بزدار حکومتوں کو تعلیم سے خاص عشق ہے، اسی لئے وہ اس کا جنازہ بہت دھوم سے نکالنا چاہتی ہیں۔ یہی حال دوسرے تمام محکموں کاہے۔ صوبوں کے آئی جیز، چیف سیکریٹریز اور محکموں کے سیکرٹریز ہر دو چار مہینوں میں تبدیل کر دئیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پورے ملک اور خصوصاً پنجاب اور خیبر پختون خوا کے صوبوں میں سسٹم اپاہج ہو چکا ہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ الہی یہ کیا ماجرہ ہے، کیسے لوگ مسلط ہو گئے ہیں جن کا نہ کوئی ہوم ورک تھا، نہ منصوبہ اور نہ ہی قابلیت کہ وہ ملک اور صوبوں کا نظام چلا سکیں۔ چونکہ ان میں ہر شعبہ کا براہ راست عوام سے تعلق ہے اس لئے باری باری تمام شعبہ جات کی حالت زار دیکھنا ضروری ہے۔ ہم صحت سے شروع کرتے ہیں۔ ویسے تو صحت ہر شخص کے لئے انتہائی اہم ہے لیکن پچھلے دو تین مہینوں سے پھیلی کرونا کی وبا سے اس کی اہمیت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔
صوبہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی سات سال سے بلا شرکت غیرے حکومت ہے۔ ملک کے باقی صوبوں کے مقابلہ میں صحت کے شعبہ کے معاملات سب سے زیادہ خیبر پختون خوا میں دگرگوں ہیں۔ پچھلے دو مہینوں میں کرونا کی وبا نے سب سے زیادہ جس صوبہ کو متاثرکیا وہ خیبر پختون خوا ہے۔ جس طرح بارش کے بعد چیزیں زیادہ صاف نظر آتی ہیں، اسی طرح کرونا کے آنے کے بعد ان تمام دعووں کی قلعی دھل گئی ہے جو پی ٹی آئی سات سال سے کر رہی تھی۔ آبادی کے تناسب کے حساب سے کرونا سے متاثرہ افراد اور ہلاکتوں کی تعداد خیبرپختون خوا میں دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے اور وہاں کا محکمہ صحت بری طرح ناکام ہے۔ ڈاکٹر اور ہیلتھ سٹاف بھی سب سے زیادہ خیبر پختون خوا میں کرونا کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ وہاں کی حکومت نے ڈاکٹروں اور ہیلتھ سٹاف کو انتہائی ضروری حفاظتی ساز وسامان (PPEs) کے بغیر مریضوں کے سامنے جھونک دیا تھا۔ جب کچھ ڈاکٹروں کو بغیر حفاظتی بندوبست کے کرونا ہوا تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کو دیکھنے والے ڈاکٹروں کی حفاظت یقینی بنائی جائے، انہیں کٹس دی جائیں اور کرونا کے ٹیسٹ کرائے جائیں لیکن خیبر پختون خوا حکومت نے نہ صرف کرونا سے لڑنے والے ڈاکٹروں کو نوکریوں سے فارغ کرنے کی دھمکیاں دیں بلکہ ان پر ڈنڈے بھی برسائے گئے۔
یہ ہے پی ٹی آئی حکومت کا طریقہ کار کرونا کے خلاف جنگ لڑنے کا۔ اس وقت پشاور کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں زچہ وارڈ بند ہو چکے ہیں کیونکہ ان وارڈوں کے ڈاکٹر کرونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ گویا پشاور میں ایک بھی سرکاری ہسپتال ایسا نہیں ہے جہاں ڈلیوری ہو سکے اور لوگوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں کا بھاری خرچہ اٹھانے پر مجبورکردیا گیا ہے۔ جو تھوڑا بہت حفاظتی سامان دیا گیا ہے اسے تین شفٹوں میں مختلف ڈاکٹروں کو استعمال کرنے کا کہا گیا ہے حالانکہ ماسک، حفاظتی لباس اور عینک ہر ڈاکٹر کی علیحدہ ہوتی ہے تاکہ مختلف ڈاکٹروں کے استعمال کرنے کی وجہ سے کسی کی انفیکشن دوسرے ڈاکٹر کو نہ لگ سکے۔ خیبر پختون خوا میں صحت کے شعبہ پر صرف فاتحہ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی گوورننس میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اہم عہدوں کی بندر بانٹ اپنے قریبی دوستوں یا رشتہ داروں میں کر رکھی ہے۔ دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک جس کی 22 کروڑ آبادی ہو، وہ دوستوں اور رشتہ داروں کی مدد سے تو نہیں چلایا جا سکتا۔ اس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے کہ پورے ملک کی گوورننس کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ وفاقی کابینہ میں کل 51 اراکین ہیں جن میں منتخب افراد صرف 28 ہیں جبکہ 23 کابینہ اراکین غیر منتخب ہیں جن میں زیادہ تر عمران خان کے قریبی تعلق دار ہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ پہلی ”منتخب“ حکومت ہے جس کی تقریباً آدھی کابینہ غیر منتخب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے موجودہ مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے موجودہ پارلیمنٹ کو پاکستان کی پوری تاریخ کی سب سے ناکام پارلیمنٹ قرار دے دیا ہے۔ گویا یہ سرٹیفیکیٹ اپوزیشن یا میڈیا نے نہیں بلکہ ان کے اپنے ایک اہم ترین مشیر نے دیا ہے۔عمران خان کی اقربا پروری کا آغاز سات سال پہلے ہو گیا تھا جب ان کی صوبہ خیبر پختون خوا میں حکومت بنی۔ ان سات سالوں سے صوبہ خیبر پختون خوا میں صحت کا نظام عمران خان کے کزن ڈاکٹر نوشیروان برکی چلا رہے ہیں۔ اس تمام عرصہ میں صوبائی حکومت اور صوبائی وزارت صحت کو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا پڑا ہے جبکہ تمام فیصلے ڈاکٹر نوشیروان برکی کی ”عقل کل“ کرتی رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صوبہ میں صحت کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک آمرانہ نظام قائم کر رکھا ہے جس سے صوبہ میں صحت کا سسٹم بری طرح مسخ ہو گیا ہے۔نوشیروان برکی سات سال سے پختون خوا میں صحت کے شعبہ میں اور دو سال سے پورے پاکستان میں صحت کے مختارِ کل بن چکے ہیں اور عمران خان نے جو ہیلتھ تاسک فورس بنائی ہے وہ اس کے بھی سربراہ ہیں۔ موصوف کی وجہ سے پاکستان کا صحت کا پورا نظام تلپٹ ہو گیا ہے اور دہائیوں سے قائم پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ قلم کی ایک جنبش سے ختم کر دیا گیا۔ PMDC پوری دنیا میں پاکستانی ڈاکٹروں کا واحد مستند ادارہ تھا جس کو ہر ملک تسلیم کرتا تھا۔ صدارتی آرڈیننس میں PMDC کی جگہ پاکستان میڈیکل کونسل (PMC) بنایا گیا جس نے نہ صرف پورے ملک میں میڈیکل تعلیم کا مستقبل مخدوش کر دیا بلکہ دنیا بھر میں پاکستانی ڈاکٹروں کی recognition بھی داؤ پر لگا دی جس سے ہر ملک میں پاکستانی ڈاکٹروں میں بے چینی پھیل گئی کیونکہ PMC تو کہیں بھی recognized نہیں ہے۔ وہ تو بھلا ہو اعلی عدالتوں کا جنہوں نے میڈیکل پروفیشن کی تباہی دیکھی تو پہلے ہائی کورٹ نے آرڈیننس معطل کیا اور پھر سپریم کورٹ نے میڈیکل کا سسٹم چلانے کے لئے ایک اعلی کونسل تشکیل دے دی ہے۔
اس طرح پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی ڈاکٹروں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچ گیا ہے۔ ڈاکٹر نوشیروان برکی کے اس اقدام کے پیچھے پرائیویٹ میڈیکل کالج مافیا ہے جو ڈاکٹر ی کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مندوں سے اربوں روپے بٹور رہا تھا۔ عدالت عالیہ کی تشکیل کردہ کونسل نے ایسے تمام دو نمبر میڈیکل کالجوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی ہے جو سپریم کورٹ کو میڈیکل شعبہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ڈاکہ زنی کی اس بڑی واردات کو ناکام بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر نوشیروان برکی امریکہ میں پائے جاتے ہیں لیکن سات سال سے ان کی ایک ٹانگ خیبر پختون خوااور دو سال سے پورے پاکستان میں میں صحت کا شعبہ ”چلانے“ میں اڑی ہوئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب سے کرونا کی وبا آئی ہے وہ امریکہ میں روپوش ہیں اور کسی نے انہیں پاکستان میں جنوری کے بعد نہیں دیکھا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے جسے ملکی صحت کا سپہ سالار بنایا گیا ہے وہ عین کرونا کے خلاف جنگ کے دنوں میں گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہے۔ موصوف pulmonolgist ہیں یعنی ماہر امراض سینہ اور سانس کی بیماریوں کے، اور کرونا براہ راست ان کا اپنا شعبہ ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کا یہ حال ہے کہ پہلے پراپرٹی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے عامر محمود کیانی کو وفاقی وزیر صحت بنایا گیا۔ تقریباً سال بعد جب ان پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگے تو انہیں وزارت سے ہٹا کر پی ٹی آئی کا جنرل سیکرٹری لگا دیا گیا۔ یعنی جو شخص کرپشن کے الزامات میں ہٹایا گیا ہو اس کے ہاتھ میں پوری حکومتی پارٹی دے دی جائے۔ اس کے بعدایک غیر منتخب شخص ڈاکٹر ظفر مرزا کو مشیر صحت لگایا گیا ہے لیکن ان کے دور میں بھی اربوں کے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔بیوروکریسی کو دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں نا اہل ترین حکومت کی حکمت عملی کا یہ عالم ہے کہ جب سے کرونا کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے، پچھلے تین ماہ میں چار وفاقی سیکرٹری صحت تبدیل ہو چکے ہیں۔ جس حکومت میں وفاقی سیکرٹری ہر مہنیہ فارغ کر دیا جاتا ہو، وہ خاک کام کر سکے گی۔ گذشتہ ہفتہ عامر اشرف خواجہ کو وفاقی سیکرٹری صحت لگایا گیا۔ ان سے قبل ڈاکٹر تنویر قریشی کو دو ماہ اور ڈاکٹر توقیر شاہ کو صرف چھ دن بعد ہٹایا گیا۔ ڈاکٹر توقیر شاہ کو سیکرٹری ہیلتھ لگانے کے بعد حکومت کو خیال آیا کہ وہ وزیر اعلی شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر صرف چھ دن بعد اگر ہٹانا ہی تھاتو لگایا کیوں تھا۔ چیف جسٹس پاکستان کے کرونا ازخود نوٹس کیس میں ریمارکس حکومت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔پی ٹی آئی حکومت نے باقی تمام شعبوں کی طرح صحت کے شعبہ کا بیڑہ غرق اور 22 کروڑ عوام کو کرونا کے خلاف بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ آگے پاکستانی عوام کی قسمت........اللہ کرے قسمت اچھی ہو۔