میرے دوست نے مجھے ایک ویڈیو بھیجی،ویڈیو کا متن مذاق پر مبنی تھا لیکن اس کے اختتام نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کیوں کہ یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت تھی ۔۔۔ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک ملازم اپنے افسر کے پاس جاتا اور کہتا ہے، سر اِس مرتبہ پھر میری تنخواہ باقی لوگوں سے کم بڑھی ہے حالانکہ میں وقت پر آتا اور اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتا ہوں، پھر ایسا کیوں ؟ ؟ ؟ افسر جواب دیتا ہےکہ آپ کے اندر ایک سکل کی کمی ہے، جب تک آپ اپنی اس سکل کو بہتر نہیں کرتے،آگے ترقی نہیں کر سکتے ۔۔۔
ملازم بڑی حیرانگی کے ساتھ پوچھتا ہے سر آپ میری رہنمائی کریں میں اپنی اس کمی دور کرتے ہوئے سکل بہتر بنانے کی کوشش کروں گا ۔۔۔ افسر کہتا ہے آپ کو خوشامد کرنا نہیں آتی ، بس ایک یہ ہی کمی آپ کی ترقی میں رکاوٹ ہے،باقی لوگ کام میں بھی نکمے ہیں اور وہ لوگ دفتر بھی دیر سے آتے ہیں لیکن وہ خوشامد والی سکل سے مالامال ہیں،اسی لئے وہ کامیاب کہلاتے ہیں اوراپنے باس کی آنکھوں کا تارا بھی کہلاتے ہیں (عرفِ عام میں انہیں مالکان کا چمچہ بھی کہا جاتا ہے) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہی "چمچہ گیری اور خوشامد " ایک سکل ہے؟اگر یہ حقیقت ہے تو پھر اس کو جاب سی وی میں لکھا جانا چاہئے اور اگر یہ سکل نہیں تو ایماندار اور محنتی اور مخلص لوگوں کو اس کا طعنہ کیوں دیا جاتا ہے؟؟؟.
خوشامد کا دوسرا نام چاپلوسی ہے، ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں خوشامد ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے اور اس کو سکل بولا جاتا ہے. خوشامد کرنے والے اس طرح خوشامد کرتے ہیں کے وہ دوسرے کو حقیقت لگتی ہے لیکن اصل میں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.
آپ کسی بھی شعبے میں چلے جائیں خوشامدی لوگ آپ کو ہر شعبے میں ملیں گے، یہ ایک ایسی برائی اور بیماری ہے جس کا شکار ہر قسم کےلوگ ہیں.ہمارے ملک کے موجودہ وزیراعظم عمران خان بذات خود اچھے اور ایماندار آدمی ہیں لیکن وہ بھی اس ملک کو معاشی مسائل سےنہ نکال سکےکیونکہ ان کی موجودہ ٹیم میں زیادہ تر لوگ خوشامدی ہیں، جو نہ تو خود کام کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں. خوشامد کرنے والوں میں ایک ""خوبی"" یہ بھی ہے کہ وہ لوگ دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں. یہ لوگ دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں، ان کو تکلیف پہنچا کر آخر اِن کو کیا ملتا ہے اور رات اِن کو نیند کسے آ جاتی ہے؟ کیا ان کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے کیونکہ کہ زندہ ضمیر لوگ دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچاتے.ان جسے لوگوں کے لیے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے"۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 13)
میرا ان خوشامدی لوگوں سے سوال ہے، کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے جیسا یہ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو خدا کے لئے دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں . مجھے خوف آتا ہے ان لوگوں کی حالت پہ کیوں کہ اگر یہ لوگ اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو یہ بھی کسی دن خود اس کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ کے یہ دنیا مکافات عمل ہے آپ جو دوسروں کے ساتھ کریں گے وہی آپ کے ساتھ ہو گا . میں اپنی تحریر کو ان الفاظ سے ختم کرنا چاہوں گا خوشامد ایسا تیر ہے جو سیدھا کبھی نہیں جاتا ،ہمیشہ گھوم پھر کر ہدف پر پہنچتا ہے.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔